کیسا مقدمہ۔۔۔۔۔کیسی سزا

بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی اندھیر نگری چوپٹ راجہ ڈاکٹر عافیہ کو سزا سنانے کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی کہ ترقی کے اس دور میں بھی وہی اندھیر نگری ہے۔ عافیہ کو امریکہ کی عدالت سے دی جانے والی 86 سال قید کی سزا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امریکہ میں پانچ سال میں پہلی بار کسی عورت کو انتہائی سزا دی گئی ہے۔ یہ سزا مسلمان نوجوانوں کو امریکہ کی جانب سے ایک تنبیہ ہے کہ وہ اگر حریت فکر، آزادی اظہار اور امریکہ کے دہرے معیار کے خلاف کوئی بات کریں گے تو انہیں درس عبرت بنا دیا جائے گا۔ عافیہ ایک ایسی مظلوم عورت ہے۔ جس کی پکار پر کوئی ابن قاسم مدد کو نہ آیا۔ اس پر ظلم کرنے والے خود اس کی اپنی قوم کے حکمران افراد ہیں۔ جو کبھی غیر مسلموں پر ظلم کے خلاف کھڑے ہوجاتے تھے۔ آج ڈالروں کی جھنکار نے انھیں اپنی قوم کی اس بیٹی کی چیخوں سے بے نیاز کردیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور ایک مظلوم نہتی عورت سے خوفزدہ ہے۔ اس مظلوم عورت کے شیر خوار بچے کو اس سے چھین کر مار ڈالا گیا۔ اس کے دو بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا گیا۔ یہ مقدمہ ایک ڈھکوسلا ثابت ہوا۔ جس میں انصاف کا قتل کیا گیا ہے۔ اس مقدمے پر ساری دنیا کی نظریں تھیں۔ دنیا یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ امریکہ جو حریت فکر، اظہار آزادی، معاشرتی انصاف کا درس دیتا ہے۔ کیا انہی اصولوں پر وہ انصاف بھی مہیا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد امریکہ نے انصاف کے دہرے معیارات قائم کئے ہیں۔ امریکی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ جنہوں نے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ امریکہ نے اس مقدمے میں انصاف کا خون کیا ہے۔ اس کا مقدمہ دیکھنے کے لئے عدالت میں جو لوگ آتے تھے۔ ان میں برقعہ پوش اور حجاب پہنے عورتیں بھی تھیں، باریش نوجوان بھی، بچے بھی تو لبرل وضع قطع اور خیالات رکھنے والے مرد اور عورتیں بھی۔ عدالت میں جب پہلی بار عافیہ کو پیش کیا تو وہ شدید زخمی تھیں۔ اس وقت جج کو بتایا گیا کہ، ڈاکٹر عافیہ کے پیٹ میں زخم ہے اور آنتوں سے خون جاری ہے اور اب تک انہیں حکومت کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھا رہی‘۔ جج نے پوچھا کہ اب تک انہیں کسی ڈاکٹر یا لائسنس یافتہ فزیشن کو کیوں نہیں دکھایا گیا؟‘ امریکی وکیل استغاثہ نے جواب دیا مدعا علیہ اپنا طبی معائنہ کسی خاتون ڈاکٹر سے کروانا چاہتی ہے اور خاتون ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوسکیں‘۔ یہ ہے امریکہ کا انصاف۔ ایک اور جھلک ملاحظہ ہو۔۔۔۔ استغاثہ کی طرف سے پیش کئے گئے گواہ احمد گل نے، جو افغانستان میں امریکی افواج کے لیے مترجم تھے، عدالت کو اٹھارہ جولائی سن 2008 کے واقعات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی کمر اس پردے کی طرف تھی جس کے پیچھے ڈاکٹر صدیقی موجود تھیں۔ جب امریکی فوجی کیپٹن سنائیڈر نے چیخ کر کہا کہ ”اس کے پاس رائفل ہے” تو انہوں نے مڑ کر دیکھا کہ ڈاکٹر صدیقی بندوق اٹھائے پلنگ کے پاس کھڑی تھیں۔ مسٹر گل کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کو رائفل سمیت دھکا دیا۔ اور جب امریکی چیف وارنٹ افسر نے ان کے پیٹ میں گولی ماری تب وہ بمشکل ان سے رائفل چھین پائے۔ اس دوران ان کے مطابق رائفل سے دو گولیاں چلیں۔ گزشتہ روز کیپٹین سنائیڈر نے بیان دیا تھا کہ ڈاکٹر صدیقی رائفل تانے پلنگ پر گھٹنوں کے بل بیٹھی تھیں۔ وکیل صفائی لنڈا مورینو کے پوچھنے پر مسٹر گل نے واضح طور پر کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کو پلنگ پر گھٹنوں کے بل بیٹھے نہیں دیکھا۔ وکلاء صفائی کی جرح پر مسٹر گل نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ امریکی حکومت کے تعاون سے امریکہ منتقل ہو چکے ہیں اور امریکی شہریت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ہیں وہ خریدے ہوئے گواہ جن پر اس مقدمے کی بنیاد رکھی گئی۔ ایک اور گواہ ملاحظہ کیجئے۔ یہ گیری وڈ ورتھ ہیں، جو کہہ رہی ہیں کہ میں نے بیس برس پہلے اس لڑکی کو بارہ گھنٹے کے نیشنل رائفل کے بنیادی کورس میں پسٹل شوٹنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا، جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ہزاروں طلبہ میں سے اس طالبہ کو بیس برس بعد کیسے شناخت کرسکتی ہیں تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس لڑکی نے چار سو سے بارہ سو راؤنڈ چلائے تھے۔ لیکن یہ پسٹل سے چلائے تھے۔ کسی رائفل سے نہیں چلائے تھے۔ اس جواب نے ساری عدالت کو ششدر کردیا ایک اور گواہ ایف بی آئی کے ایجنٹ بروس کیمرمین کا کہنا تھا کہ جولائی ۸۰۰۲ میں عافیہ نے انہیں بتایا تھا کہ میں نے یہ رائفل ڈرانے کے لئے اٹھائی تھی۔ تاکہ میں فرار ہوسکوں۔ میں نے اس بیان کے بارے میں اپنے اعلیٰ حکام کو آگاہ کردیا تھا، لیکن جب دفاع کے وکیل ایلن شارپ نے اس ایف بی آئی کے ایجنٹ کو اس کے تحریر کردہ نوٹس دکھائے جس میں ایسی کسی رائفل کا کوئی ذکر نہ تھا تو اس کی زبان گنگ رہ گئی۔ یہ ہیں عافیہ کے مقدمے کے گواہ جن کی بنیاد پر یہ انتہائی سزا سنائی گئی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا جا تا رہا۔ لیکن ان کے خلاف مقدمے میں دہشت گردی کا کوئی الزام نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان کے صوبے غزنی کے ایک پولیس ہیڈ کوارٹر میں ان سے تفتیش کے لیے آنے والی امریکی ٹیم پر ایم فور رائفل سے حملہ کیا۔ استغاثہ کے پیش کردہ ایف بی آئی کے ماہرین نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر صدیقی کی انگلیوں کے نشان ان کاغذات پر سے تو ملے ہیں جو مبینہ طور پر حراست کے وقت ان کے پاس سے دستیاب ہوئے تھے لیکن اس رائفل پر نہیں ملے جس سے انہوں نے مبینہ طور پر گولیاں چلائی تھیں۔ مقدمے کی ابتدائی سماعت نے اس وقت ڈرامائی شکل اختیار کرلی تھی۔ جب عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمہ نے مبینہ طور پر جس گن سے امریکی فوجیوں پر گولیاں چلائی تھیں اس بندوق پر عافیہ صدیقی کی انگلیوں کے نشان یا کوئی اور ثبوت موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس بندوق سے فائر کی گئی گولیوں کے خول موجود ہیں۔ دوران سماعت عافیہ صدیقی کی بیٹی مریم جو ایک یہودی کے پاس تھی۔ اسے لاکر عافیہ کو دکھایا جاتا تھا۔ اور دھمکی دی جاتی تھی کہ اگر اس نے زبان کھولی تو اس کی بیٹی کا کبھی پتہ نہیں چلے گا۔ عافیہ کو شروع ہی سے امریکہ کے عدالتی نظام پر اعتماد نہیں تھا۔ جس کا اس نے برملا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں امریکہ کی عدالت سے انصاف کی توقع نہیں اور مجھ پر لگائے تمام الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں یہ ہیں اس مقدمے کے ثبوت کا کوئی سر پیر ہی نہ تھا۔ پراسیکیوٹر نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ عافیہ صدیقی کا القاعدہ یا طالبان سے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی اس تعلق کے شبہ میں ان کے خلاف کوئی الزام عائد کیا جاسکتا ہے۔ شدت پسندوں کو اس فیصلے سے اپنے اقدامات کو جواز مل جائے گا۔ امریکہ اور پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی ناٹو افواج کی سپلائی لائین بھی متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ اور تشدد پسندوں کو بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف نفرت ابھارنے کا موقع مل جائے گا۔ پورے ملک میں عافیہ کو سزا ہونے پر جو احتجاج کی جو لہر ابھری ہے۔ اس پر پل باندھنا حکومت کے لئے مشکل ہوگا۔ امریکہ نے اس مظلوم عورت کو سزا سنا کر اپنے خلاف ایک ایسی ایف آئی آر کٹا دی ہے۔ جس سے مشرف اور بش جیسے حکمران کبھی نہ بچ سکیں گے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419224 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More