۲۳ فروری کو مدھیہ پردیش اسمبلی کے بجٹ سیشن کا آغاز ہوا۔
روایت کے مطابق گورنر رام نریش یادو کو افتتاحی خطاب کرنا تھا جو ۴۷ صفحات
پر مشتمل تھا۔ ۸۷ سالہ گورنر صاحب نے صرف پہلے اور آخری پیراگراف پڑھ کر
سنانے پر اکتفاء کیا اس لئے وہ دیر تک کھڑے رہنے سے معذور تھے۔ اس کے بعد
وہ ایوان اسمبلی سے چلے گئے ۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سب سے
پہلے راجدھانی بھوپال اورصوبے کے دیگر شہروں میں چلنے والے آئی ایس آئی
ایجنٹوں کے جال پر بحث ہوتی کیونکہ اس کا براہ راست تعلق قومی سلامتی سے
ہے۔۹فروری کو مدھیہ پردیش اے ٹی ایس نے چھاپہ مارکرپاکستانی خفیہ ایجنسی
آئی ایس آئی کے۱۱ معاونین کو گرفتار کرلیا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس
لئے کہ بھوپال ، گوالیار ، ستنا اور جبلپور میں پھیلے ہوئے اس مایا جال میں
کوئی مسلمان نہیں تھا۔ اگر ان میں سے ایک بھی مسلم ہوتا تو اسے سرغنہ قرار
دے کر اس پر بھولے بھالے ہندو نوجوانوں کو ورغلانے کا الزام لگا یا جاسکتا
تھا۔ ویسے اگر ان ہندو نوجوانوں کا تعلق دیگر سیاسی جماعتوں سے ہوتا تب بھی
اس خبر کو اچھالا جاتا لیکن شومئی قسمت سے ۴ کا قریبی تعلق سنگھ پریوار سے
نکل آیا۔ اس لئے مرکز سے لے کر صوبائی حکومت تک نے اس پر پردہ ڈال دیا۔
وزیراعلیٰ سے لے کر قومی سکریٹری کے ساتھ ملزم دھروا سکسینہ کی تصاویر
ذرائع ابلاغ میں آگئیں اس کے باوجود ڈھٹائی سے انکار کیا گیا۔بقول کلیم
عاجز؎
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
اس کے برعکس ۷ مارچ کو صبح شاجا پور بھوپال پسنجر ٹرین میں دھماکہ ہوا جس
میں ۱۰ لوگ زخمی ہوئے۔ لکھنؤ کی تنظیم رہائی منچ کے مطابق زخمی مسافروں نے
کیمرے کے سامنے بتایا کہ دھماکہ لائٹ کے سبب ہوا اور ابتداء میں ریلوے
حفاظتی پولس کے ایس پی کرشنا وینی نے بھی اس کی وجہ شارکٹ سرکٹ ہی بتائی
تھی اس لئے کہ وہاں کوئی اشتعال انگیز مادہ نہیں ملا تھا لیکن پھر اچانک
وزیراعلیٰ کو پتہ چل گیا کہ وہ داعش کے لوگوں کی دہشت گردی تھی۔ ان کو یہ
خبر بھی مل گئی کہ دھماکے کی تصاویر شام روانہ کی جاچکی ہیں۔ بم کا سامان
بھی ہاتھ لگ گیاجس پر دھماکہ کرنے والوں نے پولس اور سیاستدانوں کی مدد کے
لئے بڑے بڑے حروف میں اپنی تحریک کا نام بھی لکھ کر چھوڑ دیا۔یوپیپولس
کےداعش سے براہِ راست تعلق کے انکار پر بھی اپنی پارٹی میں چھپے پاکستانی
ایجنٹوں کی پردہ پوشی کرنے والی ایم پی سرکارحسبِ توقع اوٹ پٹانگ دعویٰ
کرتی رہی ۔اس بیچ ایم پی پولس کے اعلیٰ افسر مکرند دیوکر نے خوداپنے
وزیراعلیٰ کی تردید کرتے ہوئےپریس کانفرنس میں کہہ دیا کہ ان مشکوک دہشت
گردو ں کے شام میں داعش سے تعلق کا ثبوت نہیں ملاہے اور تصویر بھیجنے والے
