دھماکے کی خبر سنتے ہی دل دکھ کے سمندر میں ڈوب جاتے
ہیں۔کیمروں کی زد میں آنے والے روتے چہروں پر آنسوؤں کی جھڑی ہوتی ہے۔لوگ
اپنے پیاروں کو دھماکے کی جگہ تلاش کرتے بے دھڑک بھاگتے پھرتے ہیں۔کچھ امید
لئے متعلقہ اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔جائے وقوعہ پر خون اور انسانی اعضا ء
کا بے دردی سے یوں بکھرے ہونا ذہن کو انتہائی تکلیف دہ کچوکے لگاتا
ہے۔خوشی،مستی،صحت ،چلنا ،پھرنا،کھانا،پینا،ہنسنا،کھیلنا،بولنا،،سب ہی تو
بارود کی آگ میں خاکستر ہو جاتاہے وہ بھی بس پل بھر میں۔۔!
ڈیفنس میں دھماکے کی خبر سننے کے کچھ دیر بعد جب ملازمت سے گھر کا رخ کیا
تو اس سفر کے دوران زندگی کو رواں دواں دیکھا۔قریبی مارکیٹ میں لوگ اپنی
دکانوں میں بیٹھے تھے،کہیں خریداری ہورہی تھی،کوئی گاڑی تو کوئی موٹر
سائیکل پر محو ِ سفر تھا،بچے اسکول سے گھر جا رہے تھے،بس اسٹاپ پر کچھ لوگ
بس کے انتظار میں اس کی راہ تک رہے تھے اورٹھیلے والے دو چار گاہک لئے ان
کو اپنی سروس سے محظوظ کر رہے تھے۔ان چہروں پر اپنے اپنے کاموں کی ذمہ
داری،فکر،اجلت اورسوچ کے تاثرات دیکھنے کو ملے۔زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ
چمک رہی تھی۔خیال آیا کہ جہاں دھماکہ ہو تا ہے وہاں پر بھی تو ایسے ہی
زندگی مصروف ہوتی ہو گی ،بے فکر،انجان،بے خوف،مگن اور پرامید سی۔مگر ایک
ہولناک گونج کے بعد!!!منظر یکایک تبدیل ہو جاتا ہے۔بس ہوتی ہے تو لہولہان
زندگی،پیاروں سے دوری،خون میں لپٹی خاموشی،زخموں سے چور شور،بھاگم بھاگ اور
امید کابے رحمانہ قتل۔۔!
بے شک یہ لوگ کسی صورت انسان کہلانے کے لائق نہیں۔کس قدر دھیرے سے ایک عام
آدمی کی طرح یہ سفاک لوگ مجمع میں داخل ہو جاتے ہیں اور موقع پاتے ہی اس
گناہ کا بٹن دبا دیتے ہیں کہ جو ان کی سوچ کے مطابق ان کو جنت میں لے جاتا
ہے۔مگر وہ نہیں جانتے کہ اس کے بعد ان کے لئے سخت عذاب ہے۔ایسے لوگوں کے
لئے ارشاد ہے،
''جو اﷲ سے اور اس کے رسول سے لڑیں،اور زمیں میں فساد کرتے پھریں،،ان کی
سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں،،یا مخالف
جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں،یا وہ جلاوطن کر دیئے جائیں،،،یہ
تو ہوئی ان کی دنیاوی ذلت اور خواری ،اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری
عذاب ہے''۔( القرآن،سورۃ المائدہ،آیت نمبر ۳۳)
ملک گیر آپریشن'' ردالفساد ''(یعنی فساد کو رد کرنا)کا جو تاریخی فیصلہ کیا
گیا ہے وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایک انتہائی اہم قدم ہے۔اگر ایسا ملک
گیر آپریشن کا فیصلہ پہلے کر لیا جاتا تو ہزاروں لوگ اپنے پیاروں سے محروم
نہ ہوتے مگر ملک کو مزید نقصان و تباہی سے بچانے کے لئے بہر حال یہ ایک بہت
اچھا اقدام ہے۔عوام اس فیصلے میں فوج و حکومت کے شانہ بشانہ ہے۔پاکستانی
قوم اپنی بہادر بری ،بحری و فضائی فوج سے بے حد محبت کرتی اور ان کا احترام
کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام نے ہمیشہ فوج کے دشمن مخالف ہر آپریشن کو بہت
سراہا اور اس کا خیر مقدم کیا۔جنرل راحیل شریف کوآپریشن ضرب عضب کی وجہ سے
بے پناہ عزت و پذیرائی ملی۔لوگوں کے دلوں میں اس عظیم اور فرض شناس چیف نے
پوری طرح اپنا گھر کر لیا۔اس کی ہر پیش قدمی پردعاؤں نے اس کی حفاظت کی اور
اس کے دشمن کے خلاف پختہ اور مضبوط ارادوں پر عوام نے انشا ء اﷲ کہا۔موجودہ
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد دہشت گردی
کے خاتمے کے لئے اپنے نیک عزائم کا اظہار کیا ہے اور آپریشن رد الفساد کا
باقاعدہ آغاز بھی کر دیا ہے ۔جہاں ملکی سطح پر لوگوں نے اس کو بہت سراہا ہے
وہاں بین الاقوامی فارم پر بھی اس پر بات کی گئی ہے ۔پاکستانی عوام کی
نظریں روز ٹی وی اسکرینز پر رینجرز و فوج کو ملک امن مخالف قوتوں کی طرف
قدم بڑھاتے اور کامیاب کا رروائیاں کرتے دیکھ رہی ہے ۔رینجرز کی محدود
کارروائیوں کا جال اب وسیع پیمانے پر پھیلا دیا گیا ہے جس سے بے شک بڑی
کامیابیاں حاصل ہوں گی ۔انشا ء اﷲ!
