آئیڈیل معاشرہ

چند دن پہلے کی بات ہے۔ ایک دوست کہنے لگا کہ ہمارے ملک میں کتنی زیادہ پریشانیاں ہیں، روز کوئی نئی افتاد ٹوٹ پڑتی ہے۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، خودکشیوں، ڈاکوں، چوریوں اور قتل و غارتگری سمیت بے شمار پریشانیاں ہی کیا کم تھیں کہ آئے روز کے بم دھماکوں نے زندگی کا سکون غارت کر کے رکھ دیا ہے۔ ٹی وی چلاتے ہیں، اخبار اٹھاتے ہیں تو پریشانی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسی خبر ملتی ہو جو تکلیف دہ نہ ہو۔ نت نئی پریشانیاں، نت نئے مسائل استقبال کر رہے ہوتے ہیں۔ ان پریشانیوں کی وجہ سے لوگ ڈپریشن کے مریض بنتے چلے جارہے ہیں۔ مجھ سے پوچھنے لگا کہ معاشرے کو درپیش ان مسائل سے کسی طرح چھٹکارہ مل سکتا ہے؟ میں نے کہا کہ میرا تو نظریہ یہ ہے کہ یہ سب حالات اس لیے ہیں کہ ہم نے بحیثیت مجموعی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کی پیروری کرنا چھوڑ دی ہے، جس کو رب نے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک پرامن اور پرسکون معاشرے کے قیام کے لیے سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطالعے کو عام کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطالعے کو عام کیا جائے اور اس پر عمل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے تو معاشرے میں پھیلی بے چینی اور بدامنی میں کافی حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔

معاشرے میں جتنی بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں، اس کی شاید سب سے بڑی وجہ سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا عام نہ ہونا ہے۔ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک آئیڈیل معاشرہ قائم کیا، جس کے لیے دنیا کو اعتدال پر لانا از حد ضروری تھا، اس مقصد کے لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے معاشرے میں سدھار لانے کی کوشش کی اور تربیت کے ذریعہ ایسے افراد تیار کیے، جن کو غیروں کی اصلاح سے پہلے اپنی ذات کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی۔آج بھی اگر معاشرے میں سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا مطالعہ عام کیا جائے گا تو یقینا تمام معاملات میں بے اعتدالی کی بنی فضا خود بخود ختم ہوجائے گی اور سیرتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بدولت جس طرح اس وقت خیرالقرون کا صالح معاشرہ بنا، آج بھی وہی ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔ اس وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت سے متاثر ہوکر تیار ہونے والے لوگوں کے اندر شرم و حیاء، صبر وشکر، دیانت داری و امانت داری اور سخاوت و شرافت، ایثار و قربانی، عفت و پاک دامنی اور تواضع و انکساری کی اعلیٰ صفات پائی جاتی تھیں۔ یہ تمام صفات اگر سیرت نبوی کی روشنی میں بیان کی جائیں اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات کو عام کیا جائے تو آج بھی صالح اور آئیڈیل معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ اخلاقیات کا فقدان اور معاملات میں کمزوی موجودہ دور کا بڑا المیہ ہے۔ جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخر، غرور، ریا، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی سمیت تمام اخلاقی برائیاں پورے معاشرے میں سرائیت کرتی جارہی ہیں، جن کے سبب معاشرے میں بے چینی اور بدامنی جنم لے رہی ہے۔ اگر سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو عام کیا جائے تو آسانی کے ساتھ اس اخلاقی انحطاط کا بھی علاج ہوسکتا ہے۔

اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے، جو دو قسم کی ہے۔ ایک دہشتگردی تو وہ ہے جس میں ملک دشمن عناصر ملوث ہیں، اس کا علاج تو حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے سخت سیکورٹی کے ذریعے ہی ممکن ہے، جبکہ دوسری قسم کی دہشتگردی جو مذہب کے نام پر کی جاتی ہے اور کچھ سر پھرے مذہبی انتہا پسند مسلک، فرقے یا نفاذ شریعت کے عنوان سے کرتے ہوئے بے گناہ لوگوں کا خون بہاتے ہیں، اس کا علاج سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو عام کر کے ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ خود کو اسلام کے ٹھیکے دار سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے نابلد ہوتے ہیں، ان کو معلوم ہی نہیں کہ جس نبی کے دین کا نام لے کر یہ بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، وہ نبی تو ہر انسان کے جذبات کا احترام کرنے کا سبق دیتا ہے، مختلف مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے۔ مذہب کے نام پر دہشتگردی کرنے والے اگر نبی کی سیرت سے واقف ہوتے تو کبھی بے گناہ لوگوں کو قتل نہ کرتے اور جو مذہبی جماعتوں کے کارکن چھوٹے چھوٹے مسلکی اختلافات کو جنگ و جدل کا درجہ دینے لگتے ہیں اور ضد میں آکر اخلاق نبوی کو بھلا کر سطحیت پر اتر آتے ہیں، اخلاقیات کی دھجیاں اڑانا شروع کردیتے ہیں، اگر ان لوگوں کے سامنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت ہو تو کبھی ایسا نہ کریں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج مذہبی جماعتوں کے کارکنان بھی اخلاق نبوی کو بھلا چکے ہیں، حالانکہ ان کو تو اخلاق نبوی کی عمل تصویر بن کر دکھانا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ اخلاق نبوی سے نابلد ہیں، سیرت کا مطالعہ نہیں، جس کا نتیجہ بداخلاقی کی صورت میں نکلتا ہے، ان کو نہیں معلوم ہوتا ہے کن حالات میں کس کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں دیگر مسائل کے ساتھ عصبیت کا اژدھا بھی معاشرے کو ڈس رہا ہے۔ اچھے خاصے سنجیدہ لوگ بھی لسانی، صوبائی، نسلی اور مسلکی عصبیت کا شکار ہیں، حالانکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عصبیت کے بتوں کو توڑنے کے لیے آئے تھے۔ اگر سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطالعے کو عام کیا جائے تو بہت سے مسائل خود ہی دم توڑ جائیں گے۔

حکومت کو اس معاملے میں ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے۔ اس حوالے سے سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ شامل نصاب کرنا چاہیے، تاکہ شروع سے طلبا کو سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا مطالعہ کر کے یہ معلوم ہو کہ لوگوں کے ساتھ معاملات کیسے کیے جائیں، دوسروں کو تکلیف دینا کتنا بڑا جرم ہے، کسی بے گناہ انسان کی جان لینا کتنا بڑا جرم ہے، مختلف افکار، نظریات اور بود و باش کے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور انہیں برداشت کرنے سے متعلق سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم میں کیا رہنمائی موجود ہے؟ جب آپ کے دور میں مختلف مذاہب کے لوگ بغیر لڑائی جھگڑے کے ایک ساتھ زندگی گزار سکتے تھے تو آج مختلف مسالک و فرق اور مختلف نظریات کے لوگ ایک ساتھ باآسانی زندگی کیوں نہیں گزار سکتے؟ حکومت کو سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی کتب کو معاشرے میں زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی کتب مفت تقسیم کی جائیں، اس حوالے سے بک فئیر منعقد کیے جائیں، سیمینارز اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے۔ علمائے کرام کے زیر نگرانی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز کی سطح پر سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے عنوان پر تقریری اور تحریری مقابلے کروائے جائیں۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ معاشرے میں جتنا زیادہ سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو عام کیا جائے گا، اتنی ہی تیزی سے معاشرے میں سدھار آتا جائے گا، کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر ہر پہلو لوگوں کی زندگیاں بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.