آج 23 مارچ کا دن ہے جسے نہ صرف قیام پاکستان کے لیئے1940
میں پیش کی گئی قراردادا پاکستان کے حوالے سے تاریخی اور سیاسی اہمیت حاصل
ہے بلکہ پاکستانی سیاست میں ایک نئے ،ولولے ،جذبے اور پہچان کے ساتھ از
سرنو قدم رکھنے والے قابل ،فعال اور دلیر سیاسی رہنما مصطفی کمال کی قائم
کردہ نئی سیاسی جماعت ’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کے حوالے سے بھی ایک یادگار
دن ہے کہ آج سے ٹھیک ایک سال قبل 23 مارچ 2016 کومصطفی کمال نے اپنی نئی
سیاسی جماعت کو’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کا نام دے کر اس کے باقاعدہ قیام کا
اعلان کیا تھا جس کی مناسبت سے آج ملک بھر میں پاک سرزمین پارٹی کا پہلا
ـ’’ یوم تاسیس ‘‘منایا جارہا ہے۔ کسی بھی کام کو انجام دینے کے لیئے درست
وقت اور تاریخ کا انتخاب نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ درست وقت پر درست
اور انقلابی فیصلے کرنے والے لوگ ہی وہ کچھ کر جاتے ہیں جس کے بارے میں
سوچتے ہوئے بھی اکثر لوگ گھبرا کر اپنا راستہ بدل لیتے ہیں،ماضی میں قیام
پاکستان کے حوالے سے قائداعظم محمدعلی جناح اور موجودہ دور سیاست میں مصطفی
کمال کا اپنے موقف پر ثابت قدمی سے قائم رہنا اور اپنے جائز مقاصد کے لیئے
مسلسل جدوجہد کرکے سیاسی اور عملی مقبولیت اور کامیابی حاصل کرنا اس بات کو
ثابت کرتا ہے کہ ملک وقوم کے حوالے سے ارادے نیک اور نیت ٹھیک ہواور قائد
اپنے ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہو تواسے کامیابی حاصل کرنے سے دنیا کی
کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔
قیام پاکستان کے سلسلے میں23 مارچ1940 کو لاہور میں مینار پاکستان کے
تاریخی مقام پر ’’قرارداد مقاصد‘‘ کے نام سے مسلمانوں کے لیئے ایک علیحدہ
وطن کے قیام کے لیئے جو اہم نکات پیش کیئے گئے وہ پاکستان کی بنیاد رکھنے
کی پہلی سنجیدہ کوشش تھی جس کی بنا پر آخر کار برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی
اور دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک پاکستان کا اضافہ ہوا۔اس قرارداد مقاصد کو
آگے چل کر’’ قرارداد پاکستان‘‘ کے نام سے مسلمانان ہند میں بے پناہ مقبولیت
اور پذیرائی حاصل ہوئی اور آج بھی 23 مارچ کو ہر سال پاکستان میں ’ ’ یوم
پاکستان ‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ 23 مارچ کا دن پاکستان
کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اسی تناظر میں یہ بات نہایت خوش
آئند ہے کہ صرف دو افراد مصطفی کمال اور انیس قائم خانی سے شروع ہونے والی
نئی سیاسی جماعت’’ پاک سرزمین پارٹی‘‘ نے برق رفتار سیاست کی منفرد مثال
قائم کرتے ہوئے صرف ایک سال کے عرصہ میں وہ مقبولیت حاصل کرلی ہے جس کو
پانے کے لیئے ماضی میں کئی سیاست دانوں کی کوششیں بارآور نہ ہوسکیں لیکن
مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے جذبے اور خلوص کی سچائی نے انہیں ایک سال
میں لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنادیا ہے کہ ان دونوں کی پاکستانیت سے بھرپور
