ایک تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں ماضی کی بات کی
گئی کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی تو حکومت مخالف ایک گرینڈ الائنس
بنا تھا ۔ یہ گرینڈ الائنس میں ملک بھر کے مولانا حضرات کی ایک مضبوط اور
منظم جماعت پر مشتمل تھا جس میں مولانا بھاشانی صاحب بھی مضبوط عہدیدار تھے۔
لیکن ایک دن اچانک مولانا بھاشانی صاحب نے الائنس توڑنے کا فیصلہ کیا اور
خود علیحدہ ہو گئے جس کی وجہ وہ الائنس اپنی ساکھ برقرار نہ رکھ پایا اور
ٹوٹ گیا الائنس سے علیحدگی کے بعد یہ خبریں زبان زد عام ہوئیں کہ مولانا
بھاشانی صاحب نے الائنس سے علیحدہ ہونے کے لئے پیسے لئے ہیں جس پر شروع میں
مولانا بھاشانی صاحب یا تو چپ رہے اور پھر خود ہی دوستوں کو اپنا احتساب
پیش کرنے لگے کہ میرے پاس تو جو کچھ بھی نہیں ہے آپ کے سامنے ہے میں نے
کوئی پیسے نہیں لئے وغیرہ وغیرہ۔ایک دن ان کے قریبی دوست ان کے پاس گئے اور
انہوں نے یہی سوال کیا کہ مولانا صاحب کیا آپ نے پیسے لئے تھے یا نہیں !!لیکن
مولانا صاحب نے پھر نفی میں جواب دیا! لیکن ان کے دوستوں کی طرف سے بارہا
اصرار اور کچھ دلائل پیش کرنے پر مولانا صاحب نے کہا کہ مجھے تو پتہ نہیں
شاید بچوں نے لئے ہوں انہی سے پوچھ لیں اس کے بعد لڑکے لوگوں پر آ کر بات
ختم ہو گئی اور کوئی فیصلہ کن بات سامنے نہ آ سکی کہ مولانا صاحب نے پیسے
لئے تھے یا نہیں !!ملک کوعصر حاضر میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے بنیادی
مسائل تو ہیں ہی لیکن اس سے بھی بڑھ کر مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب سے پاناما
کیس میں اٹکی ہوئی وزیر اعظم پاکستان اور ان کے خاندان کی جان پر سپریم
کورٹ میں بات شروع ہوئی تب سے مختلف ہتھکنڈوں سے اداروں کی ساکھ کو عوام کی
نظر میں خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انہیں ذہنی طور پر مفلوج بنا
کر کے رکھ دیا ہے! جیسا کہ ہر وقت میڈیا پر مختلف حکومتی جماعت اور اپوزیشن
جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف اس قدر لب کشائی کرنا کہ اخلاقی
اقدار بھی شرما جائیں جبکہ اگر وطن کی بقا ء و عزت پر بات آ جائے تو ایسے
چپ سادھ لینا جیسے کوئی سانپ سونگھ گیا ہو،پارلیمنٹ جیسے مقدس ادارے میں
عورتوں کیلئے نا زیبا الفاظ استعمال کرنا،فریقین کے مابین گالم گلوچ ،دھکم
پیل اور ہاتھا پائی کرنا جسے میڈیا بھی خوب اچھال اچھا ل کر پیش کرتا نظر
آتا ہے اور پیمرا بھی نوٹس لینے سے عاجز نظر آتا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے
پارلیمنٹ میں انسان نہیں کوئی نئی مخلوق بیٹھ گئی ہے جس کا انسانیت سے دور
دور تک کوئی تعلق نہیں،ملک بھر میں دہشتگردی کے خلاف جاری نیشنل ایکشن پلان
اور دیگر آپریشنز کے با وجود دہشتگردی کے واقعات میں وکلاء برادری ،صحافی
برادری اور دیگر معصوم لوگوں کو نشانہ بنا کر عوام کے ذہنوں کو اداروں کی
کارکردگی سے متنفر کرنا ،سوشل میڈیا پر مختلف کہانیوں اور آپ بولی کہاوتوں
میں عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑانا ،توہین رسالت ﷺ کیس پر عدالتی فیصلے کے
خلاف عاصمہ جہانگیر کا متضاد بیان دینا جن کے کردار سے دور دور تک اسلام کا
تعلق نظر نہیں آتا ،عدالت کو مختلف کیسوں میں من گھڑت دلائل اور جھوٹے ثبوت
پیش کر کے گمراہ کرنا ،کبھی پیٹرول تو کبھی بجلی اور کبھی وزیر اعظم کے
دوروں کی طرف توجہ مبزول کروا دینا،نیب اور ایف بی آر کے ذمہ دار افسروں کا
بیان کہ وہ سیاسی دباؤ میں ہیں اور پھر بلوچستان کے وزیر جو کہ اربوں روپے
کرپشن میں ملوث تھا سے نا قابل ذکر رقم لے کر اسے باعزت بری کر دینا اور
نیب کی کارکردگی کو عوام کے سامنے با لکل ناقص پیش کرنا پاناما کیس سے توجہ
ہٹا نے کے مترادف ہے ۔لیکن اشرافیہ اس بات کو بھول چکی ہے کہ کرپشن کے بے
قابو جن کے خلاف احتساب کے دیو نے جنم لیا ہے جسے دیکھنے کیلئے کہ کس طرح
سے وہ کرپشن کے جن کو لقمہ بنا تا ہے اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی
برادری منتظر ہے ۔پاناما کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے اور سپریم کورٹ
آف پاکستان کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ فیصلہ با لکل
میرٹ پر کیا جائے گا اور ایسا فیصلہ سنایا جا ئے گا کہ آئندہ آنے والے بیس
سالوں تک اس کا اثر رہے گا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ فیصلے میں کیا میاں
صاحب کو کلین چٹ ملتی ہے یا وہ گلٹی نکلتے ہیں اگر میاں صاحب کے خلاف فیصلہ
آتا ہے تو صرف میاں صاحب نہیں بلکہ کئی اور لوگ بھی گلٹی ہونگے جنہوں نے اس
میں سہولت کاری کا کام سر انجام دیا ہوگا کیونکہ ایک بات تو واضح ہے کہ دس
ارب ڈالر سے زائد کی رقم صرف ایک بندے نے تو نہیں لوٹی ہو گی اس میں کئی
ریٹائرڈ ملازمین ہوں گے ،پولیس افسران ہونگے ،سیاستدان ،کاروباری لوگ بھی
شامل ہو ں گے لیکن فیصلہ جو بھی ہو جیسے سمند ر کی بے حد خاموشی طوفان آنے
کا پیغام ہوتی ہے اسی طرح اس فیصلے کے انتظار میں ملک بھر میں پیدا ہونے
والی خاموشی بھی بے حد قابل تشویش پیغام ہے یوں لگتا ہے جیسے فیصلے کے
دونوں صورتوں میں سیاسی گرما گرمی اور عوامی درجہ حرارت انتہائی خطرناک حد
تک پہنچے گا ۔حال ہی میں کور کمانڈر ز کی دو سویں کانفرنس منعقد ہوئی جس کی
سربراہی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی جس میں دہشتگردی کے
معاملات پر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ساتھ لازمی پاناما کیس کے فیصلے اور
اس کی صورت میں اٹھتے ہوئے طوفان کے بارے میں لازمی بات چیت ہوئی ہو گی اور
اس بات پر بھی غور کرنے کو کہا گیا ہو گا کہ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد
پاکستان میں پیدا ہونے والے داخلی صورتحال پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے
کہ جب اس کیس کے بارے میں اس وقت ہر انسان فیصلے کا انتظار کر رہا ہو!ن لیگ
کے جتنے بھی ترجمان آتے ہیں وہ ایک ہی راگ الاپتے ہیں کہ میاں صاحب کا نام
پاناما میں کہیں نہیں ہے بلکہ ان کے بچوں کا نام ہے اسی طرح نواز شریف کے
خلاف اگر عدالت سے فیصلہ آتا ہے تو وہ بھی مولانا بھاشانی کی طرح کہیں گے
کہ میں نے نہیں کیا لڑکے لوگوں نے کیا ہو گالیکن بچوں سے کون پوچھے بچے تو
یہاں رہتے ہی نہیں ۔ |