جمہوری ممالک میں انتخاب سب سے عظیم عمل ہے ،جمہوریت کی
حیات اس عمل پر منحصر ہے ،اگر اس میں خامی آجائے ،یا اس کا نظام سست روی کا
شکار ہوجائے تو جمہوریت کا سورج غروب ہو جاتا ہے ،آمریت اور ملوکیت کی خوف
ناک تاریکی عوام پر مسلط ہوجاتی ہے ،وہ اپنی منشاء اور مرضی کے مطابق اپنا
حاکم منتخب کرنے سے قاصر رہتے ہیں ،ان کے جذبات و احساسات کو مجروح کیا
جاتا ہے ،ان کے حقوق کا خیال نہیں کیا جاتا، ان کی آرزؤوں کو کچل دیا جاتا
ہے ،مفاد پرستی برسر اقتدار ہوتی ہے اور تاریخ کے صفحات کے چہرے سیاہ
ہوجاتے ہیں ،المناک اور تکلیف دہ مراحل سے انسانیت کا سابقہ پڑتا ہے ،اور
پھر وہی کھیل ہوتا ہے ،جس کا تصور بھی لرزہ براندام کرنے کے لئے کافی ہے،
جمہوریت سے قبل کے ادوار اور آمریت کی تاریخ کا مطالعہ اس دعوی کی پختہ
دلیل ہے ،اسی خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے جمہوری ممالک میں ایسے شعبہ کی
ضرورت پیش آتی ہے،جو جمہوری اقدار کی حفاظت کرے ،اور انتخاب کے عمل کو بے
ایمانی سے پاک و صاف رکھے ،عوام کا نقصان نہ ہونے دے ،ان کے استحصال پر
قدغن لگائے؛انہی تمام مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے ،ملک میں الیکشن کمیشن
نامی شعبہ کا قیام عمل آتا ہے ،یہی وہ مضبوط بنیاد ہے ،جس کے دم پر جمہوریت
کا قلعہ قائم رہتا ہے اور تیز رفتار ہوائیں اس کے وجود پر اثر انداز نہیں
ہوتیں،25 جنوری 1950 سے ہندوستان میں بھی یہ شعبہ اپنی خدمات انجام دے رہا
ہے اور جب انتخابات آتے ہیں ایسی تدابیر اور حکمت عملی سے کام لیتا ہے ،جو
ملک کے حق میں مفید اور جمہوریت کے لئے قوت بخشنے والی ہوں اور جمہوریت کو
توانا کردیتا ہے ،ہر انتخاب میں موثر رول ادا کرتا ہے ، انتہائی اہم اور
مفید ہدایات جاری کرتا ہے ،اسی طرح ہماری زندگی کا سب سے اہم شعبہ عدلیہ ہے
،اس کا کام بھی جمہوریت کی بقا ہے ،اس انتخاب میں بھی دونوں شعبوں نے اپنے
وجود کا احساس کرایا اور ایک ایسا فرمان جاری کیا ،کہ ہر جمہوریت پسند
سیکولر ایزم اور اور اتحاد و اتفاق سے محبت رکھنے والے شخص کی باچھیں کھل
گئیں اور وہ خوشی سے جھوم اٹھا ،اسے لگا فرقہ پرستی کوشکست ہوگئی ،اب ملک
کے بھولے بھالے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکے گا،عدلیہ نے واضح طور پر
اعلان کردیا تھا ،مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی
جائے گی، الیکشن کمیشن نے اس فیصلہ کا استقبال ہی نہیں کیا ،بلکہ خوش آئند
قرار دیا تھا اور پوری طرح اس پر عمل پیرا ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی
،دل و دماغ پر ترقی ہونے کے خیالات سوار تھے ،اور سیاسی جماعتوں سے ترقی کے
وعدوں کی سماعتیں منتظر تھیں ،مگر جوں جوں انتخاب قریب آتے جارہے ہیں ،کچھ
ایسے بول بھی سماعتوں سے ٹکرارہے ہیں ،جو انتہائی نا مناسب جمہوریت شکن اور
اس فیصلہ کے سراسر خلاف ہیں ،چند مفاد پرست لیڈروں نے اپنی سابقہ روش کو
برقرار رکھا ہے اور ان کی زبانوں نے وہی زہریلے الفاظ اگلے ہیں ،اور ملک کی
سب سے بڑی اقلیت کو نشانہ بنایا ہے ،اپنے ووٹ بینک کو محفوظ کرنے کی کوشش
کی ہے ،اور غیر مسلموں کو ترقی کے حسین خواب دکھانے کی جگہ مسلمانوں سے
نفرت کا زہر ان کو پلانے کوشش کی ہے ،اس کی ابتدا یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے
بھونڈے الفاظ میں کردی تھی ،مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کیا ،ان
کی توہین کی ،ان کی انا کوٹھیس پہونچائی ،اور ان کے صبر کا امتحان لیا
،بدکلامی و بدزبانی کی حدیں پار کردیں ،بی جے پی نے اس بیان کو پارٹی کا
موقف ماننے سے انکار کیا اور چور راستہ سے نکل کر جماعت نے اپنی جان بچائی
،کوئی خاص کاروائی یوگی کے خلاف نہیں کی گئی ،جس نے دوسرے لیڈروں کے حوصلے
بلند کردئے ،ایسے عالم میں جب کہ بی جے پی سے متعلق ہر فرد جانتا ہے ،ان کے
ترقی نامی غبارے کی ہوا نکل چکی ہے،نوٹ بندی اس بلبلے کے لئے سورج کی کرن
ثابت ہوئی،اور اس کے چمکنے کا شوق ہی اس کے جان لیوا ثابت ہوگیا ،اب اس راہ
سے منزل مقصود کا حصول بہت مشکل ہے اور یوگی کا سوجھایا راستہ انتہائی آسان
ہے ،پارٹی نے پالاین مدعا کو انتخابی منشور میں ذکر کرکے اس دعوے کو پختہ
کر دیا ،چوںکہ یہ ایسا ہتھیار ہے ،جو عقلوں پر پردہ ڈال دیتا ہے ،سوچ و فکر
کے پہیے کو روک دیتا ہے ،ترقی و تنزلی فائدہ و نقصان کے خیالات کو ہوا کر
دیتا ہے اور انسان کو ان الفاظ کا دیوانہ بنا دیتا ہے ،گو کہ یہ ایک جادو
ہے، جو سر چڑھ کر بولتا ہے ،اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بی جے پی لیڈران
اپنی سابقہ روایات پر عمل پیرا ہوگئے ،اور کیشو پرساد نے رام مندر کا راگ
الاپا اور جیت کے بعد مندر بنانے کا دعویٰ کیا۔1992 میں عدلیہ کا خون کر
چکے مطلب پرست افراد کا من موہنے کی کوشش کی اور لطیفہ یہ بھی کہ یہ ہمارا
انتخابی مددعا نہیں ہے ،پھر اس وقت ان الفاظ کے کیا معنی ہیں ،کیا یہ مذہبی
عقیدت کا استعمال کرنا نہیں ہے ،کیا یہ مندر و مسجد کے نام پر ووٹ مانگنا
نہیں ہے ؟جواب ہر ذی شعور جانتا ہے ،اور اس کا رد عمل بھی سب کے علم میں ہے
،اس بیان نے دوسرے مفاد پرست لیڈروں کے حوصلے بلند کئے اور سنگیت سوم نے
متنازع ویڈیو کے ذریعہ اپنا ”پرچار”کرنا شروع کیا ،سب بڑی بات تو سنگیت سوم
جیسے لیڈر کو بی جے پی کا انتخاب میں اتارنا اس کی سوچ و فکر اور حکمت عملی
کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے ،اگر چہ بعد میں وہ ویڈیو ضبط کر لیا گیا،
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے ،کیا سنگیت سوم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے؟ کیا
اس جرم کی یہ سزا کافی ہے ؟کیا الیکشن کمیشن کا بس یہی رول ہے ؟کیا اس کی
طاقت یہی ہے ؟کیا یہ کاروائی اس کے مقصد کی تکمیل کرتی ہے ؟ذرا غور کیجئے
،اس حرکت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے ،اور سریش رعنا نے ایسے الفاظ کہے
،جو تفریق و انتشار کے لئے جڑ کا کام انجام دے سکتے ہیں اور ریاست میں
افتراق و انتشار کا تناور درخت اگا سکتے ہیں ،جو ریاست کے ماحول اس کی فضا
انتخاب کا رنگ سب کچھ بگاڑ سکتا ہے ،اس نے کہا ہے ،کہ اگر میں فتحیاب ہوا
تو مظفرنگر، سہارنپور اور مرادآباد میں کرفیو نافذ کردوںگا ،اس جملہ سے کس
طرح مذہبی جذبات پر چوٹ کی گئی ہے،اور عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی
ہے، یہ سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں ہے ،ان بیانات کو مد نظر رکھتے ہوئے
بلاتامل کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی اپنے سابقہ انداز میں پوری طرح جلوہ گر
ہے مگر سوال الیکشن کمیشن سے ہے ،ان مذہب و ذات تعصب و عناد کا کھیل کھیلنے
والوں کی سزا کیا ہے ،ان کے خلاف کون سا عمل کیا گیا ؟قانون توڑنے کا کیا
جرمانہ ہے؟ان حرکتوں کے بعد بھی اگر یہ لوگ انتخاب میں حصہ لیں گے ،تو مذہب
کے نام پر انتخاب لڑنے والوں کو کیسے روکا جاسکے گا ؟کیا یہ مستقبل میں ملک
کے لئے خطرہ کا باعث نہیں ہوگا ؟کیا صرف نوٹس بھیجنا کافی ہے ؟جس پر اگلے
انتخاب تک بھی سزا متعین نہیں ہوگی ،کیا یہ طریقہ کار الیکشن کمیشن اور
عدلیہ کے وقار کو مجروح کرے گا یا نہیں ؟کیا اس انتخاب کی شفافیت پر اس طرح
کی بیان بازی اثر انداز نہیں ہوگی ؟ان سوالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے الیکشن
کمیشن کو سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ،ورنہ ریاست پر مشکل حالات کا خطرہ
منڈرہ سکتا ہے ،اور انتخابی عمل کی حیثیت مجروح ہو سکتی ہے، جو جمہوری نظام
کے لئے بہت خطرناک مرحلہ ہوگا۔ |