پاکستان میں تبدیل ہوتی ہوئی
سیاسی صورتحال سے ایم کیو ایم کو تشویش ہونے لگی ہے، پاکستان میں حکومتی
تبدیلی نہ صرف عوام کی ڈیمانڈ ہے بلکہ وقت کی ضرورت بھی ہے عوام کو ایسے
مسیحاء کی ضرورت ہے جو حکمرانوں کے دئیے گئے زخموں پر مرحم رکھ سکے۔ کراچی
میں ایم کیو ایم کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے ڈویلپمنٹ کے کام تو بہت کیے
ہیں لیکن ایم کیو ایم کی حکومتی تصادم اور تشدد کی پالیسیوں نے ان کی محنت
پر پانی بہانے کا کام کیا ہے یہی وجہ ہے کی ایم کیو ایم اے اندر مزید
اختلافات نے جنم لیا ہے اور سونے پر سہاگا ڈاکٹر عمران فاروق کا پراسرار
قتل اس بات کو جنم دیتا ہے کہ الطاف حسین اور عمران فاروق کی ماضی میں پیدا
ہونے والی باہمی چپقلش کس نہچ پر تھیِ؟
وہاں برطانیہ میں اس بات پر بحث چل پڑی ہے کہ الطاف بھائی کی شہریت کو ختم
کر دیا جائے لیکن برطانیہ کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔ ادھر الطاف حسین
نے حالات کی مناسبت سے بیانات دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے وہ امریکی
مخالف بیانات اپنے قتل ہونے کا شبہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ الطاف صاحب
کا برطانیہ چھوڑنے کا پلان تیار ہو چکا ہے لیکن سوال یہ ہے کے الطاف صاحب
کے لیے محفوظ ترین جگہ کون سی ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ الطاف بھائی کو اپنے
گناہوں کی مغفرت کے لیے ایک طویل عمرہ کرنا پڑے گا۔
ادھر پاکستان میں بننے والے ممکنہ اتحاد ( پی پی اور پگارا) سے بھی ایم کیو
ایم کو تشویش لاحق ہو گئی ہے کہ کہیں سے گبر کی آواز نہ آجائے کہ تیرا کیا
ہوگا کالیا؟ اور پھر۔۔ ۔۔۔۔۔
ادھر وزیر اعظم صاحب نے بھی یہ اعلان کر کے نیکی کا کام کیا ہے کہ این آر
او سے فائدہ اٹھانے والے خود استعفیٰ دے دیں۔ آگے کا جملہ اگر وہ کہتے تو
وہ اس طرح ہوتا کہ وہ استعفیٰ دے دیں یا پھر سپریم کورٹ کے ایکشن کو بھگتنے
کے لیئے تیار ہو جائیں۔
بد قسمتی سے این آر او سے سب سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم کو حاصل ہوا تھا۔
میں کراچی کا باسی ہونے کی حیثیت سے ایم کیو ایم کو یہ مشورہ دونگا کہ اس
سے پہلے کہ پی پی آپ کو بائے بائے کہے آپ خود ہی بائے بائے ہو جاؤ۔۔۔ |