بھارت میں ریاستی انتخابات٬ بی جے پی کی برتری کو خطرہ!!

پانچ ریاستوں کے انتخابات میں دلّت اور مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا

چند روز قبل بھارت میں 5 ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات مکمل ہوگئے، تادم تحریر ووٹوں کی گنتی جاری ہے تاہم ابتدائی نتائج کے مطابق بی جے پی اور کانگریس کو واضح برتری حاصل ہوچکی ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش سمیت 5 ریاستوں میں ایک ماہ سے زائدکے طویل انتخابی مرحلے کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے ۔ابتدائی نتائج اور بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست اُترپردیش اور اُتر کھنڈ میں بھارتیا جنتا پارٹی(BJP) جب کہ پنجاب،منی پور اور گوا میں کانگریس نے برتری حاصل کی ہے۔رواں سال ریاستی انتخابات راہول گاندھی کی کانگریس، مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی اور اکھلیش یادیو کی سماج وادی پارٹی کے درمیان 4فروری سے 11مارچ تک 7 مراحل میں طے پائے جن میں 13 کروڑ 90 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

بھارت کی بڑی ریاستوں میں شامل ریاست اترپردیش کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی 30 سے 40 فیصد تک ہے۔مغربی اتر پردیش میں جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔سماج وادی پارٹی اگرچہ سوشلسٹ نظریات والی سیاسی جماعت ہے لیکن اس کے حامیوں کی اکثریت کسانوں پر مشتمل ہے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی 18سے20 فیصد ہے۔ مسلمانوں کی 18کروڑ سے زائد آبادی، دلّتوں کی اس سے بھی زیادہ آبادی جبکہ پنجاب میں سکھوں کی آبادی ہے۔

’’اتر پردیش ‘‘میں انتخابات
اتر پردیش یو۔ پی بلحاظ آبادی بھارت کی سب سے بڑی اور رقبے کے اعتبار سے پانچویں بڑی ریاست ہے۔اتر پردیش دریائے گنگا کے انتہائی زرخیز اور گنجان آباد میدانوں پر پھیلی ہوئی ریاست ہے۔اس کی سرحدیں نیپال کے علاوہ بھارت کی ریاستوں اتر انچل، ہماچل پردیش، ہریانہ، دہلی، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھاڑکھنڈ اور بہار سے ملتی ہیں۔اتر پردیش کا انتظامی و قانونی دار الحکومت لکھنؤ ہے ۔ ریاست کے دو بڑے دریاؤں، گنگا اور دریائے جمنا، الٰہ آباد میں ملتے ہیں ۔ ریاست میں کئی تاریخی، قدرتی، اور مذہبی سیاحتی مقامات ہیں، جیسا کہ، آگرہ، وارانسی، رائے بریلی، کوسامبی، کانپور، بلیا، شراوستی ضلع، گورکھپور، اناؤ، چوری چورا میں واقع گورکھپور، کشی نگر، لکھنؤ، جھانسی، الٰہ آباد، بدایوں، میرٹھ، متھرا، جونپور، اترپردیش اور مظفر نگر۔

انتخابات سے قبل اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے اور پارٹی کے نوجوان سربراہ اور صوبائی وزیر اعلیٰ اکھِلیش یادیو اس مرتبہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کر کے ان انتخابات میں حصہ لیا۔ریاست اترپردیش کی صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد 403 ہے ۔یہ انتخابات نریندرمودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے سب سے اہم انتخابات قرار دیے گئے۔ انتخابات وزیر اعظم مودی کی اب تک کی کارکردگی کے تناظر میں ریفرنڈم جیسی حیثیت رکھتے تھے۔ بھارت میں آئندہ عام انتخابات 2019ء میں ہونے ہیں۔ریاست اتر پردیش کی اہمیت کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مودی کی سیاسی جماعت بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کے لیے موجودہ ریاستی انتخابات آئندہ عام انتخابات سے قبل ’’سیمی فائنل‘‘کا درجہ رکھتے ہیں۔بھارتی ایوان زیریں (لوک سبھا) میں کل 543 نشستیں ہیں جن میں سے 80 اراکین کا انتخاب صرف اس ایک بھارتی ریاست یعنی اترپردیش سے ہوتا ہے۔ 2014ء کے عام انتخابات کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP) نے اس ریاست سے لوک سبھا کی 71 نشستیں جیتی تھیں۔

گزشتہ ریاستی انتخابات کی بات کی جائے تو2012ء میں سماج وادی پارٹی(SP) نے 224 سیٹیں حاصل کی تھیں جبکہبہوجن سماج پارٹی (BSP)کو 80 سیٹیں ملی تھی اور بھارتیہ جنتا پارٹی 47 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی جبکہ کانگریس صرف 28 سیٹیں ہی جیت سکی تھی۔اتر پردیش کی آبادی 20کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے،جس میں موجود پشتون آبادی جو اس ریاست میں موجود سب سے بڑی مسلم آبادی ہے۔

نشستوں کی تفصیل کے مطابق اترپردیش انتخابات میں کل 403 نشستوں پر الیکشن ہوا،جس میں سے بی جے پی نے325نشستوں پر واضح برتری حاصل کی دیگر جماعتوں میں سماج وادی پارٹی کو54،بہوجن سماج پارٹی19حاصل کرکے سرفہرست رہیں جب کہ تادم تحریر کانگریس 5نشستیں ہی حاصل کرسکی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریاست اترپردیش میں بی جے پی نے 13 برس بعد انتخابی معرکہ اپنے نام کیا۔

’’پنجاب‘‘ میں انتخابات
حالیہ ریاستی انتخابات میں بھارتی ریاست پنجاب میں بھی انتخابات ہوئے۔بھارتی ریاست پنجاب کی سرحدیں مغرب میں پاکستان کے صوبہ پنجاب، شمال میں جموں و کشمیر، شمال مشرق میں ہماچل پردیش، جنوب میں ہریانہ، جنوب مشرق میں چندی گڑھ اور جنوب مغرب میں راجستھان سے ملتی ہیں۔ریاست کا کل رقبہ 50 ہزار 362 مربع کلومیٹرہے۔بھارتی پنجاب کا دارالحکومت چندی گڑھ ہے جو پڑوسی ریاست ہریانہ کا بھی دارالحکومت ہے۔ دیگر بڑے شہروں میں بھٹینڈہ، امرتسر، جالندھر، لدھیانہ اور پٹیالہ شامل ہیں۔بیشتر آبادی سکھ مت کی پیروکار ہیں،سکھ مت ‘بھارتی پنجاب کا بڑا مذہب ہے جو پنجاب کی کل آبادی کے 58فیصد عوام کا مذہب ہے، دوسرے درجہ پر ہندو مت ہے جس کے پیروکاروں کی تعداد 38.5فیصد ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے، اور سکھ مذہب کے آغاز سے قبل، ہندومت پنجابی لوگوں کا بنیادی مذہب تھا۔سکھ مقدس مقامات میں سب سے مقدس مقام، ہرمندر صاحب، پنجاب کے شہر امرتسر میں واقع ہے اور اس کی نگران کمیٹی شرومنی گوردوارہ پربندک کمیٹی بھی امرتسر ہی میں ہے۔یہاں مسلمان 1.93فیصد ہیں، جو زیادہ تر ملیر کوٹلہ میں ہیں۔ مسلم اکثریت کے ساتھ یہ واحد شہر دیگر میں لدھیانہ شہر میں مسلمان آباد ہیں۔ دیگر مذاہب میں جیسے مسیحیت 1.3فیصد ، بدھ مت 0.12فیصد اور جین مت 0.12فیصد آبادی کا مذہب ہے۔

2012ء میں ہونے والے گزشتہ انتخابات میں کانگریس نے 46 نشستیں، شرومنی اکالی دل اور بی جے پی (اتحاد نے) 56 نشستیں جیتی تھیں جبکہ تین نشستوں پر دیگر امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔

حالیہ انتخابات میں بی جے پی کو سب سے بڑا اپ سیٹ پنجاب میں ہوا جہاں ریاستی اسمبلی کی 117 نشستوں میں سے77 پر کانگریس کو کامیابی ملی جب کہ ریاست میں پہلی بار الیکشن میں حصہ لینے والی اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی دوسرے نمبر پررہی جس نے 20 سیٹیں حاصل کی۔بھارتی پنجاب میں 10 سال سے حکمراں اکالی دل ،بی جے پی اتحاد نے انتہائی برے انداز میں شکست کھائی۔یہاں کانگریس کو سبقت حاصل ہوئی جبکہ اکالی دل اور بی جے پی اتحاد تیسرے نمبر پر ہے۔

نشستوں کی تفصیل کے مطابق بھارتی پنجاب میں ریاستی انتخابات میں کل 117 نشستوں میں سے کانگریس77نشستوں کے ساتھ سرفہرست رہی جبکہعام آدمی پارٹی نے20،اکالی دل اور بی جے پی (اتحادکو)18 اوردیگرامیدوار وں نے02نشستیں حاصل کیں۔

’’منی پور‘‘ میں انتخابات
بھارتی ریاست منی پورکے اصل باشندے میتی قبائل کے لوگ ہیں، جو یہاں کے دیہی علاقے میں رہتے ہیں،منی پور ریاست کا دارالحکومت اپھال ہے۔ محل وقوع کے لحاظ سے منی پور کے ہمسائیہ ریاستوں میں شمال میں ناگالینڈ اور جنوب میں میزورم، مغرب میں آسام اور مشرق میں اس کی سرحد برما سے ملتی ہے۔ منی پورکو ایک حساس سرحدی ریاست تصور کیا جاتا ہے۔اس کا رقبہ 22¡347مربع کلومیٹرہے اور یہاں کی زبان میتلون ہے، جسے منی زبان بھی کہتے ہیں۔یہ زبان 1992ء میں بھارت کے آئین میں شامل کی گئی اور اسے ریاست کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ یہاں کے پہاڑی علاقوں میں ناگا اور کوکیز قبائل کے لوگ رہتے ہیں۔منی پور کی کل آبادی میں63فیصد لوگ میتئی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ریاست کے موجودہ وزیر اعلیٰ ایبوبی بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔چونکہ میتئی کی آبادی بڑی ہے،اسی لئے بی جے پی نے انتخابات کے دوران اس طبقے پر فوکس کیالیکن 30لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل ریاست منی پور میں اقلیتی طبقہ میں عیسائی اور مسلمانوں کو ملا کر مجموعی تعداد اتنی ہوجاتی ہے جو کسی بھی پارٹی کو اقتدار تک پہنچا سکتی ہے۔

منی پور میں 15 سال سے کانگریس کی قیادت چل رہی تھی۔2012ء کے انتخاب میں کانگریس نے 42 سیٹیں حاصل کرکے حکومت قائم کی تھی۔ کانگریس نے اوکرام ایبوبی سنگھ کو ریاست کا وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔2011ء کی مردم شماری کے مطابق ، ریاست میں31 لاکھ کی آبادی میں41.39 فیصد ہندو، 41.29 فیصد عیسائی ، 8.40 فیصد مسلمان، 0.05فیصد سکھ، 0.25فیصد بدھسٹ ، 0.06فیصد جین اور بقیہ دیگر مذاہب کے ہیں۔
بھارت میں حالیہ ریاستی انتخابات میں منی پور میں بھی انتخابات ہوئے،باقی ریاستوں کی طرحمنی پور میں ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے جہاں کانگریس کو برتری حاصل ہے۔منی پور سے حاصل کردہ انتخابی رجحانات کے مطابق اسمبلی کی کل 60نشستوں پرکانگریس اور بی جے پی کے درمیان سخت مقابلہ ہوا،جس میں تاحال نتائج کے مطابق کانگریس نے27نشستوں پر برتری حاصل کی۔ووٹوں کی گنتی کے دوران ایک بار تو صورتحال بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں جارہی تھی ۔اگر منشور کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں بڑی پارٹیوں میں کانگریس ترقی کے ایشو کو لے کر میدان میں اتر یجب کہ BJP بدعنوانی سے پاک اور گڈ گورننس کے ایشو پر الیکشن لڑا۔نشستوں کی تفصیل کے مطابقمنی پورانتخابات میں کل 60 نشستوں پر الیکشن ہوا،جس میں سے کانگریس نے27،بی جے پی نے22 ،تریما مول کانگریس1 اور دیگر امیدواروں نے 10نشستیں حاصل کیں۔

’’اترا کھنڈ ‘‘میں انتخابات
ریاست اتراکھنڈ بھارت کے شمال میں واقع ہے۔ اسے بھارت کی27ویں ریاست کہا جاتاہے۔ ہماچل پردیش ، ہریانہ اور اتر پردیش اس کی پڑوسی ریاستیں ہیں۔2000ء تک یہ اتر پردیش کا حصّہ تھا۔ اس علاقے کی غیرترقی یافتہ کے پیشِ نظر 9 نومبر 2000ء کواتر پردیش کے 13 شمال مغربی اضلاع کو شامل کرتے ہوئے اترانچل کے نام سے ریاست کی تشکیل ہوئی۔ 2006ء کو اتراکھنڈ نام رکھا گیا۔یہاں بیشتر سیاحتی مقامات موجود ہیں لیکن نینی تال اس ریاست کا مشہور و معروف سیاحتی مرکز ہے۔ہمالیہ کوہستان ہی یہاں کی خاصیت ہے۔ دریائے گنگا اور جمنا کے تفریحی مراکز بھی یہیں ہیں۔

ماضی کی بات کی جائے توگزشتہ سال مارچ کے مہینے میں ویڈیو لیک سکینڈل کی وجہ سے بھارتی ریاست اتراکھنڈ کی اسمبلی کو معطل کرنے کے بعد ریاست میں صدارتی راج نافذ کردیا گیا تھا۔۔اس سے قبل اترکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہریش راوت نے اسپیکر اسمبلی جی ایس کنجوال سے ملاقات کرکے کانگرس کے نوارکان کواسمبلی رکنیت ختم کرنے کی سفارش کی تھی۔ بھارتی رپورٹسکے مطابق کانگرس کے ارکان اسمبلی نے ایک وڈیو جاری کی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ اترکھنڈ ہریش راوت مبینہ طور پر اپنی حکومت بچانے کیلئے ہارس ٹریڈنگ کر رہے تھے اور ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کر دہے تھے۔ویڈیومیں وزیر اعلیٰ اترکھنڈ کو یہ کہتے سنا گیاتھا کہ وہ حمایت کرنے پر ارکان کو پانچ کروڑ روپے دینے کو تیار ہیں۔ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد کانگرس کے ایک رکن ہراک سنگھ روات نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ کانگرس اور بے جے پی ارکان کو خریدنے اور 28 مارچ کو اپنے حق میں ووٹ دینے کیلے رشوت دے رہے ہیں۔بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان الزامات کے بعد وزیر اعلیٰ ہریش راوت نے سپیکر اسمبلی جی ایس کنجوال سے ملاقات کی تھی جس کے بعد اسپیکر نے کانگرس کیہریش راوت کی حکومت کو گرانے کیلئے بے جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے پر نو ارکان کے خلاف اینٹی ڈیفیکشن قانون کے تحت نوٹس جاری کیا تھا تاہم شدید بحران پیدا ہونے کے بعد آج اترکھنڈ اسمبلی کو معطل کر دیا گیا ہے۔

2012ء میں ہونے والے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے 31 سیٹیں حاصل کیں جبکہ کانگریس نے 32 پر کامیابی حاصل کی تھی۔حالیہ انتخابات میں یو۔پی کی طرح ریاست اتراکھنڈ میں بھی بی جے پی نے57 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے اکثریت حاصل کی اور 70 رکنی اسمبلی میں کانگریس نے 11 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی مگر ریاست اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہریش راوت جو دو نشستوں پر الیکشن لڑ رہے تھے وہ دونوں ہی جگہ انھیں شکست ہوئی ۔

