آج پندرہ برس ہو گئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کل ہی کی بات
ہے۔قصور صرف یہ تھا کہ ایک جابر آمر کا ٹوڈی سفیر جو ایک ریٹائرڈ جرنیل تھا
اس نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفا داری کی۔سعودی عرب میں مقیم سابق وزیر اعظم
کے ساتھیوں کو گرفتار کیا۔اس نے پاکستانیوں کی آواز دبانے کی کوشش کی ۔پاکستانیوں
سے جڑے معاملات پر شٹ اپ کال دی جس کا منہ توڑ جواب دیا خبریں میں
پاکستانیوں کی گرفتاری پر چیخا چلایا۔وہ کر ہی کیا سکتا تھا اس نے مجھے
میرے دفتر سے اٹھوا لیا۔آج ہی کے دن مجھے جدہ کے ڈیپورٹیشن سنٹر میں منتقل
کیا گیا۔خدا گواہ ہے جب ایجینسیوں نے تفتیش کی اور الزام یہ تھا کہ تم
سیاست کرتے ہو نواز شریف کے ساتھی ہوتو تنک کے جواب دیا پہلے نہیں تھا اب
ہوں۔۷۱ دن تک عارضی جیل میں رہا۔اور پاکستان پہنچا فیملی نے وہ عرصہ بڑی
دلیری سے گزارا۔زوجہ کے والد بھی انہی دنوں اس جہاں سے گئے مگر انہوں نے
پاکستان جانے سے انکار کیا۔میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے لیکن اﷲ نے بے
پناہ ہمت دی۔پاکستان آیا ماں اسی صدمے سے دنیا سے چلی گئیں۔ایک نئی زندگی
کا آغاز اسی مشرف کو سڑک پر آ کر گرایا عدلیہ کی موومنٹ میں بھر پور حصہ
لیا اور وہ بزدل چوہا جس کا نام جنرل اسد درانی ہے اسے پورے پاکستان کے
سامنے ننگا کیا۔یہ ہوتے ہیں آمر جو کرسی پر بیٹھتے ہیں تو رعونت ان کی رگ
رگ سے ٹپکتی ہے۔چوہا اور بزدل جس میں محفل میں ہوتا ہوں مجھے دیکھ کربھاگ
جاتا ہے۔یہ فوج کی فیکٹری بھی کیا فیکٹری ہے جو ایک جانب جنرل حمید گل جیسے
ہیرے پیدا کرتی ہے اور جنرل راحیل جیسے سپتراور دوسری جانب جنرل اسد درانی
جیسے لوگ۔
کوئی مارشل لاء کی بات کرتا ہے تو جی چاہتا ہے اس کا منہ نوچ لوں۔ دوسرا رخ
یہ ہے کہ دلیر ایسا کہ کوئی فوج کو گالی دے تو اس کی چھترول کئے دیتا
ہوں۔قاری شکیل مرحوم ،ارشد خان مرحوم ،ڈاکٹر قسیم نعیم بٹ آفتاب مرزا خواجہ
امجد ،عظمت نیازی وسیم صدیقی اور میرے دیگر بھائیو وقت وہ بھی نہیں رہا اور
یہ بھی نہیں رہے گا البتہ یہ ضرور ہوا جو نواز شریف مظلوم تھا وہ اب
اقتتدار میں ہے اور جو ظالم آمر تھا وہ چوہے کی طرح بھاگ کر دبئی جا بیٹھا
ہے۔ بد قسمتی دیکھئے پاکستان دائرے کے سفر میں ہے ۔بس ایک رہے گا نام اﷲ کا
جو سدا بادشاہ ہے۔اب تو سب کچھ ہے میں ۲۰۰۹ میں اسی شہر میں آن بان سے گیا
چار سال دنیا کی بہترین کمپنیوں میں ذمہ داری انجام دی۔عمرے کئے حج کئے
میرے وہ بچے جو گاڑیوں کی چھتوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوئے
بہترین جگہوں پر سیٹ ہو گئے۔بس ایک ماں نہیں ہے جو رل کے مر گئی۔لوگ
جمہوریت کے لئے قربانیاں دیتے ہیں میں نے ماں نچھاور کی۔بس آج آپ سے یہی
مانگتا ہوں کہ اس ماں کے لئے دعا کر دیں۔آج ہی کے دن خاکساروں پر گولیاں
چلیں تھیں آج ہی کے خاکسار اجڑا تھا ۔۱۹ مارچ مجھے یاد رہے گا-
دوستو! ظالم تو یہ لوگ بھی کم نہیں لیکن میں آپ کو بتا دوں اﷲ تعالی فوجی
آمریت سے اس ملک کو بچائے۔
اپنی فوج پیاری فوج ہے یہ دشمنوں سے لڑتی اچھی لگتی ہے اگر اقتتدار میں آ
جائے تو سب کو دشمن ہی سمجھتی ہے۔مر جانا مٹ جانا کبھی فوج کا اقتتدار نہ
مانگنا۔۲۳ مارچ آنے کو ہے رنگ برنگے لوگوں کے سینوں پر تمغے سجے گیں لیکن
سچ تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو جمہوریت کے لئے حبس زدہ جیلوں میں رل گئے اگر
انہیں یاد نہیں کیا جاتا تو یہ تاریخ کی سب سے بڑی زیادتی ہو گی۔مجھے نہ
دیجئے مگر عظمت نیازی کو دیں جس نے سب سے زیادہ زر مبادلہ بھیجا اور جیل
گیا باپ صدمے سے گیا خواجہ امجد کو دیں جس کی فیکٹری ظالم سعودی کھا گئے
وسیم صدیقی کو دیجئے جس کی بہترین نوکری گئی اور وہ در بدر ہو گیا اور اس
کا نامور باپ حامد صدیقی اس صدمے سے مرا۔نعیم بٹ عزیزیہ سٹیل مل کا ملازم
شہباز دین بٹ۔ اعجاز الحق ،روء ف طاہر ڈاکٹر سعید الہی،عرفان صدیقی،عطاء
الحق قاسمی آپ تو ان لوگوں کی قربانیوں کے گواہ ہو آپ کیوں خاموش ہو؟میری
خیر ہے میں تو انصافیا ہو گیا جو آپ کے ساتھ جڑے ہیں ان پر تو ہاتھ رکھو۔
|