ہندو کی چاپلوسی میں افغانستان اپنے مفادات کا سودا کر رہا ہے

 افغانستان جس کے ماضی کی تاریخ کے تمام ہی ہیروز بالکل اسی طرح ہمارے بھی سورما ہیں جس طرح وہ افغان قوم کے ہیروز اور سور ما ہیں۔پاکستان نے ایک مسلمان ملک کے حیثیت سے ہمیشہ ہی افغانوں کو نا صرف اپنی تاریخ کا اہم حصہ سمجھا ہے بلکہ ان کو اپنے بھائیوں کی طرح جانا ہے۔مگر بد قسمتی سے ہماری آزادی سے آج تک سوائے گذشتہ چند سالوں کے ہمیشہ افغان حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ مخاصمت کا رشتہ استوار رکھا ہے۔جس میں ہمارے ماضی کے پاکستان دشمن اور آج کے چند لوگوں کے ساختہ تحریک آزادی کے ہیروز کا سب سے بڑا ہاتھ رہا ہے۔ان لوگوں کے ذہن میں آزاد پختونستان کا خناس سمایا ہوا تھا اور یہ لوگ پاکستان کے اتحاد کے شدید مخالف بھی رہے ہیں۔انہی کے ایماء پر افغانستان ہم سے شدید قسم کی مخاصمت رکھتا چلا آیا تھا۔حد تو یہ ہے کہ جب ستمبر 1947 میں پاکستان کو اقوام متحدہ کا رکن بنایا جارہاتھا۔ تو ہمارے اس پڑوسی ملک افغانستان نے کھل کر اقوام متحدہ میں ہماری رکنیت کی مخالفت کی تھی۔یہ بات آج تاریخ کا انمٹ باب ہے اور ہمارا ظرف دیکھئے کہ ہم نے آزادی کے وقت سے آج تک اپنے اس نام نہاد بھائی کو اپنے ملک کی کراچی کی بندرگاہ سے افغانستان تک تجارتی راہداری کی آزانہ سہولتیں فراہم کی ہوئی ہیں۔ گذشتہ 33سالوں کے دوران افغانستان کی پریشانی کو ہم نے اپنی پریشانی بنا کر اپنی معیشت اور سماج کا حشر بگاڑ لیا ہے۔جس کی وجہ سے پچاسیوں ہزار پاکستانیوں کو موت کی ابدی نیند دہشت گردی کے ہاتھوں سوناپڑی ہے۔افغانستان آج ماضی سے کئی گناہ زیادہ ہندوستان کا پروردہ بنا ہوا ہے اور ہندوستان سے مل کر پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پرکئی کئی مقامات پر تخریب کاری میں شامل دکھائی دیتا ہے۔

ستر کے عشرے کے درمیان میں (علاقائی تعاون برائے ترقی) آر سی ڈی کے نام سے 1964میں تین اسلامی ممالک پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان اقتصادی ترقی کا ایک ایسا معاہدہ ہو تھا جو علاقے کیلئے Game changerکی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔اس معاہدے کے نتجے میں تینوں برادر مسلم ملک اس قدر نزدیک آگئے تھے۔کہ انہوں نے اپنے شہریوں کے لئے ویزے کی پابندیاں تک ختم کر دی تھیں۔ان ملکوں کے درمیان رسل و رسائل بے حد آسان ہوگئی تھی ۔تینوں ممالک کے درمیان آر سی ڈی ہائی ویزتعمیر کئے گئے۔ اس معاہدے کے تحت تینوں ممالک کو آر سی ڈی ریلوے نظام کے ذریعے کنکٹ کرنے کیلئے ریلوے کے نظام کو فعال کیا گیا۔جس سے تینوں ممالک میں تجارٹی ٹرنسپورٹیشن بے حد آسان بنادی گئی تھی۔ مگر پھر اس معاملے میں 80 کی دہائی میں سرد مہری نے جنم لیا اور ہمارا بھائی چارے کا نظام کمزور ترہوتا چلا گیا۔

آر سی ڈی کے کمزور ہونے پر علاقائی ممالک کی ایک نئی اقتصادی تنظیم ای سی او کی بنیاد اس سوچ کے تحت رکھی گئی ہے کہ علاقائی مملکتوں کی معاشی مشکلات کو مل بیٹھ کر کم کرنے کی کوششوں کو پروان چڑھائیگا۔ اس تنظیم کے گذشتہ برسوں میں بارہ اجلاس ہو چکے ہیں۔ ای سی او، کا 13واں سربراہ اجلاس پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بدھ یکم مارچ2017 کو وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی صدارت میں منعقد ہوا ۔جس میں 10رکن ممالک کے 8حکومتوں کے سربراہوں نے اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔ افغانستان جو سارک تنظیم کے اجلاس میں بھی ہندوستان کی حمایت کرتے ہوئے شریک نہیں ہوا تھا۔ اس اجلاس میں بھی اشرف غنی ہندوستان کے ایماء پر شریک نہیں ہوئے۔ جو ان کے پاکستان کے بارے میں کردار پر سوالیہ نشان ہے!