دلیرانہ اور ولولہ انگیزطرز سیاست نے نہ صرف اردو بولنے والوں کوبلکہ
پاکستان کے تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف زبانیں بولنے والے افرادکو
اپنی جناب متوجہ کیا جس کے بعد کراچی کے تاریخ میں پہلی بار ایک اردو بولنے
والے لیڈر مصطفی کمال کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں زبردست پذیرائی حاصل
ہوئی ورنہ ااس سے قبل اردو بولنے والے ہر سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعت کا
ووٹ بینک صرف کراچی ،حیدرآباد اور میرپورخاص تک ہی محدود رہا لیکن یہ مصطفی
کمال ،انیس قائم خانی اور ان کے ساتھ ابتدامیں شامل ہونے والی دیگر نامور
سیاسی شخصیات جن میں رضا ہارون،انیس ایڈوکیٹ،وسیم آفتاب اور افتخار عالم
وغیرہ شامل تھے کے قول وفعل اور کردار کی سچائی تھی کہ’’ لوگ ملتے گئے اور
قافلہ بنتا گیا ‘‘ کے مصداق ان مذکورہ سیاست دانوں کو بہت جلد عوامی سطح پر
کراچی سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں زبردست پذیرائی حاصل ہوگئی جس کے
بعد مصطفی کمال کی قیادت میں ان سب نے اپنی ایک علیحدہ سیاسی جماعت ’’ پاک
سرزمین پارٹی ‘‘ کے نام سے قائم کرنے کا اعلان کردیا جس کی سب سے خاص بات
یہ تھی کہ اس نئی سیاسی جماعت کے قیام اور اس جماعت کے نام کے اعلان کے
لیئے جس تاریخ کا انتخاب کیا گیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کے لحاظ سے بڑی
اہمیت کی حامل رہی ہے ،جی ہاں ! مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے 23
مارچ2016 کو اپنی نئی سیاسی جماعت’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کے نام سے قائم
کرنے کا اعلان کیا جسے کراچی سمیت ملک بھر میں اچھی نگاہوں سے دیکھا گیا کہ
کراچی سے تعلق رکھنے والے کسی اردو بولنے والے سیاسی لیڈر کی جانب سے
پاکستانیت کے جذبے سے سر شار ہوکر وفاقی سیاست میں قدم رکھنے کاایک طویل
عرصہ بعد یہ پہلا موقع تھاکیونکہ ’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کے قیام سے قبل
کراچی لسانی سیاست میں اس بری طرح جکڑا ہوا تھا کہ عمران خان جیسے ہمت نہ
ہارنے والے سیاست دان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اپنی بھر پور کوششوں کے
باوجود کراچی میں ایم کیو ایم کے زور کو توڑنے میں وہ کامیابی حاصل نہ
کرسکی جس کی توقع خود عمران خان اور ان کی جماعت کو پسند کرنے والے ووٹرز
کو تھی لیکن اﷲ تعالیٰ نے ایم کیو ایم کی دہشت گردی ،بھتہ خوری ،بدمعاشی ،قتل
وغارت گری اور فرعونیت کو ختم کرنے کے لیئے خود ایم کیو ایم کے ہی ایک بہت
قابل ،فعال اور مقبول رہنما مصطفی کمال کو چناجس نے انیس قائم خانی کے
ہمراہ کراچی آکر ایم کیوا یم کے قائد الطاف حسین اور ان کی قائم کردہ لسانی
سیاسی پارٹی ایم کیو ایم سے ببانگ دہل علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایک
دھواں دار پریس کانفرنس کے ذریعے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا سار
اکچاچٹھا عوام کے سامنے کھول کررکھ دیاجس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی
سیاست کے کئی شرمناک خفیہ گوشے پہلی بار منظر عام پر آئے اور یہ سب باتیں
کرنے والا کسی اور پارٹی کا لیڈر نہیں بلکہ ایک طویل عرصہ تک ایم کیو ایم
میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے والا باصلاحیت ،فعال اور مقبول سیاسی
رہنما مصطفی کمال کررہا تھا جس کی کہی گئی باتوں کو بہت سنجیدگی کے ساتھ
سنا اور سمجھا گیا یہی وجہ ہے کہ کراچی کی سیاست میں کئی عشروں سے لسانی
سیات کرکے بلاشرکت غیرے اقتدار کے مزے لوٹنے والی ایم کیو ایم کا صرف ایک
سال کے اندر وہ حشر نشر ہوا کہ اس سے قبل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید
ہی کسی اور سیاسی پارٹی کا ایسا عبرتناک انجام ہوا ہو۔
پاک سرزمین پارٹی کے قیام کے لیئے 23 مارچ کی تاریخ منتخب کرنے اور اپنی اس
نئی سیاسی جماعت کا نام پاکستان کے قومی ترانے کے پہلے مصرعے ’’ پاک سرزمین
شاد باد‘‘ سے مستعار لے کر رکھنے سے ہی مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کی
سیاسی سوچ اور عزائم کی جھلک سامنے آگئی تھی۔پاک سرزمین پارٹی کے قیام سے
لرکر آج اس سیاسی جماعت کے پہلے یوم تاسیس کی تاریخ تک پی ایس پی کی پوری
قیادت کی جانب سے حب الوطنی، بہادری اور سچائی پر مبنی جس سیاسی طرز عمل کا
مسلسل مظاہرہ کیا گیا اس کی وجہ سے 24 اپریل 2015 کو کراچی میں منعقد ہونے
والا ’’پاک سرزمین پارٹی‘‘ کا پہلا ہی جلسہ عام اس حوالے سے خاصہ کامیاب
رہا کہ اس سے قبل صرف ایک ماہ کے اندر کسی اور سیاسی پارٹی نے کبھی اپنا
پاور شو نہیں کیا تھا اور پھر کراچی کے خوف و دہشت زدہ ماحول میں الطاف
حسین اور ایم کیوا یم کی کھل کر مخالفت کرنے والے کسی اردو بولنے والے
سیاست دان کی یہ پہلی بغاوت تھی جو کامیاب رہی۔
پاک سرزمین پارٹی نے اپنے قیام کے صرف ایک ماہ بعد کراچی میں 24 اپریل کو
اپنا پہلا جلسہ عام منعقد کیا جبکہ پی ایس پی کا دوسرا جلسہ عام 23 دسمبر
2016 کو پکہ قلعہ حیدرآباد میں ہوا جو عوامی حاضری کے حوالے سے خاصہ کامیاب
رہا اور پھر مصطفی کمال نے اپنی پارٹی کا تیسرا جلسہ عام کرنے کے لیئے ایک
بار پھر کراچی کا انتخاب کیا اور 29 جنوری 2017 کو ایم اے جناح روڈ پر پاک
سرزمین پارٹی نے ایک کامیاب اور تاریخ ساز جلسہ کیا جس میں مصطفی کمال اور
رضا ہارون کی جانب سے ایک نہایت اہم8 نکاتی قرار داد پیش کی گئی جسے ’’
قرارداد کراچی ‘‘ کا نام دیا گیا ۔کراچی کے مخصوص طرز سیاست کے حوالے سے
پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد کراچی کو عوامی سطح پر
بہت پذیرائی حاصل ہوئی کہ یہ قرار داد کسی مقامی لسانی سیاسی پارٹی کی جانب
سے نہیں بلکہ ایک نئی ملک گیر محبت وطن سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کی
جانب سے پیش کی گئی ہے ۔کراچی میں29 جنوری 2017 کو ایم اے جناح روڈ پر پاک
سرزمین پارٹی کے کامیاب جلسہ عام میں مصطفی کمال اور رضا ہارون نے
’’قرارداد کراچی‘‘ کے نام سے 8 نکات پر مشتمل ایک اہم تحریری دستاویز پیش
کی جس کے تمام نکات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔جن سے اس بات کا اندازہ ہوتا
ہے کہ مصطفی کمال اور ان کی پارٹی اس قرارداد کو کن مقاصد کے حصول کے لیئے
بروئے کار لاناچاہتی ہے۔پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد
کراچی کو ماضی میں 23 مارچ 1940 کو پیش کی گئی ’’قرارداد پاکستان‘‘ جیسا
نہیں تو کم سے کم کراچی کی سیاسی صورتحال میں نہایت اہم ضرورسمجھا جانا
چاہیئے ۔کہ کراچی جس شعور کے ساتھ سیاسی کروٹ لے رہا ہے وہ اس بات کا پیش
خیمہ ہے کہ 2018 کے انتخابات کے بعد کراچی میں بہت کچھ بدل چکا ہوگا۔
مصطفی کمال ،انیس قائم خانی اور پاک سرزمین پارٹی کے دیگررہنماؤں کی گزشتہ
ایک سال کے دوران کی گئی پریس کانفرنسوں ،تقریروں،بیانات اور ٹی وی ٹاک شوز
میں کی گئی باتوں پر غورکیا جائے توہمیں ان کے طرز عمل اور شخصیت میں جو
باتیں بہت واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں وہ ہے ان کی سچائی ،بے خوفی ،اﷲ
تعالیٰ کی ذات پر ان کا بھروسہ ،مختلف زبانیں بولنے والوں اور مختلف
قومیتوں رکھنے والوں کے درمیان سیاسی اختلافات اور دشمنیوں کو ختم کروانے
کے لیئے ان کی عملی کوششیں ،پاکستان ،پاکستانی جھنڈے اور پاکستانی عوام سے
سچی محبت ،رنگ ونسل اور قومیت کے تعصب کے بغیر پاکستانی عوام کی فلاح
وبہبود کے لیئے کام کرنے کا جذبہ اورخاص طور پر کراچی اور حیدرآباد کے
باشندوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹوں کی دہشت گردانہ اور مفاد
پرستانہ سیاست سے نجات دلا کر کراچی کو ایک بار پھر امن وامان کا گہوارہ
اور روشنیوں کا شہر بنانے کے لیئے انتھک محنت اور نمایاں کوششوں کے ذریعے
لوگوں کی سوچ بدلنے کا مشکل اور انقلابی کام جسے مصطفی کمال اور ان کے
ساتھی پاک سرزمین پارٹی کے پلیٹ فارم کے ذریعے بڑی دلیری اور ولولے کے ساتھ
انجام دے رہے ہیں اور ان کی بے خوفی ، جذبہ اور ولولہ ہی ہے جس کی وجہ سے
عوامی سطح پر انہیں بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہورہی ہے اور پاک سرزمین
پارٹی کے جلسوں جلوسوں میں لوگوں بڑی تعداد میں شریک ہونے لگے ہیں جس کے
پیش نظر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی آئندہ
ہونے والے انتخابات کے بعد لسانی سیاست کرنے والوں کو انتخابی میدان میں ٹف
ٹائم دے کربڑی انتخابی کامیابی حاصل کرلے گی۔
اگر ہم23 مارچ 2017 کو پاک سرزمین پارٹی کے پہلے یوم تاسیس کے موقع پر
مصطفی کمال اور ان کی قائم کردہ پاک سرزمین پارٹی کی گزشتہ ایک سال کی برق
رفتارسیاسی جدوجہد کا غیر جانبدارنہ تجزیہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے
کہ مصطفی کمال ،ان کے ساتھی اور پاک سرزمین پارٹی پوری سچائی ،حب الوطنی
،بہادری اور بھرپور محنت کے ذریعے زبان اورنسل یا قومیت کے تعصب کے بغیر
پاکستانی عوام کے دلوں میں یہاں کے بعض مفاد پرست سیاست دانوں کی جانب سے
ایک دوسرے کے لیئے پیدا کی گئی نفرت کو دور کرنے کے لیئے ان کے دل آپس میں
جوڑنے کے لیئے مصروف عمل ہے اور اس میں پاک سرزمین پارٹی کو مصطفی کمال اور
انیس قائم خانی کی اعلی قائدانہ اور تنظیمی صلاحیتوں کی وجہ سے خاصی
مقبولیت اور کامیابی حاصل ہورہی ہے اور عوام کی بڑی تعداد ان کے جلسوں