’’گوا‘‘میں انتخابات
ریاست گوارقبہ کے لحاظ سے بھارت کی سب سے چھوٹی ریاست ہے۔جب کہ آبادی کے لحاظ سے یہ بھارت کی چوتھی ریاست ہے۔ یہ ریاست بھارت کے جنوبی مشرقی علاقہ میں واقع ہے۔ اس علاقہ کو کونکن بھی کہا جاتا ہے۔محل وقوع کے لحاظ سے اس ریاست کے شمال اور مشرق میں ریاست مہاراشٹر، جنوب میں ریاست کرناٹک اور مغرب میں بحیرہ عرب واقع ہے۔

گوا کے گزشتہ کئی اسمبلی انتخابات میں عام طور پر بی جے پی اور کانگریس کے بیچ مقابلہ رہا ہے اور اکثر علاقائی پارٹیوں میں سے کوئی ایک سرکار بنوانے میں فیصلہ کن کردار میں رہی ہے۔ بی جے پی میں اندرونی اختلاف ہے، اس کے باوجود پارٹی مہاراشٹر وادی گومانتک پارٹی کے ساتھ اپنا گٹھ بندھن توڑ کر اِکلا چلو کی راہ پر نکل چکی ہے۔ وہیں قومی سطح پر 2014ء کے عام انتخابات کی ہار کے بعد کانگریس اپنی کھوئی ہوئی زمین تلاش کر رہی ہے۔ 2014ء کے بعد پانڈیچری کو چھوڑ کر کانگریس کو کسی بھی ریاست کے انتخاب میں کامیابی نہیں ملی ہے لیکن رواں سال کانگریس نے گوا سے کافی امیدیں لگا رکھی تھیں۔

دہلی اور پنجاب میں اپنے قدم جمانے کے بعد عام آدمی پارٹی گوا میں بھی اپنی زمین تلاش کررہی ہے۔ دراصل گوا کی ایسی پارٹی اور تنظیم جو نہ کانگریس کے ساتھ تھے اور نہ ہی بی جے پی کے ساتھ تھے ،انہوں نے عام آدمی پارٹی کا دامن تھام لیا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے سابق بیوروکریٹ ایلوس گومیز کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنایا ہے۔ حالانکہ ایسی رپورٹیں آرہی ہیں کہ گومیز کو وزیر اعلیٰ امیدوار بنانے سے پارٹی کے اندر کا ایک طبقہ خوش نہیں ہے۔ لیکن حالیہ کچھ مہینوں کے دوران کجریوال نے ریاست کے کئی دورے کئے ہیں۔کئی ریلیاں کی ہیں جن میں اچھی خاصی بھیڑ بھی جمع ہوئی اور ریاست میں کارکنوں کی ایک ٹیم بھی کھڑی ہو گئی ہے۔

2012ء میں ہونے والے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے 21، جے یو پی نے 2، کانگریس نے 9، میاراشٹروادی گوماتی پارٹی نے 3 اور دیگر نے 5 نشستیں جیتی تھیں۔رواں سال بھارتی پنجاب اور گوا میں ریاستی انتخابات کا آغاز4 فروری کو ہوا تھا۔حالیہ انتخابات میں گوا میں کانگریس کو بی جے پی پر سبقت حاصل رہی حالانکہ رواں انتخابات سے قبل تک مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو گوا کی ریاست میں اکثریت حاصل تھی۔

انتخابی تفصیلات کے مطابق گوا کی ریاستی اسمبلی کی کل 40 سیٹوں میں سے کانگریس نے 17 نشستیں جیتیں جبکہ بی جے پی نے 13 نشستیں جیتی ہیں۔ دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے حصے میں 10 سیٹیں آئی ہیں۔

انتخابی منشور میں کیے گئے وعدے
انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں سے جو وعدے کیے تھے وہ چند ایک یہ ہیں :
’’دہشت گردی کے الزامات میں بند مسلم نوجانوں کی جیلوں سے رہائی، مسلمانوں کو زیررویشن فراہم کرنا، دہشت گردی کی آڑ میں خصوصاً اُترپردیش کے بے قصور مسلم نوجوانوں کو فوراً رہا کرایا جائے گا، معاوضہ بھی ادا کیا جائے گا اور انصاف بھی دلایا جائے گا۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں سکول اور کالجز کھولے جائیں گے۔ ریاستی حکومت سے متعلق سفارشات کو نافذ کیا جائے گا۔ اُردو اور وقف بورڈ کی جائیدادوں کے متعلق بھی وعدے کیے گئے لیکن ان کا کیا حشر ہوا، آیئے دیکھتے ہیں۔
٭اُردو کی ترقی اور ترویج کے لیے مسلم اکثریتی اضلاع میں سرکاری سطح پر سرکاری اُردو میڈیم پرائمری، مڈل اور ہائی سکول قائم کرنے کا وعدہ تھا، کوئی سکول قائم نہ ہوا۔
٭اُترپردیش میں اُردو کی ترقی وترویج تو ایک طرف، خواجہ معین الدین چشتیؒ اُردو عربی فارسی یونیورسٹی سے اُردو کو نکال دیا گیا۔
٭اُترپردیش کے ایک پی آر او ’’آر۔این درویدی‘‘ سے جب یہ پوچھا گیا کہ مسلمانوں کو مین سٹریم میں لانے کے لیے کیا کِیا گیا تو اُس کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
٭اُترپردیش کے بے قصور مسلم نوجوانوں کی جیلوں سے رہائی، انصاف اور معاوضہ بارے ’’رہائی مینج آرگنائزیشن‘‘ کی رپورٹ کہتی ہے کہ حکومت نے اس وعدے کو بالکل فراموش کر دیا اور ’’نمیش کمیشن رپورٹ‘‘ (خالد مجاہد کو بے گناہ پکڑنے کے بارے میں رپورٹ) پر بھی کوئی عمل نہ کیا گیا، جب رہائی نہیں تو معاوضہ کیسا؟
٭ ’’رنگا ناتھ مشرا کمیشن‘‘ اور ’’سچر کمیٹی رپورٹ‘‘ (مسلمانوں کے حقوقِ تحفظ اور ریزرویشن کو ممکن بنانے کے بارے رپورٹ) ان رپورٹوں کی سفارشات کے نفاذ کے لیے مرکزی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے وعدے کے متعلق الیکشن سے پہلے رام گوپال یادو نے سچر کمیٹی کے حوالے سے کہا ’’کہ رپورٹ میں مسلمانوں کو دلّتوں سے بھی زیادہ پسماندہ قرار دیا ہے لہٰذا حکومت مسلمانوں کے لیے آئین میں ترمیم کر کے ریزرویشن کو ممکن نہیں بناسکتی حالانکہ اسی رام گوپال یادو کی پارٹی نے یہ وعدہ کیا تھا۔
٭وعدہ تھا کہ سب سرکاری کمیشنوں، بورڈوں اور کمیٹیوں میں کم ازکم ایک اقلیتی نمائندہ بطورِ رُکن نامزد کیا جائے گا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔
٭وعدہ تھا کہ وقف بورڈ کی جائیدادوں پر سے ناجائز قبضے ختم کرا کے اسے وقف بورڈ کے حوالے کیا جائے گا مگر اس پر کوئی عمل نہ ہوا۔
٭وقف جائیدادوں کو تحویل اراضی قانون کے دائرہ سے باہر رکھا جائے گا اور اس بارے قانون بنانا منشور کا حصہ تھا مگر نہ کوئی قانون بنا نہ عمل ہوا۔

اور ایسے ہی دوسرے وعدے جو بڑے دھڑلے سے اور دعوے سے کیے گئے تھے، عمل سے محروم رہے۔ تمام لوگ یا عوام ہر جگہ سیاست پر بحث کرتے، ٹھیلہ فروش اور مزدور سے لے کر کاروباری حضرات تک سیاسی بحث ومباحثہ کرتے نظر تو آتے ہیں لیکن منشور یا انتخابی وعدے کیا تھے، کیا وہ پورے ہوئے، یہ بہت کم لوگوں کی نظر میں ہوتا ہے۔
٭……٭……٭

Rehman Mehmood Khan
About the Author: Rehman Mehmood Khan Read More Articles by Rehman Mehmood Khan: 38 Articles with 39521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.