ای سی او کے اس اجلاس میں پاکستان کے علاوہ ایران،آزر بائیجان، ترکی، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان، کرغیزستان،اور ازبکستان کے سربراہان ِمملکت شامل ہوئے۔جبکہ افغان صدر کی نمائندگی افغانستان کے سفیر نے کی۔اس اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ رکن ممالک کے درمیان رابطے استوار کر کے ہمیں تجارتی راستوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔جنوبی اور وسطی ایشیا میں سی پیک کو اب توانائی کے بنیادی ڈھانچے، ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں رابطوں اور تجارت کے فروغ کا بنیادی منصوبہ مانا جارہا ہے۔جس سے مشرق وسطہ، افریقہ اور یورپی منڈیوں تک رسائی فراہم کریں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اقتصادی تعاون تنظیم کا خطہ غیر اہم جغرافیائی علاقہ میں ہیں ہے۔جہاں دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ آبادہے۔ مگر دنیا کی تجارت اس حصے سے صرف دو فیصد ہوتی ہے۔ہم ایشیا کے تجارتی اور اقتصادی مرکز ہونے کے تاریخی کردار کو زندہ کریں۔

اس اجلاس سے ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ 21ویں صدی ایشیا کی ابھرتے ہوئی معیشت کی صدی ہے۔ای سی او ممالک کو ہائی ویزکے ذریعے کر لنک کرنے کی ضرورت ہے۔جس سے علاقے کو خوشحال بنایا جاسکتا ہے․․․․آزر بائجان کے صدر الہام علیوف نے اسلاموفوبیہ کے یورپ میں بڑھتے ہوئے رجحان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اسکو دہشت گردی سے نہ جوڑا جائے۔انہوں نے نگورنو کارا باخ کے مسئلے پر حمایت پر پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا․․․․تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن نوف کا کہنا تھا کہ وسائل کا موثر استعمال علاقائی امن کے اہم عناصر ہیں۔رکن ممالک کو سماجی، اقتصادی ترقی،غربت کے خاتمے اور معیارِ زندگی بہتر بنانے کے معاملے میں تعاون کرنا چاہیئے․․․․․کرغیستان کے وزیرِ اعظم سورن ہائف جین بیلوف نے کہا کہ ایکو ممالک کو سائنس و ٹیکنا لوجی کے شعبوں میں تعاون بڑھانا ہوگا․․․․ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی خطے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔،زراعت، ماحولیات اور سیاحت کے شعبوں میں تعاون کی ضرورت ہے․․․․ازبکستان کے نائب وزیرِ اعظم الغ بیگ رزاق علیوف نے اقتصادی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے مابین ٹرانسپورٹ توانائی اور مواصلات کے شعبوں میں مشترکہ منصوبہ بندی پر زور دیا․․․․․ترکمانستان کے صدر قربان گلبر دی محمدوف کا کہنا تھا کہ تاپی منصوبے پر عمل جاری ہے،ای سی او نے رکن ممالک کی ترقی کی راہیں متعین کر دی ہیں۔

افغانستان کے حکمران ہندووں کی چاپلوسی میں اپنے عوام کو ایک جانب تنہا کر رہے ہیں تو دوسری جانب ان کو اقتصادی ترقی سے بھی روک رہے ہیں۔یہ سب کچھ وہ ہندوستان کے ایما پر پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے کر رہے ہیں۔افغان حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لے کر علاقے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال کر افغان عوام کی ترقی کی راہ میں روڑے محض پاکستان دشمنی کی بنا پر نہیں اٹکانے چاہئیں اور یہ بات بھی ذہنوں میں رکھنی چاہئے پاکستا کبھی بھی اپنے افغان بھائیوں کی برئی نہیں چاہے گا۔جس کے لئے ہماراماضی شاہد ہے۔
 

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213551 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.