اس ملک کا سب سے بڑے المیہ یہ ٹھہرا کہ ان کے مسائل کے حل
کے لئے بہتر رہنما کون ہے جو ان کے زخمو ں پر مرہم رکھے بد قسمتی سے پیشہ
ور رہنما جب بھی جلسے کرتے ہیں تو وہ عمومی طور پراپنے منشور میں سبز با غ
دکھاتے ہیں اور عوام کی اکثریت ان کے خوشنما منشور اور وعدوں پرمنو عان
اعتماد کرتے ہیں کہ یہی ہمارامنصف اور مسیح ہے بے بس عوام کو اب تک یہ نہ
پتا چل سکا کہ ان کے لئے اچھا لیڈر کون ہے جو اس ملک کو چلانے کی صلاحیت
رکھتا ہے عوام کو جو بھی جلسے کرنے والے، نعرے لگانے والے اورطفل تسلیاں
دینے والے نظر آتے ہیں عوام ان کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں اورٹھان لیتے ہیں کہ
ہمارا لیڈر یہی ہے اور جب الیکشن کا دورآتا ہے تو عوام اپنے ووٹ سے خود
اپنے لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہ کرنے کے
بعد میں ایک دوسرے کو کوسنے میں اپنا وقت برباد کرتے رہتے ہیں ، یہ بات
عوام ایک دوسرے کو لعن تعن کا نشانہ بناتے ہیں کہ ’تم نے ووٹ کا صحیح
استعمال نہیں کیا ‘ اب ووٹ دیا ہے تو بھگتو ‘ ووٹ دے کر غلط لیڈر کا انتخاب
کر لیا گیا ہے ‘ عجیب سے طعنوں میں ایک دوسرے کو گھسیٹا جا تا ہے ، جس دن
عوام میں یہ شعور بیدار ہو گیا کہ انہوں نے اپنے ووٹ سے جس لیڈر کا انتخاب
کر لیا ہے وہ ملک و قوم کے لئے بہتر ہے اور ملک کو احسن طریقے سے چلا سکے
گا اور ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری ، کرپشن ، لوٹ مار ، جرائم اور غربت
کے خاتمے کو یقینی بنائے گا ۔ معذرت کے ساتھ جب عوام کسی ایسے شخص کی باتوں
میں آ کر جو ابھی اقتدا ر کی سیٹ سنبھالنے کے قابل نہیں اور خود فیصلہ نہ
کرنے کی اہلیت رکھنے والے لیڈر کے پیچھے بھانگیں گے اور جلسے ، جلوسوں میں
شامل ہو گی تو ملک تو ڈوبے گا ملک نہ صرف ڈوبے گا بلکہ عوام الناس کا بھی
بیڑہ غرق ہو گا عمران خان اگر ، الزامات کی سیاست چھوڑ کر ملک کا بھلا
سوچیں تو اس ملک کو ڈوبنے سے بچایا جا سکتا ہے طرح طرح کے پروپگنڈے کرنے سے
اور آپسی اختلافات بڑھانے سے صرف ملک کو نقصان نہیں ہو گا بلکہ عوام بھی اس
سیاسی جنگ میں پس کر رہ جائے گی اگر ماضی کے حوالے سے دیکھا جا ئے تو پچھلے
انتخابات سے قبل لاہور غا لب مارکیٹ میں عوام پرجوش عمران خان کے جلسے کے
لئے ان کے استقبال کرنے آئی تھی جوں ہی عمران خان جلسہ گاہ پہنچے عوام نے
بھر پور جوش و جذبہ دکھاتے ہوئے ان کا ستقبال کیا اور پاکستان تحریک انصاف
کے جھنڈے لہراتے ہو ئے خوب نعرہ بازی اور جس سٹیج پر عمران خان نے الیکشن
مہم کا خطاب عوام سے کرنا تھا وہ خاصہ اونچا تھا انہیں لفٹ پر وہاں تک
پہنچنا تھا جوں ہی وہ سٹیج پر پہنچنے کے لئے لفٹ پر چڑھے بیلنس خراب ہو نے
کی وجہ سے وہ لفٹر سے نیچے گرے اور انہیں سر کے پچھلے حصہ پر چوٹ لگی جس سے
ان کا خون بھی بہنا شروع ہو گیا اور انہیں طبی امداد دیتے ہو ئے فوراََ
شوکت خاتم ہسپتال پہنچا دیا گیا جوں ہی اس بات کا علم وزیر اعظم میاں نواز
شریف کو ہوا وہ فوراََ اپنی مصروفیات کو ترک کر کے عمران خان کی عیادت کو
ہسپتال پہنچے اور ایک اچھا سیاسی رہنما ہونے کا ثبوت دیتے ہو ئے سب
اختلافات کو بھلا دیا اور ان کی عیادت کی عمران خان نے بھی اس وقت سب
اختلافات کو بھلا دیا اور ملک و قوم کی بہتری کا سوچنے پر عمران خان اور
میاں نواز شریف نے سر جوڑ لئے مگر افسوس کی بات جنرل الیکشن کے فوری بعد
عمران خان کو نا جانے کیا سو جی کے ان کے دل میں دوبارہ سے وہی روایتی خلش
ابرنے لگی اور جلسے جلسوں کا لا محدود سلسلہ شروع ہو گیا جو ختم ہونے میں
نہیں آ رہا ،جس کے باعث ملک کو نقصان پہنچا ہے موجودہ حالات کے تناظر میں
دیکھا جا ئے تویہ ہمارے لئے سوالیہ نشان ہے کہ عمران خان آخر اس پرانی روش
کو کب ترک کریں گے کیا یہ ملک کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں یا ملک و قوم کی
ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں چھوٹی چھوٹی بات پر دھمکی دینا ان کا
معمول ٹھہراکہ سڑکوں پر نکل آئیں گے عوام کو گمراہ کرنا یہ لمحہ فکریہ بن
چکا ہے جلسے کرنا دھرنا دینا یہ صرف اور صرف قوم کا وقت ضائع کرنے کے
مترادف ہے عمران خان اگر کورٹ کچہری میں اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے اور
الزامات لگانے ، جلسے اور دھرنے دینے کی بجائے میاں نواز شریف کو ملکی
حالات اور عوام کے مسائل سے آگاہ کرتے رہے تو ہی عوام جان سکے گی کہ عمران
خان ایک اچھے لیڈر ہیں اورملک کے مسیحا بن سکتے ہیں گزشتہ دنوں وفاقی وزیر
چوہدری نثار نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد لگنے کے باعث سوشل
میڈیا کو بند کر دیاجا ئے گا مگر جوں ہی اگلے روز اخبارات ، ٹی و ی چینلز
پر عمران خان کا بیان سننے اور پڑھنے میں آیا کہ اگر سوشل میڈیا کو بند کیا
گیا تو سڑکوں پر نکل آئیں گے اور دل کو ایک دھجکا سا لگا پھر سوچ اس طرف
راغب ہو ئی کہ شاید سوشل میڈیا بند کرنے سے ان کے ایڈورٹائز منٹ میں خا صی
کمی آئے گی تو دل کو حو صلہ مل گیا ۔ قصہ مختصر اب عوام کو چاہئے کہ اگر
نواز شریف کو اپنا رہنما بنانا ہے تو ان پر مکمل اعتماد کرنا ہو گا اور
انہیں یہ تجزیہ بھی احذ کرنا ہو گا کہ ماضی میں حالات کیا تھے اور میاں
برادران کی موجودہ حکومت نے ملکی حالات کس نہج پر ہیں ہمارے لئے سب سے بڑا
علمیہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو پانامہ کیس میں پھنسا کر ان کا ٹائم ضائع
کیا جا رہا ہے تاکہ وہ ملکی حالات کو بہتر کرنے کے لئے ٹائم نہ دے سکیں اس
وقت میاں نواز شریف نہ صرف اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں بلکہ وہ اپنے
خاندان کی جنگ لڑنے کے لئے قانونی محاظ پر بر سر پیکار ہیں وہ ایک رحم دل
انسان ہیں اور جو شخص رحم دل ہو گا وہی ملک کا ایک اچھا لیڈر بن سکتا ہے ۔
محترم قارئین اس تحریر کا مقصد کسی کی ٹانگیں کھنچنا نہیں بلکہ عوام میں
شعور آگہی پیدا کرنا ہے کیا کروں میں بھی اس ملک کا ایک باشندہ ہوں اور یہ
نام صد حالات دیکھ کر اندر ہی اندر کڑہتا رہتا ہوں۔
’’جو دیکھتا ہوں وہی لکھنے کا عادی ہوں ۔۔۔۔میں اپنے شہر کا سب سے بڑا
فسادی ہوں ‘‘ |