جلوسوں میں شرکت بھی کر رہی ہے جس کی سب سے بڑی مثال چند ماہ قبل حیدرآباد
کے پکہ قلعہ میں ہونے والا پاک سرزمین پارٹی کا کامیاب پاور شو اور 29
جنوری 2017 کو کراچی میں ہونے والا ایک اورکامیاب جلسہ عام ہے جو کہ اس بات
کو ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں مصطفی کمال ،انیس قائم خانی ان کے
ساتھیوں اور پاک سرزمین پارٹی کا پیغام بہت تیزی کے ساتھ اپنی جگہ بنا رہا
ہے اور اگر اسی طرح لوگ پاک سرزمین پارٹی کے پیغام پر لبیک کہتے رہے تو وہ
دن دور نہیں جب پاک سرزمین پارٹی کا شمار پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں
کیا جانے لگے گا۔
پاک سرزمین پارٹی کے پہلے یوم تاسیس کے موقع پر اگر ہم اس پارٹی کی ایک سال
کی کارکردگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جس برق
رفتاری سے صرف ایک سال کے عرصے میں مصطفی کمال اور ان کی سیاسی پارٹی نے
لوگوں کے دلوں میں عوامی مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے اپنی جگہ بنائی ہے
وہ اس نئی سیاسی پارٹی کے روشن مستقبل کی ضامن ہے ،پی ایس پی کے چئیرمین
مصطفی کمال ،صدر انیس قائم خانی ، وائس چئیرمین وسیم آفتاب ،جنرل سیکریٹری
رضا ہارون ،وائس چئیر مین افتخار رندھاوا ،انیس ایڈوکیٹ اور دیگر فعال
رہنماؤں کی کارکردگی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاک سرزمین
پارٹی مستقبل کی سیاست میں کتنی اہمیت ،مقبولیت اور کامیابی حاصل کرسکتی
ہے۔
مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کے جلسے جلوسوں کی سب سے قابل تعریف بات یہ
ہے کہ ان کے ہرجلسے میں ہرجگہ پاکستان کے قومی پرچم لہرا رتے ہوئے نظر آتے
ہیں جس کے ہاتھ میں دیکھو پاکستان کا پرچم ہوتا ہے لیڈر ہوں ،کارکن ہوں یا
عوام سب پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،پاکستانیت کے
جذبے سے سرشاری کے حوالے سے پاک سرزمین پارٹی کے جلسوں نے بلاشبہ ایک منفرد
ریکارڈ قائم کیا ہے جس کی ہر سطح پر تعریف اور تقلید ہونی چاہیئے ۔کراچی
جہاں ایک طویل عرصہ سے رنگ ونسل اور زبان کو بنیاد بنا کر سیاست کی جارہی
ہے وہاں آکر مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے اپنی نئی سیاسی جماعت پاک
سرزمین پارٹی کے پہلے ہی جلسے میں پاکستانیت کے فروغ کا جو بے مثال مظاہرہ
کیا تھا اس کا تسلسل آج تک جاری ہے اور یہ مثبت طرز سیاست کا وہ عملی
مظاہرہ ہے جو ان کی نیتوں اور ارادوں کو ظاہر کرنے کے لیئے کافی ہے جبکہ
مصطفی کمال نے ایک ہفتہ قبل اپنی جماعت کے ورکرز کنونش میں اپنی پارٹی کے
کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ جو کارکن برائی کا راستہ ترک نہیں
کرسکتے وہ ابھی ہماری پارٹی کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں ،ایم کیو ایم سے پی ایس
پی میں آنے والے لوگ ہماری پارٹی میں یہ سوچ کرآئیں کہ جو کچھ غلط کام ایم
کیو ایم میں ہوتا رہا ہے وہ پاک سرزمین پارٹی میں نہیں ہوگا ،میری پارٹی
میں آنے والا ماضی میں کچھ بھی کرتا رہا ہو لیکن پی ایس پی کا رکن بننے کے
بعد اسے کوئی غلط کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لہذا پاک سرزمین پارٹی
کو ایم کیوا یم سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے‘‘۔ اتنے واضح سیاسی موقف ،سوچ
اورحب الوطنی کے مسلسل اظہار پر مشتمل طرز سیاست کے باوجود اگر مصطفی کمال
کی نیت اور ارادوں پر شک کیا جائے تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔
گوکہ پاک سرزمین پارٹی ایک وطن پرست پارٹی ہے جس کی جڑیں صرف ایک سال کے
اندر ملک کے چاروں صوبوں میں پھیل چکی ہیں لیکن چونکہ مصطفی کمال ،انیس
قائم خانی اور وسیم آفتاب کا بنیادی طور پربیس کیمپ کراچی ہے اور اسی شہر
سے انہوں نے اپنی پہلی اور دوسری سیاسی اننگ کا آغاز کیا ہے اس وجہ سے جب
ہم مصطفی کمال یا پاک سرزمین پارٹی کے حوالے سے کوئی بات کرتے ہیں تو سب سے
پہلے کراچی کا تذکرہ کرنا پڑتا ہے کہ خواہ کوئی کتنا بھی بڑا لیڈر ہو اور
اس کی کتنی بھی بڑی اور مقبول سیاسی جماعت ہو اس کا اپنا ایک بیس کیمپ ہوتا
ہے جہاں اس کا ووٹ بینک بھی ہوتا ہے جیسا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی پیپلز
پارٹی کا بیس کیمپ سندھ ہے اور نواز شریف کی مسلم لیگ کا بیس کیمپ پنجاب ہے
اسی طرح مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کا بیس کیمپ کراچی ہے جہاں سے
انتخابی میدان میں پاک سرزمین پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کے امکانات
ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ روشن ہیں اسی لیئے جب ہم ملک
گیر سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کا ذکر کرتے ہیں تو کراچی کا ذکر نمایاں
ہوتاہے۔
کراچی اور حیدرآباد سمیت پورے پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اس بات کی
متقاضی ہے کہ مصطفی کمال سمیت پاکستان اور پاکستانی عوام سے سچی محبت کرنے
والے تمام محب وطن سیاست دانوں کو نمایاں ترین انتخابی کامیابی حاصل ہو
تاکہ پاکستان سے مفاد پرست اور کرپٹ ترین حکمرانوں کے شرمناک دور حکومت کا
خاتمہ ممکن ہوسکے ۔الطاف حسین جو کبھی ایم کیوایم کے مائی باپ سمجھے جاتے
تھے اب ماضی کا حصہ بن کر ’’ تھا‘‘ ہوچکے ہیں اور ایم کیو ایم جس کی طاقت
کو کراچی میں کوئی چیلنج نہیں کرسکتا تھا آج ایک ایسے بے بس پرندے کی مانند
نظر آرہی ہے جس کے پر کاٹ دیے گئے ہوں یہی وجہ ہے کہ آسمانوں پر اڑنے والے
ایم کیو ایم کے مقامی لیڈر آج شرافت کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان زندہ باد کا
نعرہ لگا کر خود کو معصوم اور مظلوم ثابت کرتے ہوئے اپنے سیاسی و حکومتی
اقتدار کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی اپنی سی
کوششیں کررہے ہیں لیکن اب وہ دو ر چلا گیا جب کراچی کے مفاد پرست اور کرپٹ
سیاست دان دھونس اور دھاندلی کے ذریعے لاکھوں ووٹ حاصل کرنے کا دعوی ٰ کرکے
کراچی کے بادشاہ بنے بیٹھے تھے کہ مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی نے
کراچی و حیدرآبادکے سیاسی فرعونوں کو سیاست کے میدان میں نہایت تیز رفتاری
کے ساتھ پچھاڑ کر ان پر اپنی سیاسی سبقت ثابت کردی ہے بس اب انتخابی سبقت