بیان کی بھی تصدیق باقی ہے لیکن شیوراج جیسےبے حیا کواس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
اس معاملے میں جس سرعت کا مظاہرہ حفاظتی دستوں نے کیا وہ بھی قابلِ رشک ہے۔
شاجاپور ضلع میں جابڑی نامی دیہات کے اندرصبح یہ حادثہ رونما ہوا۔ اس کے
چند گھنٹوں بعد دوپہرمیں پولس نے ہوشنگ آباد سے قریب پیپریا گاوں سے ۳
لوگوں کو حراست میں لیا۔ ان لوگوں سے تفتیش کے دوران لکھنو اور کانپور میں
چھپے دہشت گردوں کا پتہ مل گیا ۔ اس کی اطلاع فوراً اتر پردیش پولس کو دی
گئی ۔ یو پی پولس نے فوراً کانپور سے ۲ لوگوں کو اورایک کو علی گڈھ سے
گرفتار کرلیا ۔ ان سے معلومات حاصل کرکے شام سے پہلے پہلے لکھنو کے ٹھاکر
گنج علاقہ میں ایک مکان کو گھیر لیا گیا۔ اس کےاندر موجود نوجوان کو
سمجھانے کیلئے اس کے بھائی کی خدمات حاصل کی گئیں اور ۱۱ گھنٹے تکٹیلی ویژن
کے پردے پر ایکپرائم ٹائم ناٹک چلا دیا گیاتاکہ آخری مرحلے میں یوپی کے
رائے دہندگان کے سامنے مسلم دہشت گردی کا ہوا کھڑا ووٹ جھٹک لیا جائے۔
لکھنو ڈرامے کے خاتمہ سیف اللہ نامی ۲۴ سالہ نوجوان کی ہلاکت پر ہوا۔لکھنو
کی معروف تنظیم رہائی منچ کے وفد نے جائے حاعثہ کا دورہ کرنے کے بعد کئی
سوال اٹھائے۔مثلاً جب پڑوس کے لوگوں نے اے ٹی ایس کو پیشکش کی کہ وہ اس
سیدھے سادے نوجوان کو گرفتاری دینے پر راضی کرلیں گے تو اس نے ان کا تعاون
لینے سے کیوں انکار کیا؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ دعویٰ کیا گیا کمرے میں
چھپا ہوا سیف اللہ پولس پر گولیاں چلا رہا تھا اور پولس اس پر لیکن دیواروں
پر ان گولیوں کے نشان نہیں ہیں تو آخر ہوا میں وہ گولیاں کیوں چلائی گئیں؟
میڈیا اور دیگر لوگوں کو مکان کے اندر جانے سے کیوں روکا گیا؟پڑوسی کا
جھگڑا چکانے کیلئے پولس کی موجودگی میں دہشت گرد کیسے آن موجود ہوا؟ مقامی
لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ ۵بجے قتل کرنے کے بعد معاملے کو بلاوجہ طول دیا
گیا۔ پولس کے مرچی بم کے اثرات دور تک محسوس کئے گئے لیکن سیف اللہ اس سے
بے ہوش کیوں نہیں ہواَ؟ پولس نے جو روزنامچہ ظاہر کیا نہ اس سے یہ ثابت
ہوتا ہے کہ وہ دہشت گرد تھا اور نہ ایم پی دھماکے سے اس کے تعلق کا کوئی
ثبوت پیش کیا گیا اس کے باوجودجو جھوٹ سیاستداں دھڑلے سے بولتے رہے زرخرید
ذرائع ابلاغ اسےتندہی سے نشر کرتارہا اس لئے کہ ؎
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
اس معاملے کا سب سے خطرناک پہلو سیف اللہ کے والد سرتاج کا رویہ ہے دوپہر
میں جن کو فون پر سیف اللہ نے بتایا تھا کہ وہ سعودی عرب ملازمت کیلئے
جارہا ہے۔ اس کے باوجود جب انہیں خبر ملی کہ پولس نے اسے ہلاک کردیا ہے اس
لئے وہ دہشت گرد تھا وہ پولس کے بیان پر ایمان لے آئے جبکہ فرضی انکاونٹر
ہندوستان میں ایک عام بات ہے اور اکثر عدالتیں پولس والوں کے الزامات کو
مسترد کرکے بے قصوروں کو رہا کردیتی ہیں۔ محمد سرتاج نے بھی نہیں پوچھا کہ
پولس کے خفیہ کیمرے سیف اللہ کے کمرے میں جو دوسرے آدمی کو تصاویر لی تھیں
وہ کون تھا؟ اور کہاں غائب ہوگیا؟ خیرغریب سرتاج نے خوف وہراس کے عالم میں
جو کہا سوکہا لیکن وزیرداخلہ راجناتھ نے اس بیان کو لے کرایوانِ پارلیمان
میں جو بھونڈی سیاست کی وہ شرمناک ہے۔ محمد سرتاج کی حالت زار اس شعر کی
مصداق ہے کہ ؎
رہزن ہے مرا رہبر، منصف ہے مرا قاتل
سہہ لوں تو قیامت ہے ، کہہ دوں تو بغاوت ہے
لکھنو شوٹ آوٹ میں جیسر تیزی دکھائی گئی وہ توکسی ایکشن فلم میں بھی نہیں
ہوتی ۔اس معاملے میںکمال پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے۵ گھنٹے کے اندر پولس
نےداعش کے دہشت گرد کو سیکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر تلاش کرلیا مگر گزشتہ
پانچ ماہ میں دہلی سے اغواء ہونے والے جے این یو کے طالبعلم نجیب احمد کا
پتہ نہیں لگا سکی ۔ حد تو یہ ہے کہ وہ اغواکاروں کے ساتھ ٹھیک سے پوچھ تاچھ
بھی نہیں کر پائی۔ پچھلے ماہ جب دہلی کی عدالت نے پھٹکار لگائی توپولس نے
اعتراف کیا کہ وہ ۹ مشکوک طلباء کی جھوٹ پکڑنے والی مشین پرجانچ نہیں کرنے
میں اس لئے ناکام رہی کہ کئی مرتبہ بلوانے کے باوجود ان میں سے کسی نے ایک
نہیں سنی اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی رہی ۔ انتظامیہ کی ساریپھرتی اکھل
بھارتیہ ودیارتھی پریشد کی دہشت گردی کے آگے دھری کی دھری رہ گئی۔ یعنی
معصوموں کے آگے تو یہ لوگ شیر بن جاتے ہیں لیکن جب بھیڑیا سامنے آتا ہے
تو بھیگی بلی بن کر دم ہلانے لگتے ہیں ۔ تفتیش سے منہ چرانے والے طلباء
عدالت میں پوچھ تاچھ کیلئے بلانےکوخلاف دستور قرار دیتے ہوئےڈھٹائی سے کہتے
ہیں ؎
مرے خلاف عدالت بھی تھی زمانہ بھی
مجھے تو جرم بتانا بھی تھا چھپانا بھی
نجیب کہاں ہے؟ یہ سوال جس طرح جے این یو طالبعلم نجیب احمدکی بابت پوچھا
جاسکتا ہے اسی طرح سابق لیفٹنٹ گورنر نجیب جنگ پر بھی صادق آتا ہے۔ کوئی
نہیں جانتا کہ نجیب جنگ گمنامی کےغار میں کہاں کھوئے ہیں لیکن سب جانتے ہیں
کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ صحیح سلامت ہیں۔ اس کے
برعکس نجیب احمد کہاں ہے ؟ کس حال میں ہے؟ کس کے ساتھ ہے ؟ اور کب لوٹیں گے
ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ جن کو
پتہ ہے وہ گوناگوں وجوہات کی بناء پر اسے چھپا رہے ہیں۔ نجیب جنگ کو ویسے
بھی بے آبرو ہوکر اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا کاش کے وہ نجیب احمد کے
مسئلہ پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیتے اورپروقار انداز میں جاتے لیکن ایسی
