کتنی تاریکی چھائی ہے اور کتنی دور سویرا ہے
جو حال میرے پاکستان کا ہے وہی حال میرا ہے
کہتے ہیں کہ سعودیہ کے ایک دور دراز گاوں میں ایک جادو گر رہتا تھا وہ اس
قدر ظالم تھا کہ گاوں میں جس کسی لڑکے کی شادی ہوتی تھی اس سے وہ تاوان
وصول کرتا تھا جو لڑکا تاوان اور تحفے تحائف دے کر اسے خوش کر دیتا اس کی
سہاگ رات ٹھیک گزرتی اور ازدواجی زندگی پر سکون گزرتی مگر جو اس جادو گر
کاہن کو تاوان اور تحفے تحائف پلس خوشامد نا کرتا تو جادو گر نے گاوں میں
اعلان کر رکھا تھا کہ وہ ہنی مون مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنی ادواجی زندگی
کو خیر باد نا کہے گا تو میں اس کو منہ مانگا انعام دوں گا اس لیے اس کی
بات سے سب ڈرتے تھے کیوں کہ بہت ساری شادیاں اس جادوگر کی بھینٹ چڑھ چکی
تھیں اور سب نوجوانوں نے سوچ رکھا تھا کہ جہاں دیگر شادی کے اخراجات ہوتے
ہیں وہاں جادوگر کے تاوان کا بندوبست بھی کر لو اور پر سکون ازدواجی زندگی
گزارو اور تاوان یعنی ٹیکس لینا اتنا بڑا جرم ہے اسلام میں کہ اللہ کی پناہ
یہ ہمارے عوام کو معلوم ہی نہیں ہے اسلام میں کسی بھی انسان سے یا قوم یا
مملکت سے یاعوام سے ٹیکس لینا پلس بھتّہ پلس تاوان وصول کرنا حرام ہے مگر
یہاں باقی کبیرہ گناہوں کے ساتھ ساتھ یہ سب بھی چلتا ہے شیطان کہتا ہے کہ
ٹیکس وصول کرو بعد میں بکاو مولوی سے کچھ پیسے دے کر حلال اور جائز کرا لیں
گے اور مولوی فتویٰ ایسے دیتے ہیں کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے باقی گناہ
صغیرہ ہیں اور صغیرہ گناہ صدقہ خیرات اور نماز روزہ حچ زکوٰۃ سے معاف ہو
جاتے ہیں -
جادوگر کی اس ظالمانہ دھمکی کا کوئی توڑ نہیں تھا اس گاوں کے نوجوانوں کے
پاس اس ظالم جادو گر کی ظالمانہ کاروائیاں دن بدن بڑھتی ہی گئیں اور وہ
طاقت ور اور مال دار ہوتا گیا اور رفتہ رفتہ اس کا کاروبار اس قدر چمکا کہ
وہ حکمرانوں پر اثر انداز ہونے لگا اور اس نے اپنا ایک محل بنایا جس میں وہ
رقصائیں بلا کر ان کے ناچ گانے سے لطف اندوز ہوتا -
وہ تو سعودیہ کا دور دراز کا گاوں تھا اگر کسی شہر میں یہ سب ہو رہا ہوتا
تو جادوگر کی گردن مار دی جاتی کیوں کہ اسلام میں جادوگر کی سزا گردن مارنا
ہے جادوگر کو عزّت دینا اللہ کے دین کے ساتھ غدّاری اور بے وفائی ہے کیوں
کہ جادو بھی اس طرح اثر کرتا ہے جیسے زہر اثر کرتا ہے-
مگر ہمارے پیارے پاکستان میں ایک بڑھ کر ایک جادو گر ہیں اور وہ ہندوستانی
جادو گروں کی خدمات بھی حاصل کرتے رہتے ہیں اسی لیے ہمارے پیارے ملک
پاکستان کا ہر خاصو عام شہری مسائل کا شکار ہے
موجودہ دور کے جادوگر کیا کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ٹاوٹ چھوڑے ہوتے ہیں
کہ لوگوں میں یہ بات پھیلا دو کہ جادو وادو کچھ بھی نہیں ہوتا یہ جد ید دور
ہے تاکہ لوگ ان کی جادوئی کاروایوں کا کوئی توڑ کوئی علاج ناکرا سکیں جو
مارکیٹ میں جادو سے بچنے کے طریقوں والی ہوتی ہیں وہ در حقیقت جادوگروں کی
پبلسٹی کے کام آتی ہیں -
ہمارے ملک میں کاہنوں اور جادوگروں نے اس قدر اپنا ہولڈ بنایا ہوا ہے کہ
حکمرانوں کے فیملی ڈاکٹر اور پرائیویٹ قانونی مشیر اور پارٹی ممبر بن کر
ایک طاقتور سیاست دان بنے ہوئے ہوتے ہیں اور جادوئی لفّاظیوں کے ذریعہ سے
ایک خوشامدی دائرہ بنائے رکھتے ہیں جو آہستہ آہستہ کافروں اور ہندووں اور
نام نہاد سیکولرازم کے پیروکاروں والا ایجنڈا ہمارے معاشرے میں انجیکٹ کیے
جارہے ہیں تاکہ مسلمان حکمران اور ان کی اولادیں صرف نام نہاد مسلمان بن کر
جینے پر مجبور ہو جائیں اور اسلامی ملکوں پر آہستہ آہستہ کفر کا غلبہ ہوتا
جائے اور دنیا کے نقشے پر سے ہرا رنگ غائب ہوتا ہوتا مکمل غائب ہوجائے اور
مسلمانوں کو پھر غلام بنا کر ان سے کام کرائے جائیں یہ کام امریکہ اپنی سپر
پاوری قائم رکھنے کے لیے کر رہا ہے اور ہندوستان پہلے ایشیائی سپر پاور
بننے کے لیے اور بعد میں ورلڈ سپر طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور
امریکہ چکی کا ایک پاٹ بنا ہوا ہے تو دوسرا پاٹ انڈیا بنا ہوا ہے اور
درمیان میں مسلمان پس رہے ہیں -
مسلمانوں کو جیسے اندلس میں عورتوں کے ذریعہ اور راگ رنگ ناچ گانے اور شراب
وشباب میں مگن کر کے ان سے اندلس چھینا گیا مسلمان بے چارے نٹوّں بھانڈوں
اور مسخروں کی اور عورتوں کی دلفریب اداوں میں ہی مگن رہتے تھے پہلے عورتوں
نے مسلمانوں کے حکمرانوں کو دین اسلام سے دور کیا ا س طرح کہ وہ مظلوم بن
کر مسلمانوں کی جڑیں کاٹتی رہیں -
آج کے دور میں جب بڑے بڑے دانشوروں سے کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور ہندوستان
کے کافر بظاہر مسلمان کر جڑیں کاٹ رہے ہیں تو وہ ہمارے دانشور کیا جواب
دیتے ہیں کہ آپ لوگ کافر بن کر ان کی جڑیں کاٹ لیں آپ کو کوئی روک رہا ہے
یعنی ہمارے دانشوروں نے اسلام اور کفر ایک برابر سمجھ لیا ہے اور کہتے ہیں
کہ انسانیت کے رشتے کے لحاظ سے مسلمان کافر سب برابر ہیں یہی وہ خطرناک
سٹیج ہے جس پر مسلمانوں کو گھیر گھار لے ہی آئے ہیں دنیا کے کافر بھئی
مسلمان اور کافر ایک برابر کیسے ہوسکتے ہیں
ظالم اور عادل ایک برابر کیسے ہو سکتے ہیں عالم اور جاہل ایک برابر کیسے
ہوسکتے ہیں یہ باتیں تو قرآن میں اللہ نے بیان فرمائی ہیں کہ حق اور باطل
عالم اور جاہل مسلمان اور کافر ظالم اور عادل ایک برابر ہرگز نہیں ہوسکتے
ہیں اور نا ہی پاک دامن اور بدکردار ایک برابر ہوسکتے ہیں -
مگر مسلمانوں کو یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ ہنس گا کر خوش رہ کر جو وقت
پاس ہوجائے وہی بہتر ہے تاکہ مسلمانوں کو ان مظلوموں سے بے خبر رکھا جائے
جن کی مدد کرنا مسلمانوں پر حکمران ہوں یا عوام سب پر فرض ہے اللہ کی پناہ
جادوگروں کے شر سے -
واضح رہے کہ اسلام مین جادوگروں کی سزا قتل اس لیے ہے کیوں کہ جادو گر بنتا
ہی اس وقت ہے جب وہ درجنوں بلکہ سیکڑوں بے گناہ جانوں قتل کر چکا ہوتا ہے