ثابت کرنے کے لیئے 2018 کے عام انتخابات کا امتحان باقی ہے جس کے بعد کراچی
و حیدرآباد کی سیاست میں مصروف عمل سیاست دانوں کی اصل مقبولیت اور ووٹ
بینک کھل کر سامنے آجائے گا کہ اس بار ملک بھر میں ہونے والے الیکشن کے
دوران دھونس اور دھاندلی کی سیاست کرنے والوں کو اپنے سابقہ طرز سیاست کے
مطابق ووٹروں کو ہراساں کرنے کی چھوٹ نہیں ملے گی جس کی وجہ سے کراچی کی
عوام کو بھرپور موقع ملے گا کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنا قیمتی ووٹ اپنی مرضی
سے اپنے پسندیدہ سیاست دان اور سیاسی پارٹی کو دے کر دنیا بھر کو یہ
بتاسکیں کہ کراچی اور حیدرآباد کے باشندے لسانی اور قوم پرستی کی سیاست
کرنے والوں کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان ،پاکستانی جھنڈے اور پاکستانی عوام
سے محبت کرنے والے سچے پاکستانی سیاست دانوں کے ساتھ ہیں۔
مصطفی کمال کے قول وفعل اور کردار کی روز روشن کی طرح عیاں ہونے والی سچائی
کے باوجود کچھ لوگ تال حال ان سے بدگمان ہیں جو ان کی قائم کردہ نئی سیاسی
جماعت پاک سرزمین پارٹی کو ہنوز ’’ کمال گروپ ‘‘ کا نام دے کران کی پارٹی
کو ایم کیوایم کا ہی ایک ’’دھڑا ‘‘ قرار دینے پر مصر ہیں لیکن مصطفی کمال
اور پاک سرزمین پارٹی کو ملک گیر سطح پر حاصل ہونے والی پذیرائی اس طرح کے
سیاسی مخالفین کے لیئے ایک زور دار طمانچہ ہے جس کی گونج میں اس وقت بہت
زیادہ اضافہ ہوجائے گا جب پاک سرزمین پارٹی انتخابی کامیابی حاصل کرکے
اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھی ہوگی اور اس پارٹی کو ایم کیو ایم کا دھڑا یا
کمال گروپ کہنے والے اپنی بغلیں بجا رہے ہونگے ۔ پاک سرزمین پارٹی کے جلسوں
اور جلوسوں میں کراچی اور حیدرآباد عوام کی خاصی بڑی تعداد کی شرکت اور
پاکستانی عوام کی جانب سے مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کی ہر صوبے میں
پذیرائی یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ کراچی و حیدرآباد سمیت ملک بھر کے عوام
سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں، اب وہ اندھی عقیدت اورآنکھ بند کرکے کسی بھی پارٹی
کو ووٹ دینے پر تیار نہیں ہونگے ،خاص طور پرجو سیاسی پارٹی کراچی اور
حیدرآبادکے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوششیں کرے گی اور اقتدار میں آنے کے
بعد کراچی وحیدرآباد کو بدامنی ،بھتہ خوری ،دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے
پاک کرنے کے لیئے عملی اقدامات کرے گی کراچی وحیدرآباد کے لوگ اس کے ساتھ
کھڑے ہونگے اور ہوسکتا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں کراچی وحیدرآباد میں
سیاست کرنے والے بڑے بڑے برج الٹ جائیں اور ایک بالکل نئی اورنوجوان قیادت
ابھر کرسامنے آئے لہذا کراچی اور حیدرآباد میں سیاست کرنے والے قائدین اور
سیاسی جماعتیں ہوجائیں ہوشیار کہ عام انتخابات اب بہت زیادہ دور نہیں ہیں
اور اگر عام انتخابات کسی وجہ سے قبل ازوقت منعقد ہوگئے تو دعووں اور وعدوں
کی سیاست کرنے والوں کو تیاری کرنے کے لیئے مناسب وقت بھی نہیں ملے گا۔ |