دنیا میں پہلا خود کش حملہ13 مارچ 1881 میں روسی سلطنت
میں ونٹر پیلس کے باہر ہوا جب اگنیٹی گرینوسکی نامی شخص نے الیگزینڈر دوئم
کے قافلے پر بم پھینکا لیکن اسکی گاڑی بلٹ پروف تھی جو اسے نیپولیئن نے
تحفے میں دی تھی جسکی وجہ سے وہ محفوظ رہا جب الیگزینڈر باہر آیا گرینوسکی
نے دیکھا تو وہ تیزی سے اسکی طرف بھاگا اور اسکے قدموں میں بم پھینکا جس سے
وہ دونوں موقع پر ہلاک ہو گئے، گرینوسکی بائیں بازوں کی د ہشتگرد تنظیم کا
نوجوان رکن تھا ایک رات پہلے اس نے لکھا کہ
میں ہماری فتح کے شاندار دور میں ایک دن یا ایک گھنٹہ بھی زندہ نہیں رہوں
گا لیکن مجھے یقین ہے کہ میں اپنی موت کیساتھ اپنی ذمہ داری پوری کر دو گا
جو مجھے کرنی چاہئے۔
اس عمل سے گرینوسکی تاریخ میں دنیا کا پہلا ریکارڈ شدہ خود کش حملہ آور
تصور کیا جاتا ہے اسکے بعد پچھلے 130 سال سے دنیا کے مختلف ممالک میں خود
کش حملے جاری ہیں جن میں افگانستان، پاکستان اور عراق زیادہ تر ان حملو ں
کا نشانہ رہے ہیں گزشتہ 30 سال میں یہ خود کش حملے 40 مختلف ممالک پر کئے
گئے، دوسری جنگ عظیم میں اکتوبر 1944 کو جاپان نے پہلی بار ک ٹوکوٹائی
تعینات کی جس میں فوجیوں نے دشمن کے بحری جہازوں پر خود کش حملے کئے اس میں
نہ صرف فوجی بلکہ رضاکارانہ طور پر یونیورسٹیوں کے طالبعلموں نے بھی شرکت
کی اور یہ لوگ جہاز اور کشتیاں بارود سے بھر کر لے جاتے اور اپنے مطلوبہ
حدف پر حملہ کرتے دوسر ی جنگ عظیم کے اختتام تک جاپان نے 3860خود کش حملے
کئے اور دشمن کے تقریبا 50 بحری جہاز تباہ کئے جو کہ شائد بہت بڑا نقصان
نہیں تھا لیکن اسکا دشمن پر نفسیاتی اثر بہت زیادہ تھا امریکن کمانڈر
ایڈمائرل ہالسے کا کہنا تھا کہ یہ واحد ہتھیار تھا جس سے میں جنگ میں
خوفزدہ تھا
دوسری جنگ عظیم کے بعد 1980 تک خود کش حملوں کے واقعات پیش نہیں آئے
حالانکہ انہیں افغانستان، ویطنام، اینگولا اور ناردرن آئرلینڈ میں بڑی
افواج کا سامنا رہا ہے لیکن پھر بھی خود کش حملے نہیں کئے گئے اسی دوران
برطانیہ اور امریکہ نے بھی مڈل ایسٹ میں اسلامی جہادی تنظیموں کو مضبوط اور
طاقتور کرنا شروع کیا تاکہ سویت یونین کے خلاف استعمال کیا جا سکے اور 1970
کی دہائی میں سعودی عرب نے بھی وہابی فرقے کو پروان دینے کے لئے کروڑوں
ڈالر خرچ کئے۔
اسرائیل نے 1980 میں جب لبنان پر قبضہ کر رکھا تھا تو دوسری عالمی جنگ کے
بعد پہلا خود کش حملہ ہوا ، اس وقت سب سے بڑا حملہ 23 اکتوبر 1983کو امریکن
فوجی بیس پر ہوا جب ایک بارود سے بھرے ٹرک سے فوجی بیس پر حملہ کیا گیا جس
میں تقریبا 20 ہزار پاونڈز بارود بھرا تھا اس خود کش حملے میں 241 فوجی
مارے گئے پھر ایک اور حملہ فرانسیسی فوجیوں پر کیا گیا جس میں 58 فوجی مارے
گئے اور اس کا ذمہ دار شیعہ فرقہ کے عسکری ونگ کو ٹھہرایا گیا جن پر ایران
کی پشت پناہی کا الزام تھا اور بعد میں یہ حزب اللہ کے نام سے جہادی عسکری
گروپ سامنے آیا انہوں نے 1980 کی دہائی میں 20 حملوں کی ذمہ داری قبول کی،
لبنان میں اس وقت کار بم دھماکے پہلے سے کئے جاتے تھے لیکن خود کش حملہ
آوروں نے نہ صرف میڈیا بلکہ پوری دنیا کو ایک دم اپنی طرف متوجہ کیا۔
حزب اللہ کے روحانی پیشواء محمد حسین فدا اللہ کا کہنا تھا کہ یہ حملے ہر
صورت جاری رکھے جائے گیں تاکہ اس سے دنیا کی سوچ میں سیاسی تبدیلی آئے اور