سرخروئی دنیا پرستوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ نجیب احمد کی بابت ٹائمز ناو پر
اپنے انٹرویو میں نجیب جنگ نے کہا تھا دہلی پولس اس کو تلاش کرنے کیلئے
سارے ملک میں درگاہوں کی خاک چھان چکی ہے اس لئے کہ وہ مذہبی طالبعلم تھا
اور وہ اس کے سارے دوستوں سے مل رہی ہے ۔ انتظامیہ کے اس احمقانہ رویہ پر
یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
دنیا بھر کا اصول یہ ہے کہ اگر کسی کا غواء ہوجائے تو اس کے دشمنوں کو تلاش
کیا جاتا ہے لیکن نجیب کے معاملے میں دوستوں سے تفتیش ہورہی ہے اس لئے کہ
مجرموں کو پکڑنا نہیں بچانا ہے یہاں تک کہ پولس بدایوں میں نجیب کے ددیہال
تک پہنچ گئی اور اس کے۹۰ سالہ دادا پر اپنی داداگیری کرکے لوٹ آئی تاکہ
نجیب احمد کے رشتے داروں اور دوستوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کیا جاسکے۔ پہلے
تو انتظامیہ کا معاملہ گاندھی جی کے تین بندروں جیسا تھا۔ پولس آنکھیں
میچے اپنے سامنے مجروموں دیکھ نہیں رہی تھی ۔ سیاستدا نوں نے کانوں کو
ڈھانک رکھا تھا اور میڈیا کی زبان پر تالا پڑا ہوا تھا مگر جب عوام کا دباو
بڑھا تو اے بی وی پی کے غنڈوں سے پولس نے رسمی بات چیت کی ۔ اگر ان
بدمعاشوں کو گرفتار کرکے تھرڈ ڈگری گذارہ جاتا تو ابھی تک یہ راز پوشیدہ
نہیں رہتا ۔نجیب احمد کسی درگاہ کے بجائے مٹھ یا سنگھ کے دفتر سے برآمد
ہوجاتا لیکن جب نیت میں کھوٹ ہو کام میں برکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
گاندھی جی کا جب قتل ہوگیا تو پولس نے کانگریسیوں کے درمیان ان کے قاتل کی
تلاش نہیں کی بلکہ ہندو مہاسبھا اور آرایس ایس کے دفتروں پر چھاپہ مارا ۔
اگر پولس والے سنگھیوں کو چھوڑ کر کانگریس کے پیچھے پڑ جاتے تو گاندھی کے
قاتلوں کا سراغ کبھی نہیں ملتا ۔ ناتھورام گوڈسے پھانسی نہیں چڑھتا۔ اس کے
نام کا مندر بنانے کی تیاری نہیں ہورہی ہوتی ۔ آرایس ایس پر پابندی نہیں
لگتی اور گرو گولوالکر کو جیل نہیں بھیجا جاتا ۔ اپنے گرو جی کو خراج عقیدت
پیش کرنے کیلئے موہن بھاگوت کو قانون شکنی کرکے بیتول جیل کے اندر جانے کی
ضرورت پیش نہ آتی۔ موہن بھاگوت اپنےگرو کو دفتر میں بھی شردھانجلی دے سکتے
تھے لیکن وہ لوگوں کو یہ بتانے کیلئے جیل گئے کاکن کےگروجی جیل بھی گئے
تھے۔ کاش کہ بھاگوت یہ بھی بتاتے کہ گولوالکر کو جیل کیوں بھیجا گیا تھا؟
تاکہ پولس اور عوام کو نجیب کے اغواکرنے والوں کا سراغ مل جاتا۔
نجیب احمد کےبازیابی کی تحریک ویسے تو سارے لوگوں نے مل کر شروع کی لیکن اس
پر مستقل مزاجی کے ساتھ طلباء کی اسلام پسند تنظیم ایس آئی او نے کام کیا
۔ اس کے نتیجے میں دہلی کے مظاہروں سے نکل کر یہ معاملہ سارے ملک میں پھیل
