ملک کی باگ دوڑ فقیر کے ہاتھ میں اور نتیجہ؟

شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ کا آخری وقت قریب آ گیا اس کا کوئی وارث نہیں تھا کہ جو جانشین بن کر سلطنت سنبھالتا اس نے اپنے مشیروں کو وصیت کی کہ کل صبح جو شخص شہر کے دروازے سے سب سے پہلے داخل ہو اس کے سر پر شاہی تاج رکھ دینا اور اسے سلطنت سونپ دینا-

اتفاق سے اگلے دن صبح جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا وہ ایک بے نوا فقیر تھا جس کی ساری زندگی ایک ایک لقمہ مانگتے گزری تھی۔ امرائے سلطنت نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق شاہی تاج فقیر کے سر پر رکھ دیا اور قلعوں اور خزانوں کی چابیاں اس کے حوالے کر دیں۔

فقیر کچھ عرصہ تک امور سلطنت بخیر و خوبی چلاتا رہا اسے سکون و عافیت حاصل رہی لیکن بد بختی ایک بار پھر اس بے چارے کو آن لیا۔ بعض امراء اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے لگے اور گردونواح کے بادشاہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور جنگ کے لیے لاﺅ لشکر جمع کرنے لگے۔

فوج اور رعایا بھی بغاوت پر اتر آئی، اور یوں ملک کا کچھ حصہ اس کے قبضہ سے نکل گیا۔ بے چارہ فقیر اس پریشان کن اور افسوس ناک واقعہ سے پریشان رہنے لگا۔

فقیر کا ایک پرانا دوست جو ابھی تک مفلسی کی زندگی بسر کر رہا تھا، کسی سفر سے واپس آیا تو اسے اپنے دوست کے بادشاہ بننے کا علم ہوا۔ وہ بڑا خوش ہوا، اور اپنے دوست کو مبارکباد دینے شاہی محل چلاآیا، بادشاہ نے کہ ”اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ تیرے بلند نصیب نے یاوری کی، اور تمہیں اس منصب پر پہنچا دیا، بے شک ہر دکھ کے بعد سکھ ہے “-

بادشاہ نے اپنے دوست کی بات سنی تو ٹھنڈی آہ بھر کر بولا: ”دوست یہ افسوس کا موقع ہے، خوشی کا نہیں، جس وقت کی تم بات کرتے ہو، اس وقت مجھے صرف ایک نان کا غم تھا اب ایک جہان کی فکر ہے۔ اگر وہ دولت نہ ملے تو ہم چلاتے ہیں، اور اگر مل جائے تو ننانوے کے چکر میں پھنس جاتے ہیں“-

شیخ سعدیؒ اس حکایت میں بتاتے ہیں کہ جب انسان کے وسائل بڑھ جاتے ہیں تو اس کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ دولت سے دل کا صبر و سکون نہیں حاصل ہوتا۔ دولت مند کی سخاوت سے درویشی کا صبر بہتر ہے۔

YOU MAY ALSO LIKE: