طویل عرصہ بھارت پر حکمرانی کرنے والے خاندان کے وارث
راجیوگاندھی کے بیٹے راہول گاندھی نے 2007ء میں جب بھارت میں کانگریس کی
حکومت تھی‘اترپردیش کے تاریخی شہر بریلی میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے
ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو توڑنا ان کے خاندان کا اہم کار نامہ ہے۔ان کا
خاندان جس ہدف کا تعین کرتا ہے اسے حاصل بھی کر لیتا ہے‘ ان کے خاندان سے
تعلق رکھنے والی شخصیات نے جن مقاصد کا تعین کیا ان کے حصول میں کامیابی
بھی حاصل کی‘ ان کی کامیابیوں میں بھارت کی 1947ء میں آزادی اور 1971ء میں
پاکستان کو دو ٹکڑے کرنا بھی شامل ہے۔ بھارت میں نہرو خاندان کو بنیاد پرست
اور انتہا پسند ہندو سیاسی رہنماؤں کی جماعتوں اور خانوادوں کی نسبت قدرے
ماڈریٹ اور لبرل تصور کیا جاتا رہا ہے لیکن 1971ء میں اندرا گاندھی نے جب
دو قومی نظریہ کو سمندر برد کرنے کی بڑھک لگائی تھی‘ اس نے یہ ثابت کیا تھا
کہ اب نہرو خاندان کے ہر فرد کے وجود میں راشٹریہ سیوک سنگھی تصورات‘
رجحانات‘ تعصبات‘ ترجیحات اور نظریات کی روح حلول کرچکی ہے۔راجیو گاندھی کی
بیوہ سونیا گاندھی بھی مسلم بیزاری اور پاکستان دشمنی میں بھارتیہ جنتا
پارٹی اور شیو سینا کے رہنمئاوں سے دو قدم آگے ہیں۔
کاش! اندرا گاندھی کے پوتے کو اس امر کی خبر ہوتی کہ 20 ویں صدی کے 8ویں
عشرے کے آغاز میں قیام بنگلہ دیش کے نام پر پاکستان کے دو ٹکڑے کرکے انہوں
نے جنوب مشرقی ایشیا میں یونائیٹڈ انڈیا کے نام سے جو کانگریس کا پرانا
سپنا تھا‘ ایک نئی مسلم ریاست کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ کیا ان سے پوچھا
جاسکتا ہے ہے کہ 16دسمبر 1971ء کے بعد کیا اس خطے میں دو نئی مسلم ریاستیں
معرض وجود میں نہیں آئیں۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا روپ دیتے وقت
اندرا گاندھی کے فرشتوں کو بھی اس کی خبر نہ تھی کہ ان کی حکومت اور افواج
اکھنڈ بھارت کو دو مسلم ریاستوں کا روپ دے چکی ہیں۔ بنگلہ دیش کا بین
الاقوامی تشخص ایک مدت تک مسلم ریاست کا تشخص رہا۔راجیو گاندھی کے بیٹے
راہول گاندھی کا سقوط مشرقی پاکستان کے تقریباً40 سال بعد دیا جانے والا
بھاشن واشگاف الفاظ میں اعتراف جرم تھا۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ بھارت میں
حکومت کانگریس کی ہو یاراشٹریہ سیوک سنگھ پر یوار کی کسی جماعت کی پاکستان
دشمنی اور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی دونوں کا مشترکہ ایجنڈا رہا
ہے۔پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہر بھارتی حکومت کے ایجنڈے میں سرفہرست
ترجیح اور خواہش رہی ہے ۔ اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی انتہا پسند
حکمران بھول جاتے ہیں کہ 1971ء کی صورت حال اور آج کی صورتحال میں زمین اور
آسمان کا فرق ہے اور اب کسی کو پاکستان کی دفاعی صلاحیت کے بارے میں غلط
فہمی ہونی چاہیے۔1971ء میں کیا ہوا؟ یہ سب کو معلوم ہے کہ بھارت پاکستان کے
اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے اور ہمیشہ پاکستان کو غیر مستحکم
کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔ تاریخ کا اوراق پر نگاہ رکھنے والے شہری جانتے
ہیں کہ 1971ء میں کیا ہوا؟ انہیں اس امر کی خبر ہے کہ اس دور میں بھارت نے
پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اورتب سے اس کی کوشش رہی ہے کہ
پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔
پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی بات کرنے والے بھارت کانگریسی اور بھارتیہ جنتا
پارٹی کے رہنماؤں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آنے والے دنوں میں بھارت کے
بھی مزید ٹکڑے ہونے والے ہیں۔ بھارت میں خودمختاری کی تحریکیں ارونا چل