اس بات پر بھی اشد توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کون لوگ ہیں جو دیہاتوں و
شہروں میں لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں؟کون ان کی سوچ کو ختم کر کے ان کے
ذہنوں پر اپنی خونی ذہنیت کو مسلط کر کے اپنے اس گھٹیا کھیل میں شامل کر
رہے ہیں؟حیرت کی بات ہے کہ ان خود کش دھماکاکرنے والوں کی آنکھوں پر تو کسی
نے اپنے مکروہ اصولوں و نظریات کی ایسی سیاہ پٹی باندھی ہوتی ہے کہ جو ان
کو نہتے لوگوں کے بے ضرر ہونے ،بچوں کی معصومیت بھری مسکراہٹ،کسی کے بوڑھے
ماں باپ کا لحاظ اور کسی کے جوان سہاروں تک کی رتی بھر پرواہ کرنے کے بھی
قابل نہیں چھوڑتی۔وہ تو بس بے خوف،بے دل اوربے ایمان ہو چکے ہوتے ہیں ۔ان
کی برین واشنگ کس قدر چالاقی اور شاطر دماغ سے کی گئی ہوتی ہے کہ جو ان کی
خود کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل ماؤف کر دیتی ہے۔ ایک تو ہمارے ہاں بے
شمارمسلک جنم لے چکے ہیں ۔ان پر چلنے والوں کے نظریات دوسرے مسلک سے متصادم
ہوتے ہیں۔ان نازک معاملات میں اگرلوگوں میں بحث و مباحثہ ہو جائے تو بات
دست وگریبانی و قطع تعلقی کی نہج پر پہنچ جاتی ہے۔جذبات انگاروں کی طرح
کروٹ لیتے رہتے ہیں اور سکون کی جگہ غم وغصہ اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔بات بہت
سادہ ہے کہ ہم سب ایک اﷲ کے ماننے والے ہیں اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ کی
امت میں سے ہیں۔ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ان خود ساختہ ذاتی نوعیت
کی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے ۔ معاشرے میں مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا
ہے۔لوگوں کے ذہنوں کو غلط راستے پر جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔لڑائی جھگڑوں
سے اجتناب کیا جا سکتا ہے۔متعلقہ اداروں و مدرسوں میں بھی اس بات کو یقینی
بنایا جائے اور مکمل چیک رکھا جائے ۔منفی نوعیت کی سوچ جو فرقہ واریت کو
ہوا دینے کی متحمل ہو اس کے خلاف مقامی وصوبائی سطح پر سخت نوٹس لیا جائے۔
اب ہم سب کو ایک ہو کر چلنا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف اس اہم جنگ میں پوری طرح
فوج و رینجرز کا ساتھ دینا ہے۔خود کو بلاوجہ کے جذباتی و گرم مزاج سے دور
رکھنا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر عدم برداشت کا مظاہرہ نہیں کرنا ہے۔ہمیں
اپنے ملک کو بچانے اور امن و امان کی سلامتی کے لئے قدم اٹھانا ہے۔عام سی
بات کو خاص و چٹخارے دار بنا کر پیش کرنے سے باز رہنا ہے اور سوشل میڈیا پر
گالم گلوچ کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے والی پوسٹس لگانے وشیئر کرکے بد
امنی پھیلانے کا باعث بننے سے پرہیز کر نا ہے۔اور یہ چندکام کوئی کٹھن و
ناممکن نہیں ۔ بس بے چین اور تیز طبیعت میں تھوڑا ٹھہراؤ اور سنجیدگی لانے
کی ضرورت ہے ۔ہمیں یہ کردار ادا کرنا ہے۔سمجھیں اور کوشش کیجئے۔ ۔! |