اگر دیکھا جائے تو وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے کیونکہ خود کش
حملوں کے تسلسل اور فوجی اڈوں پر کامیاب حملوں نے امریکن اور عالمی سطح پر
عوام کی رائے تبدیل کی جس کے نتیجے میں بین الااقوامی افواج لبنان سے واپس
چلی گیئں اور اسرائیلی افواج میں گنجان آباد علاقوں سے نکل گئی، 1994 میں
جب اسرائیل اور فلسطین میں بات چیت کا عمل جاری تھا اس وقت حماس گروپ نے
بات جیت کے عمل کو نقصان پہنچانے کے لئے اسرائیلی اور فلسطینی عوام پر خود
کش حملے شروع کر دئے، یو نیورسٹی آف شیکاگو کے ڈیٹا کے مطابق ان حملوں میں
کم از کم 742 ہلاک اور 4899 زخمی ہوئے پھر لبنان میں ان حملوں کے نتیجہ میں
مزید 88 ہلاک اور 160 شدید زخمی ہوئے۔
1994 میں اسرائیل کے علاقے افیولا میں کار سے بس پر دھماکہ کیا گیا جس میں
8 افراد مارے گئے جس کی ذمہ داری حماس نے قبول کی یو ں یہ حملے 90 کی دہائی
میں وقفے وقفے سے جاری رہے 1995 میں پانچ حملے، 1996 میں تین، 1997 میں
پانچ، 1998 اور 2000میں دو دو خود کش حملے کئے گئے اور اگلے تین سال میں
ٹوٹل 103 خود کش حملے کئے گئے، شدت پسندوں کے حملوں میں تیز ی کی وجہ سے
دنیا پریشان تھی کہ اسی دوران الاقصی گروپ نے بھی خود کش حملہ آور بھیجنا
شروع کر دئے اور بہت سے حملے عام بے گناہ شہریوں پر کئے گئے، ان گروپوں کا
کہنا تھا کہ اسرائیل پر خود کش حملے ان ہزاروں لوگو ں کا بدلہ ہے جنہیں
اسرائیل نے سر عام قتل کیا۔
2001 میں 21 سالہ نوجوان محمد احمد مارمش نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس
میں کہا کہ میرا خود کش حملہ فلسطین میں بے گناہ لوگو ں خاص طور پر بوڑھی
عورتوں اور بچوں کا بدلہ ہے اور میرا یہ عاجزانہ عمل ان اسلام پرست لوگوں
کے نام جنہوں نے میری شہادت کے لئے کام کیا جس سے دیکھتے ہی دیکھتے خود کش
حملوں میں تیزی کا رجحان پایا گیا کیونکہ اس پیغام میں ذاتی بدلہ اور
اسلامی جہاد کا نظریہ بھی تھا اور اب یہ خود کش حملے ماضی کی طرح مزید کسی
جنگ کا حصہ نہیں رہے تھے بلکہ ان سے عام لوگوں میں خوف پیدا کیا جا رہا
تھا، مقبوضہ فلسطین میں خود کش حملہ آوروں کی حمائت بہت زیادہ تھی پیو سروے
آف ایٹیٹیوڈ کے مطابق 2013 میں فلسطین میں 62 فیصد اور پاکستان میں 3 فیصد
لوگ خود کش حملوں کی حمائت میں تھے، فلسطین میں خود کش حملہ آوروں کی یہ
حمائت بہت زیادہ تھی جو کہ دنیا کے لئے پریشان کن تھی کیونکہ اگر انہیں
عوام کی حمائت نہ ملے تو ٓں انکی تحریک ناکام ہو جاتی ہے۔
سری لنکا میں جب جنگ جاری تھی تو وہاں سب گروپ ایسے نہیں تھے جو خود کش
حملے کرتے تھے بلکہ لبریشن ٹائیگر آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) جو کہ ایک
سیکولر گریلا تحریک تھی انہوں نے خود کش حملہ آور تیار کئے جو کہ 1980 کی
دہائی کے آخر پر اس تحریک کا حصہ بنے جو تامل لوگوں کے لئے علیحدہ ریاست کا
مطالبہ کر رہے تھے اس گروپ کے لیڈر ویلو پلائی پرابھکارن نے اس ضمن میں
فرقہ پرست لوگ اپنے ارد گرد جمع کئے اور خود کش حملہ آور تیار کرنے میں بڑا
اہم کردار ادا کیا اور انہیں بلیک ٹائیگرز کا نام دیا ، سری لنکا میں پہلا
خود کش حملہ 5 جولائی 1987 کو ہوا جب بارود سے بھرے ٹرک سے سری لنکن آرمی
بیرکس پر دھماکہ کیا گیا جس سے 55 فوجی ہلاک ہو گئے اور یہ حملہ 1983 میں
بیروت میں ہونے والے کامیان حملوں سے مشابہت رکھتا تھا جس سے یہ یقین کر
لیا گیا کہ ایل ٹی ٹی ای کے ممبر ز کی ٹرینگ بھی حزب اللہ نے کی ہے اور اس
حملہ آور کا تامل اکثریتی علاقے جافنا میں جسمہ بھی بنایا گیا، اس گروپ میں
شامل ہونے کے لئے باقائدہ درخواست لکھنی پڑتی تھی اور لیڈر فیصلہ کرتا تھا
کہ کسے شامل کرنا ہے درخواستوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ شہیدوں کی لاٹری
نکالی جاتی یہاں تک کہ جن لوگوں نے خود کو حملے کے لئے پیش کیا انہیں بھی
شہادت کا درجہ دیا گیا، 1980 سے لیکر 2003 تک بلیک ٹایئگرز خود کش حملوں
میں عالمی لیڈر تھے ٹائم میگزین نے ایل ٹی ٹی ای کو دنیا کی سب سے کامیاب
دہشت گرد تنظیم قرار دیا جنہوں نے دو انتہائی ہائی پروفائل حملے کئے جن میں
ایک سری لنکن وزیر اعظم رنا سنگھ پریتمداسا اور دوسرے بھارتی وزیر اعظم
راجیو گاندھی کا قتل شامل ہے اور مزید پانچ سری لنکن کابینہ کے ممبرز بھی
مارے گئے، بلیک ٹائیگرز نے خود کش بیلٹ بھی ایجاد کی جو بعد میں عراق،
افغانستان اور پاکستان میں باقائدگی سے استعما ل ہوتی رہی ہے۔
خود کش حملہ آوروں میں عورتوں کو بھی استعمال کیا گیا، یو نیورسٹی آف
شیکاگو کے مطابق 1981 سے 2010 تک 125 عورتوں نے خود کش حملے کئے ان میں
زیادہ مشہور وہ عورتیں رہی جو چیچنیا میں آزادی کی جنگ لڑ رہی تھی یہ وہ
عورتیں تھی جن کے خاوند یا بھائی اس جنگ میں مارے گئے جنہیں روسی میڈیا نے
بلیک ویڈو کا نام دیا، عورتوں کے خود کش حملوں کے ان کو کچھ فائدے تھے ایک
تو میڈیا کا دھیان بہت زیادہ ملتا دوسرا کسی کو شک نہ ہونے کی بنا پر
مطلوبہ حدف کو نشانا بنانا آسان ہوتا اس کے علاوہ یہ بھی واضح پیغام جاتا
کہ انکی تحریک صرف مردوں تک محدود نہیں رہی، آج بھی بوکو حرام گروپ کی طرف
سے عورتوں کو خود کش حملہ آور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں خود کش حملے جہاد کے نام پر استعمال کیا جانے والا بہت
بڑا مفید ہتھیار ثابت ہوا ہے ان تمام حالات و واقعات کے پس منظر میں
القائدہ کا کردار بھہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، القائدہ 1988 میں وجود
میں آئی جسے امریکہ نے پاکستان کی مدد سے تیار کیا جس کا مقصد انھیں سوویت
یونین کے خلاف پرا کسی جنگ میں استعمال کرنا تھا لیکن چند ہی سال کے بعد
انکی بوئی ہوئی فصل انکے سامنے آ گئی جب انھوں نے امریکہ کے خلاف جہاد کا
اعلان کیا اس ضمن میں القاعدہ نے 1995 میں سعودی عرب میں امریکن فوجی بیس
پر حملہ کیا جس میں پانچ افراد مارے گئے ,، 7 اگست 1998 کو امریکن ایمبیسی
کینیا اور تنزانیہ میں دو حملے کئے گئے، پھر نائن الیون نے نہ صرف امریکہ
بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹوکو ٹائی
جیسا پہلا حملہ تھا، اس کے بعد یہ حملے دنیا کے مختلف ممالک تک پھیل گئے،
2002 میں بالی اور 2005 میں لندن میں دھماکے کئے گئے۔
پچھلی ایک دہائی میں سب سے زیاد ہ حملے عراق میں ہوئے ایک اندازے کے مطابق
2004 سے 2010 تک تقریبا 1003 حملو ں میں 12000(بارہ ہزار) لوگ مارے گئے جن
میں 60 فیصد عام شہری تھے، عراق میں یہ حملے شیعہ، سنی فسادات کی وجہ سے
2004 میں شروع ہوئے یہ حملے شیعہ، سنی مساجد، یورپین ہیڈ کوارٹر، ریڈ کراس
ہیڈ کوارٹر سمیت ملک کے مختلف مقامات پر ہوئے، اس کے علاوہ عراق میں
القائدہ کے لیڈر ابو مصب الزرقائی کی ہلاکت اور امریکن فوج کی بڑتی ہوئی
تعداد نے بھی حالات کو مزید خراب کیا لیکن عراق سے امریکن |