پردیش‘ آسام‘ بوڈا لینڈ‘ کھپلنگ میگھالیا‘میزورام‘ ناگالینڈ‘ تیرہ
پورہ‘بندیل کھنڈ‘ گوکھالینڈ‘ جھاڑکھنڈ‘ تامل ناڈو‘ میزولینڈ‘ خالصتان‘ ہما
چل پردیش اور کشمیر میں تو آزادکشمیر میں تو آزادی کی تحریکیں اس حد تک
توانا اور قوی ہوچکی ہیں کہ وہ مقبوضہ علاقوں سے بھارتی افواج کے انخلاء کے
لئے فدائی حملوں کے ہتھیار کو بھی استعمال کر رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ
1948ء سے تادم تحریر بھارتی غاصب افواج کے وادی سے انخلاء کے حق میں مظاہرے
کرتے ہوئے 5لاکھ سے زائد کشمیری جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ کشمیر کی وادی
میں آج بھی ’’کشمیر کی آزادی تک بھارت کی بربادی تک ‘جنگ رہے گی‘ جنگ رہے
گی کے نعرے گونج رہے ہیں۔ وادی کشمیر کو آزاد میڈیا اور غیر جانبدار ہیومن
رائٹس ایجنسیوں کے کارکنوں کے لئے بھارت سرکار نے آج بھی علاقہ ممنوعہ بنا
رکھا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مئی 2014ء میں انتہا ہندوؤں کے بل بوتے پر منتخب ہو
کر دہلی کے تخت پر جاں نشین ہونے والے نریندر مودی نے راکھ کے نیچے سلگنے
والی چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کردینے کی کوشش کی ہے اور ان کی سراکر
ابھی تک اس کام پر لگی ہوئی ہے۔نریندر مودی داخلی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے
کی خاطر پاکستان کے ساتھ چھیڑخانی کر رہے ہیں۔بھارتی سیاستدان اور حکمران
2014ء میں اسلام اور پاکستان کے حوالے سے جس جارحانہ اور منفی لب و لہجہ
میں گفتگو کرتے ہیں ‘ اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے
رہنماؤں اور حکمرانوں کے لاشعور اور تحت الشعورمیں آج بھی اٹل بہاری
باجپائی اور ایل کے ایڈوانی کے افکار و خیالات کی گہری چھاپ موجود موجزن ہے۔
یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ جب دو ممالک اور ان کے حکمران باہمی تعلقات کو
بہتر بنانے کے لئے اقدامات کرتے ہیں تو ان کے لب و لہجہ میں شائستگی کا
ظہور اولین تقاضا کی حیثیت رکھتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ بھارت میں صرف چہرے
بدلے ہیں ‘ نظام نہیں بدلا۔ محض چہروں کی تبدیلی سے پاک بھارت تعلقات میں
بہتری نہیں آسکتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ بھارت پاکستان کے ساتھ
پائیداد مذاکرات کرسکتا ہے کہ جہاں ہر انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا
انتخابی منشور سرتاپا پاکستان دشمنی کا مظہر ہوتا ہے۔ 2004ء اور 2014ء میں
بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور میں واشگاف الفاظ میں متعصب ہندو رائے دہندگان
کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اکھنڈ بھارت
کی بحالی اور قیام کے لئے مقامی و بین الاقوامی سطح پر ہمہ جہتی مساعی
بروئے کار لانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی‘ نیز یہ کہ خطے میں
رام راج کا غلبہ ہمارا خواب ہے۔
عالمی طاقت امریکہ کے دہرے معیار کا عالم یہ ہے کہ 2002ء کے گجرات کے
فسادات کے باعث مودی کو ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ہونے کی وجہ سے امریکی
ویزا دینے سے انکار کردیا تھا لیکن گجرات کے مسلمانوں کے اس قاتل مودی کے
برسراقتدار آتے ہی امریکی حکام نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ بھارت میں
زعفرانی انقلاب کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اسے عملی جامہ پہنتے ہوئے دیکھنا
چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ زعفرانی رنگ کٹر بنیاد پرست اور انتہا پسند جن سنگھ
پر یوار کی سیاسی جماعتوں کا مذہبی انتہا پسندی کا ایک حوالہ ہے۔ گویا
امریکی حکام نے نریندر مودی کے گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مسلمانوں کے
بے دریغ قتل عام کے جرم کو ان کے برسراقتدار آتے ہی معاف کردیا ۔
|