پاکستان جس کیلیے کہا جاتا ہے کہ پاکستان تو اس وقت قایم
ہوگیا تھا جب برصغیر میں پہلا شحص مسلمان ہوا تھا پاکستان کو حاصل کرنے
کیلیے نوے سال کی طویل جدوجہد کی گی اور اس دوران تحریک میں کی نشیب و فراز
آے اور تحریک میں آہستہ آہستہ تیزی آتی چلی گی پاکستان کی واضح شکل خطبہ
آلہ آباد میں علامہ محمد اقبال نے پیش کردی تھی اور قرار داد لاہور کے بعد
پاکستان کے قیام کی کوششیں تیز کر دی گیں اور جب انیس سو پینتالیس چھیالیس
میں الیکشن ہوے تو مسلم لیگ نے زبر دست کامیابی حاصل کی اور اس کے بعد چودہ
اگست انیس سو سینتالیس کو پاکستان بڑی اسلامی ریاست کی شکل میں معرض وجود
میں آگیا اور جب پاکستان قایم ہوا. تو پہلے دن سے بھارت نے اسکے لیے روڑے
اٹکانے شروع کر دیے اور وسایل کی تقسیم میں انگریزوں سے ملکر بد دیانتی کی
اور بہت سے وسایل ہڑپ کرلیے مگر اسکے باوجود قاید اعظم کی عظیم قیادت میں
یہ کمی محسوس نہ ہوی اور پاکستان نے آگے بڑھنے کا سفر جاری رکھا اور آگے
بڑھتا رہا مگر قاید کی رحلت نے ایسا خلاء پیدا کیا جو آج تک پر نہ ہوسکا
اور قاید کی رحلت کے بعد لیاقت علیحاں کی شہادت نے بھی پاکستان کو ناقابل
تلافی نقصان پہچایا اور اسکے علاوہ پاکستان میں عام انتحابات کا نہ ہونا
اور آین کا نہ بننا بھی بہت بڑا مسلہ بنا رہا جس سے پاکستان کی صحیح سمت
متعین نہ ہوسکی اور پاکستان کو مستحکم حکومتیں نہ مل سکی اور انیس سو اکاون
سے انیس سو اٹھاون تک حکومتوں کے آنے جانے کی لاین لگی رہی جسکی وجہ سے
پاکستان میں غلط روایت کا آغاز ہوا اور پاکستان میں پہلا مارشل لاء لگا دیا
گیا جس کے بعد پاکستان کے پہلے آین کو منسو خ کردیا گیا اور جنرل ایوب خان
انیس سو باسٹھ میں ایک اور آین نافذ کیا جسے فردواحد کا آین کہا جانے لگا
اور اس میں فرد واحد کا پسندیدہ سیاسی سیٹ اپ نافذ کیا جسکی وجہ سے تحریک
پاکستان کی اہم کارکن اور قاید اعظم کی عظیم بہن محترمہ فاطمہ جناح کو شکست
دے دی گی اس دوران بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کردی اور پوری قوم نے
یک جان ہوکر اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور بھارت کو عبرت ناک شکست دی
جسکا بدلہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں بغاوت برپا کرکے لے لیا اور ایوب خان
نے اقتدار جنرل یحی خان کے سپرد کر دیا اور پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا اور اسکے
بعد کچھ عرصہ تک جمہوریت بحال جب انیس سو ستر کے انتحابات کے نتیجے میں
پیپلیز پارٹی نے اقتدار سنبھالا اور انس سو ستتر میں دوبارہ مارشل لاء لگا
دیا گیا اور جنرل ضیاء نے نوے دن کے اندر الیکشن کروانے کا وعدہ کیا مگر وہ
نوے دن گیارہ سال کے ہوگے اور اس دوران بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گی اور
انیس سو پچاسی میں محمد خان جو نیجو کو وزیراعظم بناکر دنیا کو دیکھادیا کہ
پاکستان مین جمہوریت بحال ہوچکی ہے مگر ا ختیارات کا منبع جنرل صاحب کی ذات
تھی اس دوران جنرل صاحب طیارہ حادثہ میں دنیا سے چلے گے اور غلام اسحاق خان
نے الیکشن کرواے اور جس کے نتیجے میں محترمہ بظیر بھٹو مسلم دنیا اور
پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی مگر انیس سو اٹھاسی سے انیس سو ننانوے
تک بجاے پاکستان کو ترقی دینے کے پاکستان کے پہلے عشرے والی روایت دہرای گی
اور اسکے بعد دوبارہ مارشل لاء لگاا دیا گیا جو پھر دس تک قایم رہا اور اس
دوران امریکہ میں دہشتگردی کا واقعہ ہوا جس کے بعد عراق و افغانستان پر جنگ
مسلط کر دی گی اور پاکستان میں خودکش دھماکوں کا آغاز ہوا جو تاحال جاری ہے
اور اس دوران محترمہ بے نظیر کو شہید کر دیاگیا اور دوہزار آٹھ میں الیکشن
ہوے جس کے بعد پی پی پی نے دوبارہ حکومت بنای مگر اس بار اقتدار بھٹو
خاندان سے باہر منتقل ہوا اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے اور انیس سو
تیرہ میں دوبارہ الیکشن ہوے اور میاں نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بنے
اور اب پاکستان میں جمہوریت میں اچھی روایات پنپ رہی. ہیں اور جمہوریت
مضبوط ہورہی ہے اور اب دو ہزار اٹھارہ میں دوبارہ الکیشن ہونے جارہے ہیں
دیکتھے ہیں کون اقتدار حاصل کرتا ہے اگر حکومتیں وقت پورا کرتیں تو آج
ہمارا وطن کہاں سے کہاں ہوتا اور اگر ہم صرف پاکستانی اور مسلمان بنتے تو
آج ہمارے وطن کا یہ حال نہ ہوتا اور آج دہشتگرد ی کا شکار نہ ہوتے اور آج
پاکستان آج ایٹنی طاقت کے ساتھ ساتھ معاشی طاقت بھی ہوتا اور ہمیں کسی سے
قرضہ لینے کی ضرورت بھی نہ پڑتی اور آج ہمارے وطن کی خیر ہی خیر ہوتی مگر
ان ستر سالوں میں آج تک سیاستدان دست و گریبان ہیں اور اسمبلی میں آج تک لڑ
رہے اور ادارے تباہی کے دھانے تک پہبچ چکے ہیں اور آج پی آی اے کا خسارہ
جاری ہے ریلوے کا خسارہ جاری اسٹیل مل کا خسارہ جاری سیاستدان صرف پروٹو
کول انجواے کرنے اتے ہیں کسی کو عوام کی فکر نہیں سب اپنا اپنا سوچتے ہیں
دراصل ہماری سیاسی جماعتوں کا کوی منشور نہیں منشور صرف رسمی ہوتا ہے اور
پاکستان میں سیاستدانوں کی من مانی کی وجہ پاکستان کی. عوام کی غربت اور نا
خواندگی ہے کوی ووٹر پارٹی کو منشور کو نہیں دیکھتا بلکہ اپنے مقامی
ذمیندار کو دیکھتا ہے اگر ووٹر ووٹ اپنے زمیندار کے خلاف دے تو اسکو اور
اسکے بچوں پر زمین تنگ کردی جاتی ہے اس لیے تو پاکستان میں خاندانی سیاست
چل رہی ہے اور اقتدار نسل در نسل منتقل ہورہا ہے اور جب تک عوام سیاستدانوں
کا محاسبہ نہیں کریں گے عوام یونہی مسایل کا شکار رہیں گے اور عوام کی خام
خیالی ہے کہ نوجودہ سیاستدان انکے مسایل حل کریں گے پاکستان کو قاید و
اقبال جیسے لیدروں کی دوبارہ ضرورت ہے جو پاکستان کو دوبارہ یکجا کرسکیں جو
پاکستان کو ترقی دے سکیں اب عوام کو بھی سوچنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کس نے
ان کے لیے کام کیا اور کس نے صرف وعدے کیے ہمارا ملک تو عظیم ہے مگر قیادت
اہل نہیں ہے پانچ پانچ سال کی حکومت کرنے کے بعد کوی تبدیلی نہ آے تو سمجھ
لیں حکومت اور وزراء اہل نہیں ہیں مگر جو بھی بحر حال یہ ہمارا وطن ہے کبھی
تو سیاستدانوں کے ضمیر جاگیں گے کبھی تو ان کو موت یاد آے گی کبھی تو وہ
اپنے سے باہر نکل کر سوچیں گے. اب یوم پاکستان کی امد آمد ہے. اب ہم سبنے
ملکر اس یوم پاکستان کی تقاریب میں حصہ لینا ہے اور پاک فوج کا حوصلہ
بڑھانا یے ہاکستان زندہ باد |