کپاس ہمارے ملک کی ایک اہم نقد آور فصل ہے جس کا جی ڈی
پی میں حصہ 1.7فیصد ہے۔ٹیکسٹائل کے شعبے میں کپاس کا مرکزی کردار ہے
اورٹیکسٹائل انڈسٹری نہ صرف ہمارے 66 فیصد برآمدات کا احاطہ کرتی ہے بلکہ
40 فیصد مزدوروں کو روزگار بھی فراہم کرتی ہے۔ملکی آب و ہوا کپاس کے لیے
ساز گار ہونے کے باعث پاکستان عرصہ دراز سے کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے
دنیا کے پانچ بڑے ممالک میں شامل رہا ہے لیکن گزشتہ پانچ سالوں میں کپاس کی
پیداوار میں تشویشناک حد تک کمی نے ملکی معیشت کو بری طرح متاثر کیا
ہے۔پاکستان میں گذشتہ برس کپاس کی فصل خاصی بہتر رہی اور 14.6 ملین گانٹھیں
حاصل ہوئیں ،لیکن مجموعی طور پر کپاس کی پیداوار میں30فیصد کمی واقع ہوئی
جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو 5فیصد نقصان کا سامنا رہا۔کپاس کی پیداوار
تخمینہ سے کم ہونے کے باعث کپاس کے متوقع بحران سے نمٹنے کے لیے رواں سال
15 لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ بیرون ممالک سے روئی کے درآمدی معاہدے کرلیے گئے
ہیں ۔کپاس کی پیداوار میں عالمی شہرت کے حامل ملک کے لیے اربوں روپے کپاس
کی درآمد پر خرچ کرنا حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
موسمی تغیرات اورہر سال بیماریوں کے حملے کے علاوہ کپاس کے زیر کاشت رقبہ
میں بتدریج ہونے والی کمی کپاس کی پیداوار میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔ سینٹرل
کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان کے مطابق حالیہ سیزن میں کپاس کے زیرکاشت رقبہ
میں کمی کا بنیادی سبب گنے کے زیرکاشت رقبہ میں ہونے والا اضافہ ہے۔ ادارے
کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال صوبہ پنجاب میں 15 لاکھ ایکڑ
رقبہ پر گنے کی فصل کاشت کی گئی تھی، جبکہ رواں سال گنے کا زیر کاشت رقبہ
بڑھ کر 18 لاکھ ایکڑ ہوگیا ہے۔گزشتہ سال کپاس کے زیر کاشت رقبہ میں پنجاب
میں 21فیصد کمی اور ملک بھر کے مجموعی زیر کاشت رقبہ میں 15فیصد کمی ہوگئی
جوکپاس کی پیداوار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ملکی پیداوار کے لحاظ سے صوبہ پنجاب میں کپاس کی کاشت کا رقبہ 80 فیصد
ہے۔کپاس کی فصل پر کیڑوں کے حملے سے بچاﺅ کے لیے حکومت نے محکمہ زراعت کی
ہدایات پرصوبہ پنجاب میں کپاس کی قبل از وقت بوائی پر دفعہ 144 نافذکردی
ہے۔اگیتی کاشت پر پابندی کی وجہ سے کاشتکارکپاس کی بوائی کے لیے 15 اپریل
تک انتظار کرنے کے بجائے کماد کی بوائی کی طرف راغب ہورہے ہیں ۔کاشت کاروں
کی ایک قابل ذکر تعداد اس حکومتی اقدام کو © ©"کاٹن بیلٹ"میں شوگر ملز
لگانے والے مافیا کماد کاشت کو فروغ دلوانے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔یہ
حقیقت ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے کماد کے بڑھتے ہوئے زیر کاشت رقبہ نے کپاس
کی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔کماد گرم مرطوب علاقے کی فصل ہے اور پنجاب
گرم خشک علاقہ ہے یہاں اوسط سالانہ بارش بھی کم ہوتی ہے۔امریکہ کی سٹینفورڈ
یونیورسٹی کے محققین کے مطابق جس خطہ میں کماد کی فصل کاشت کی جائے وہاں
درجہ حرارت کم اور آب و ہوا مرطوب ہوجاتی ہے۔پاکستان میں کپاس کے کی کاشت
کے لیے سازگار سمجھے جانے والے علاقوں میںکماد کاشت کرنے کی وجہ سے فضا میں
نمی کا تناسب بڑھ چکا ہے جس کی وجہ سے آب و ہوا گرم مرطوب ہوچکی ہے۔چونکہ
کپاس کی فصل کے لیے گرم خشک آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے آب و ہوا کی
تبدیلی کی وجہ سے اس فصل پر ہر سال نت نئی خطرناک بیماریوں کا حملہ معمول
بن چکا ہے۔
کپاس کے پیداواری علاقوں میں کماد کی کاشت کے فروغ کے لیے سرگرم عمل مافیا
اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں کماد کی فی ایکڑ اوسط