گیا اور گلی گلی شہر شہر دستخطی مہم اور احتجاج ہوا۔ ماہِ فروری کے دوران
لاکھوں دستخط جمع کئے گئے۔ بجٹ اجلاس میں شریک ہونے والے ارکان پارلیمان سے
ملاقات کرکے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی۔ ۲۲ فروری کو مائنارٹی
کمیشن کو میمورنڈم دے کرنجیب کے اہل خانہ کے ساتھ پریس کانفرنس کی گئی۔ ۲۰
تا ۲۸ فروری ساری ریاستوں میں احتجاج اور ۲۴ فروری کو وزارت انسانی وسائل
کے سامنےزبردست مظاہرہ کیا گیا ۔ مہاراشٹر کے مختلف شہروں کے علاوہ ممبئی
یونیورسٹی میں بھی احتجاج ہوا ۔ یہ تمام سرگرمیاں نجیب احمد کی بازیابی میں
یقیناً ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گی۔
نجیب احمد کا اغواء دراصل روہت ویمولا ، کنھیا کمار، عمر خالداور شہلا راشد
کے خلاف ہونے والے مظالم کی ایک کڑی ہے۔ اے بی وی پی کی غنڈہ گردی اب اس
قدر بڑھ گئی ہے کہ اس نے کارگل میں جان دینے والے فوجی گرمہر کو بھی اپنی
لپیٹ میں لے لیا ہے اور اسے بھی سوشیل میڈیا پرجان سے مارنے کی اور
آبروریزی کی دھمکیا دی گئیں۔ انتظامیہ پر اس قدر دباو ہے کہ نجیب کی تحقیق
کرنے والے چیف پروکٹر اے پی ڈمری کو استعفیٰ دینا پڑا۔ ڈمری کا قصور صرف
اتنا تھا کہ انہوں نے اے بی وی پی کے چار طلباء کونجیب کے ساتھ دست درازی
کیلئے وجہ بتاو نوٹس دے دیا تھا۔ اس نوٹس میں ان طلباء سے پوچھا گیا تھا کہ
انہوں نجیب کے ساتھ بدزبانی اور بدسلوکی کیوں کی ؟ ڈمری اپنی رپورٹ میں
طلباء برادری کے اندرپائی جانے والی بے چینیکی وجوہات پر روشنی ڈالنا چاہتے
تھے لیکن انتظامیہ کی خواہش تھی کہ تفصیل کے بجائے صرف جھگڑا لکھ دیا جائے۔
اس اصولی اختلاف پر ڈمری نے استعفیٰ دے دیا ۔ چیف پروکٹر کا یہ اقدام قابلِ
تعریف ہے لیکن سرکاری دہشت گردی کا یہ عالم ہے کہ وہ بھی استعفیٰ کی وجوہات
بیان کرنے کی جرأت نہ کرسکے ۔عدل و انصاف کے خلاف حکومت، انتظامیہ اور
عدالت کے اتحاد کو دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا؎
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر؟
حالات جب اس قدر سنگین ہوجائیں تو بلاتفریق مذہب و ملت تمام انصاف پسند
تحریکوں کو متحد ہوکرنجیب احمد اور سیف اللہ پر ہونے والے مظالم کے خلاف
آواز کو بلند کرنی چاہئے ۔مودی حکومت اخلاق احمد کے معاملے میں پہلی بار
سرکارمدافعت میں اس لئے آئی کہ اخلاق کیلئے صرف ملی سطح پر نہیں بلکہ قومی
سطح پرتحریک چلائی گئی۔ اس دوران سب زیادہ دباو سرکاری اعزازات کی واپسی سے
پڑا ۔ بفرض محال وہ تحریک صرف مسلمان اور ان کی کسی تنظیم تک محدود ہوتی تو
کتنے تمغے واپس ہوتے اور کس قدر دباو بنتا ؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں
ہے۔ س سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی حقوق کے معاملے میں سب کو ساتھ لے کر چلنا
مفید تر حکمت عملی ہے۔ طلاق اور شریعت جیسے معاملات میں نہ وہ ہمارے ساتھ
آسکتے ہیں نہ ہمیں ان کو ساتھ لینے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن عمومی نوعیت
کے مسائل میں مشترکہ سعی وجدوجہد کارگر اور موثرہوتی ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کے معاملات میں بہت سخت گیر اور
سفاک ہے۔ دادری کے بعد جھارکھنڈ اور میوات سے لے کر مہاراشٹرو مدھیہ پردیش
اور اب اتر پردیش کے سانحات دل دہلانے والے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے
کہ اس کےقہر کا شکار صرف مسلمان نہیں ہیں ۔ میوات ہی کی طرز کا نہایت
بھیانک واقعہ بستر ضلع میں پیش آیا جہاں ایک پولس افسر پر ۱۹ ادیباسی
خواتین کی عصمت دری کا الزام ہے۔بھوپال جیل انکاونٹر سے قبل ویاپم گھوٹالے
کے خلاف جتنے بھی لوگوں نے آواز اٹھائی وہ سب موت کی نیند سلا دیئے گئے
اور وہ سب بھی غیر مسلم تھے ۔ مہاراشٹر میں جہاں محسن کو دن دہاڑے قتل
کردیا گیا اور اس کے قاتلوں کی ضمانت ہوگئی وہیں پانسرے اور دابھولکر کے
قاتلوں کو بھی بچانے کی کوشش جاری ہے۔ جے این یو سے جس طرح نجیب کو اغواء
کرلیا گیا اسی طرح اے بی وی پی والوں نے دن دہاڑے اجین یونیورسٹی کے وائس
چانسلر سبرّوال کو ۲۰۰۶ میں قتل کردیا تھا ۔ فسطائیت کے نشانے پر صرف
مسلمان نہیں بلکہ ان کےسارےمخالف ہیں ۔ اس لئے اس جنگ کو سب کے ساتھ مل کر
لڑنا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔
اس سال ۲۶ جنوری کو جب سارا ملک یوم جمہوریہ منا رہا تھا مہاراشٹرکے ہنگولی
ضلع میں بسمت کے مقام پر لاکھوں لوگ نجیب احمد کی بازیابی کیلئے مظاہرہ
کررہے تھے۔ اس عظیم ریلی کا اہتمام ٹیپو سلطان بریگیڈ نے مراٹھا مہاسنگھ
اور دیگر ہم خیال تنظیموں کے تعاون سے کیا جس میں مسلم مجلس مشاورت کے
سکریٹری مجتبیٰ فاروق کے شانہ بشانہ سابق جسٹس کولسے پاٹل بھی موجود تھے۔
نجیب احمد کی حمایت میں یہ سب سے بڑا احتجاج تھا جس میں ہندو مسلمان سب
شامل تھے۔ بسمت کے تاریخی جلوس کو خطاب کرتے ہوئے نجیب احمد کی و الدہ
فاطمہ نفیس نے اس جھوٹ کی پرزور تردید کی کہ ان کا بیٹا غائب ہوگیا ہے بلکہ
تفصیل کے ساتھ بتایا کہ کس طرح ان کے بیٹے کو غائب کیا گیا۔ انہوں نے یقین
کے ساتھ کہا کہ نجیب جہاں بھی ہے محفوظ ہے اور امید جتائی کہ شرکائے احتجاج
کی دعا سے ایک دن ان کا بیٹا ضرور واپس آئیگا ۔ہم سب کی بھی یہی خواہش
لیکن ساتھ ہی اس کشمکش کو بھی کامیابی کی منزل تک جاری رکھنے کا عزم و
حوصلہ ضروری ہے اس لئے کہ بقول شاعر ؎
رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائیگی
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے |