کسی بھی قوم و فرد کی اگر ترجیحات متعین نہ ہوں تو بہت کم
چانس ہے کہ وہ ترقی کر یں۔مثلاََ ایک شخص خوابوں خیالوں میں خود کو کسی
سپورٹس مین کی طرح مسڑپرفیکٹ دیکھتا ہے۔لیکن عملی زندگی ایسا بننے کی خواہش
نہیں رکھتا ،کوشش نہیں کرتا تو کیسے ممکن ہے کہ وہ خواب شرمندہِ تعبیر ہو۔
ہمیں باحثیتِ آزاد قوم تقریباََ70سال ہو چکے ہیں لیکن آج تک ہم نے اپنی
ترجیحات کا تعین نہیں کیا۔ہماری ترجیحات کا تعین بطورِقوم صِفر ہے۔
ترجیحات تو ایک طرف ہم آج تک یہ طے نہیں کر سکے کہ ہمارا سب سے بڑا مسلۂ
انصاف، تعلیم ،غربت،بے روزگاری،آبادی میں اضافہ ہے یاکہ
دہشتگردی،کرپشن،خودمختاری پر سمجھوتا،نوکر شاہی،غیروں کے آگے کشکول
درازی،ہوسِ دولت اور اقربا پروری ہے۔
اگر کوئی لیڈر حکمرانی کے حصول کے لیے اپنا منشور (ترجیحات)واضح کرتا ہے
بھی ہے تو یہ وعدے کبھی وفا نہیں ہوتے۔یہ میٹھے بول اور سنہرے خواب سب کے
سب حکمران بنتے ہی زیرِتخت دفن کر دیے جاتے ہیں۔کیونکہ کبھی حالات نازک
ترین ہوتے ہیں اور کبھی ملک حالتِ جنگ میں ہوتا ہے۔پھر پانچ سال بعد اٌن
مردہ منشوروں کو زندہ کر کے عوام کو ایک بار پھر لالی پوپ دے دیا جاتا ہے۔
…حکمرانی کے اس کھیل کو جاری رکھنے کے لیے وفاق اور اپوزیشن کے درمیان ایک
رویہ اپنایا جاتا ہے۔جس کے تحت پانچ سال پورے کیے جاتے ہیں۔اور کبھی اگر
مارشل لاء لگ جائے تو مثال کچھ یوں بھی ہو جاتی ہے کہ۔
دو شرط لگانے والے تھے وہ ہر شرط لگا کر لڑ پڑتے تھے۔ایک گھاس پر کھڑا ہو
کے کہتا کہ گھاس کھا سکتا ہوں ،دوسرا کہتا نہیں کھا سکتا،پھلا کہتا اچھا
شرط لگتی ہے؟ پھر شرط لگ گئی۔ایک دن ایک گدھے پر شرط لگا دی،پہلا کہنے لگا
یہ چل سکتا ہے؟دوسرا بولا نہیں چل سکتا ۔اس پر شرط لگا دی اور لڑپڑے۔۔۔
آگے اِسی طرح ایک ڈبہ پڑاتھا دونوں نے اس ڈبے پے شرط لگا دی کہ اس کے اندر
جو ہے کیا وہ تو پی سکتا ہے؟کہا ہاں ۔۔۔پہلے نے کہا نہیں پی سکتا ۔۔پی کر
دِکھا ۔۔!اِس نے بھی پیا اٌس نے بھی پیا اور اِس طرح شرط شرط میں دونوں فوت
ہو گے ۔۔۔۔۔ڈبے میں تیل تھا۔
ہمارے حکمرانوں نے اِس ملکِ پاکستان کو اپنے مفادات کی خاطر اس شرط شرط کے
کھیل میں الجھا رکھا ہے۔کبھی تو شرطیں لگتی رہتی ہیں اور کبھی کبھی ڈبے میں
سے تیل نکل آتا ہے۔تو پھر شرطیں لگانے والے ملک بدر کر دیے جاتے ہیں یا پھر
تختہ دار کی نظر.
اور ہماری ترجیحات پھر صِفر کی صِفر. |