پیداوار 639من ہے جو کہ دیگر ممالک سے کئی گنا کم ہے۔مصر،جنوبی افریقہ،
آسٹریلیا، انڈونیشیا اور ملائشیا میں فی ایکڑ اوسط پیداوار 1800من سے زائد
ہے جبکہ ہمارے ہمسایہ ممالک چین، بھارت اور بنگلہ دیش بھی اس دوڑ میں ہم سے
کئی گنا آگے ہیں۔ کماد کی فصل 12 سے 16 ماہ میں تیار ہوتی ہے اور اس کے لیے
اوسطاً 78 انچ فی ایکڑ پانی درکار ہوتا ہے۔جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر
مقامی فصلوں کے لیے پانی کی ضرورت کا جائزہ لیں تو کپاس اوسطاً 39 انچ فی
ایکڑ، مکئی 35 انچ فی ایکڑ، گند م ،جوار اور باجرہ 21 انچ فی ایکڑ پا نی سے
تیار ہوجاتی ہیں۔اعدادو شمار سے واضح ہوتا ہے کہ کماد کی فصل کو باقی تمام
فصلوں کی نسبت تین گنا زیادہ پانی کی ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود ہر سال
کماد کے زیر کاشت رقبہ میں اضافہ کر کے ملک کو پانی کے بحران میں دھکیلنے
کی سازش کی جارہی ہے۔اگر کماد کے زیر کاشت رقبہ کو محدود کر دیا جائے تو
جہاں کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہوگا وہاں ایک کثیر رقبہ پر اس دورانیہ میں
گندم کی دو فصلیں کاشت کی جا سکتی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان گندم میں خود
کفیل ہوجائے گا۔
کسانوں کی کسمپرسی ملاحظہ کیجیے کہ چینی کی کم قیمتوں کی وجہ سے گنے کے
کاشتکاروں کو اپنی فصل شوگر انڈسٹری کے صنعت کاروں کے رحم وکرم پر چھوڑنی
پڑتی ہے۔بااثر افراد پر مشتمل شوگر ملز مافیا بیک وقت کم قیمت پر گنا خرید
کر اور کسانوں کو مہنگے داموں چینی فروخت کر کے ان کا استحصال کر رہا ہے۔
کسانوں کو گنے کی مناسب قیمت نہیں دی جاتی بلکہ معمولی قیمت کی ادائیگی کے
لیے بھی مہینوں تک محروم رکھا جاتا ہے۔شوگر ملز کروڑوں روپوں کی نادہندہ
ہیں کیوں کہ بیشتر شوگر ملیں حکمرانوں اور سیاسی راہنماﺅں کی ذاتی ملکیت
ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں کل 85شوگرملز میں سے آدھی
سیاستدانوں کی ملکیت ہیں۔ پنجاب میں شریف خاندان کی 9شوگرملزہیں جبکہ سندھ
میں چار شوگرملززرداری خاندان کی ملکیت ہیںاور ایک شوگر مل ذوالفقار مرز ا
کی ملکیت ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی اخترعبدالرحمان کے دوصاحبزادوں
ہارون اختر اور ہمایوں اختر کی دوشوگرملز ہیں ۔ تحریک انصاف کے مرکزی
رہنماءجہانگیر خان ترین کی دوشوگرملزاورسابق چیئرمین پی سی بی ذکاءاشرف ایک
شوگر مل کے مالک ہیں ۔ سابق وفاقی وزیرعباس سرفراز خیبر پختونخوا میں
موجود8 میں سے 4 شوگر ملز کے مالک ہیں۔اسی طرح اس کے علاوہ مخدوم احمد
محمود ، نصراللہ دریشک ، چوہدری شجاعت حسین ،چوہدری پرویزالٰہی اور میاں
اظہرسمیت کئی سیاستدان اور خاندان شوگر ملز کے مالک ہیں۔شایدیہی وجہ ہے کہ
ٹیکسٹائل ملزکی نسبت شوگر مافیازیادہ طاقتور ہے اور کپاس کی کاشت کرنے کے
بجائے کماد کو ترجیح دیتے ہوئے ملکی معیشت کو تباہ کیا جارہا ہے۔
موجودہ حالات میں کپاس کی پیداوار میں اضافہ کے لیے حکومت کو انقلابی
اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔کپاس کی پیداوار کے لیے موزوں علاقوں بالخصوص
جنوبی پنجاب میں کماد کی کاشت ، شوگر ملز کی منتقلی اور نئی شوگر ملز لگانے
پر پابندی عائدہونی چاہیے ۔کماد کی فصل کے طویل دورانیہ اور پانی کی زیادہ
ضرورت کی وجہ سے دنیا بھر میں چقندر کو چینی کے بہترین ذریعے کے طور پر
استعمال کیا جارہا ہے۔پاکستان میں خیبر پختونخواہ،سندھ او ر پنجاب کے کچھ
اضلاع کی آب و ہوا چقندر کی کاشت کے لیے سازگار ہے۔چقندر کی فصل جلد تیار
ہوجاتی ہے اور پاکستان میں اس کی اوسط پیداوار بھی زیادہ ہے اس لیے اسے
چینی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چقندر کی کاشت کوکماد کے متبادل کے
طور پر فروغ دیا جانا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ |