چند روز پہلے ایک خبر شائع ہوئی کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع
فنڈز کے پیسے رائیونڈ اور وزیراعلیٰ ہاؤس کی تزئین پر لگائے جا رہے ہیں۔ یہ
خبر جنوبی پنجاب کے ’واسیوں‘ کے لیے تو بہت ہی تکلیف دہ تھی۔ شاید اس کے رد
عمل کے طور پر کافی لوگوں نے اپنا غصہ سوشل میڈیا کے ذریعے نکالا کہ ایسا
’سرائیکی وسیب‘ کے ساتھ کیوں کیا جارہا ہے۔
خاکسار نے اس خبر کو پڑھتے ہی اپنی ’ارداس‘ فیس بک پر ڈالی تو تو ایک سینئر
صحافی جو اس وقت بیوروکریسی کا بھی حصہ ہیں انہوں نے حکم دیا کہ’سندھ اتنا
دور تو نہیں ہے تم جنوبی پنجاب والے سندھ چلے جاؤ‘۔ یہ الفاظ کسی عام
پنجابی کے نہیں تھے اور نہ ہی کسی قوم پرست بندے کے تھے بلکہ یہ الفاظ ایک
پڑھے لکھے صحافی کے تھے۔ سندھ تو ہم نہیں جا سکتے کیونکہ اتنی بڑی تعداد
اور صوبہ بھر کی اکثریت ایک چھوٹے سے صوبے میں کیسے جا سکے گی اگر آپ کو
یاد ہو تو ہم تو کب سے نکلنے کا کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پنجاب سے نکال کر
ہمارا صوبہ دیا جائے نہ اس میں کسی کو مسئلہ پیش بھی نہیں آئے گا اور ہر
کوئی اپنی اپنی مسند پر جما رہے گا۔
ایسے احکامات صادر کرنے سے پہلے اگر غیرجانبداری اور ایمانداری سے آپ ہمیں
نکال دیں تو ہم پھر بھی مشکور ہوں گے۔سرائیکی وسیب کے ساتھ یہ کام شروع سے
ہی جاری ہے لیکن یہاں کشمیر کے نام پر تو جذباتی ہو لیا جاتا ہے، بلوچستان
کے لوگوں کی محرومیوں کا ذکر تو کیا جاتا ہے لیکن صوبے کی اکثریتی آبادی
کو ہمیشہ نظر انداز کرنا، حق مانگنے پر ہجرت کا حکم دینا یا لسانیت پرست
کہنا کہاں کا اصول ہے۔
میں نا شکری نہیں کرنا چاہ رہا اور نہ ہی میرا مقصد لسانیت اور قوم پرستی
ہے بلکہ میں تو لسانیت کے خلاف ہوں۔ ہم تو خود کو پاکستانی اور پنجابی
سمجھتے ہیں لیکن اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں کہ ہمیں پنجابی نہیں سمجھا
گیا بلکہ جانگلی اور غلام سمجھا جاتا رہا ہے۔
سابقہ ادوار پر اگر نظر ثانی کی جائے تو سرائیکی وسیب کے ساتھ حقیقتاً
سوتیلی ماں والا سلوک کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی ویسے ہی جاری ہے۔ اس میں
سب سے بڑا قصور تو وسیب کے منتخب نمائندگان کا ہے جو الیکشن میں ووٹ لینے
کے بعد رفو چکر ہوجاتے ہیں جو بعض اوقات ٹی وی سکرینوں پر فرشتوں کی طرح
نظر آتے ہیں۔ جہاں ان نمائندگان کو دیکھ کر رشک ہوتا ہے کہ یہ ہمارے علاقے
کے ممبران ہیں تو انہیں دیکھ کر باشعور انسانوں کا خون بھی کھولتا ہے۔
کیونکہ یہ جاگیردار طبقہ اپنے علاقے کے غریب باسیوں کو آج بھی غلام سمجھتا
ہے جیسا ان کے آباء نے انگریزوں کی غلامی حاصل کر کے جاگیر داری کے حقدار
ٹھہرے۔ جنوبی پنجاب کے عام لوگ اب بھی جاگیرداروں، مخدوموں، وڈیروں،
سرداروں کی نظر میں ایک گھٹیا قسم کے غلام سمجھے جاتے ہیں اگر یقین نہ ہو
تو ان کے ڈیروں کا وزٹ کر کے دیکھ لیں۔
پنجاب حکومت جو ہر دور میں کروڑوں اربوں روپے کے پُل لاہور شہر میں تو بنا
لیتی ہے لیکن جنوبی پنجاب میں چند لاکھ روپیوں میں سکول تک تعمیر نہیں کر
سکتی۔ پنجاب حکومت ہر سال بجٹ میں جنوبی پنجاب کا بجٹ مختص کردیتی ہے لیکن
اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ جو فنڈز اور معاوضے
ہمارے ممبران کو دیے جاتے ہیں تو وہ بھی لاہور اور اسلامآباد میں خرچ ہو
جاتے ہیں۔ آج بھی ملتان سے آگے نکلیں تو انسانوں کے چہروں پر نکلی ہڈیاں
اور ترستی آنکھیں خود غلامی بیان کر رہی ہوتی ہیں۔ آج بھی ڈیرہ غازی خان
اور راجن پور کے کئی علاقوں میں انسان اور جانور ایک ساتھ پانی پیتے ہیں۔
سڑکیں اور سکول نہ ہونے کے برابر ہیں جو بیس تیس سال پہلے بنائے گئے تھے
وہی قائم ہیں۔
عرض یہ کہ سرائیکی وسیب کے باسیوں نے کبھی لاہور نہیں مانگا اور نہ ہی
لاہور کا حصہ مانگا ہے صرف حق مانگا ہے جو لاہور پر خرچ کیا جاتا رہا ہے۔
جنوبی پنجاب کا حق نہیں دیا جا سکتا تو صوبہ الگ کر دی جائے۔ حکومت کو
چاہیئے کہ جنوبی پنجاب کو بلوچستان نہ بنایا جائے اور سندھ جانے کا مشورہ
بھی نہ دیا جائے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ انتظامی بنیادوں پر ایک الگ صوبہ
بنا دیا جائے تاکہ کسی کو گلے شکوے کرنے کا موقع ہی نہ ملے اورعلیحدہ یونٹ
سے ملکی معیشت میں بھی اضافہ کیا جا سکے۔ |