مگر اپنی جادوئی طاقتوں سے کسی کو ثبوت ہاتھ نہیں آنے دیتا اس لیے جو بندہ
جادوگر بنتا ہے اس کو قتل کر دینا حکومت کا فرض ہے اور جو لوگ جادوگر بننا
چاہتے ہیں ان کی تعزیرات کے ذریعہ سے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے خیال رہے کہ
جادوگر اکثر مظلوم بن اور کئی نقابوں کے پیچھے چھپ کر اپنا جان لیوا دھندہ
چلاتے ہیں اور بعض تو مسجدوں کے امام مفتی خطیب حافظ اور عالم بن کر یہ کام
کرتے ہیں اس سلسلے میں ایمان والوں کو اللہ پاک راہنمائی دیتا رہتا ہے جیسے
کوئی حافظ قاری علم مفتی بن کر ایک غیر ملکی جاسوس بن سکتا ہے ایسے ہی
جادوگر بھی بن سکتا ہے اعلی ہٰذا القیاس جدوگر کبیرہ گناہ کا مرقب واجب
القتل انسان نما حیوان ہوتا ہے اس لیے اسلامی قانون کے ذریعے مظلوموں کو
ایسے وحشیوں کے چنگل سے بچایا چاہیے میں جب ایسے افراد کو دعوت دیتا ہوں تو
میرے گرد ان کا ایک دائرہ بنا دیا جاتا ہے جو سوال پوچھتا رہتا ہے کہ اس
معاملے میں کیا کہتی ہے شریعت اور میرے جیسا آدمی مخلصانہ مشورے دیتا رہتا
ہے اور ان کا مکتلف طریقے سے اپنا نام لگا کر پرچار کیا چاتا ہے جس میں
اپنے مفاد کی باتوں میں ردّ وترمیم بھی کر دی جاتی ہیں اور اپنا کاروبار
چمکایا جاتا ہے-
میں یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ حکمران اگر اسلام کے ساتھ مخلص ہیں تو
ان کو چاہیے کہ ایسے اقدامات کریں جن سے سود سمیت تمام کبیرہ گناہوں سے ہم
اپنے آپ کو بھی اور اپنے اہل وعیال کو محفوظ کریں اور افسر اپنے ماتحتوں
اور حکمران اپنے عوام کو کبیرہ گناہوں سے سیف کریں اور محفوظ رکھیں اس کا
بہترین طریقہ جو ہے وہ ہے کہ سود سمیت فرقہ پرستی سمیت تمام کبیرہ گناہوں
کا خاتمہ اس کے لیے تعلیم کے میدان کو اسلامی تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا اس
کا آسان طریقہ ہے نماز کو قئم کرنے کے لیے تمام قریبی مسجدوں میں تمام
مسلمانوں کی نمازوں میں حاضری کو ممکن بنایا جائے اس میں اگر سدا کے بگڑے
ہوئے لوگ تو اگرچہ سو فی صد حاضری نا دے سکیں مگر بچے اور نوجوان اگر اس
کام میں شوق سے حاضری دیں گے تو آہستہ آہستہ مثبت تبدیلی رونما ہونے کے
زیادہ امکانات ہیں یکدم تو اصلاح نہیں ہو سکتی کہ اتنے سالوں سے تعلیم سمیت
تمام شعبوں پر غیر اسلامی اور سیکولر لوگوں کا غلبہ ہے جو مسلسل پاکستان کو
دینی لحاظ سے دائمی بیمار کرتا جارہا ہے اور اب علاج اگر کرنا ہے تو اس کے
لیے اسلام کو نافذ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں یہ کام مشکل نہیں ہے مگر حکمران
سنجیدگی سے کام لیں اور ہر ادارے میں مرکزی مسجد کا قیام ممکن بنایا جائے
جس میں ارگرد کے نمازیوں کو حاضر کیا جائے اور پانچ وقت حاضری کے لیے ٹھوس
اقدامات کیے جائیں مثال کے طور پر سکول ہسبتال تھانہ کچہری بازار منڈی
فیکٹری یا مل محلّہ جات کی مرکزی مسجد میں یہ کام ہونا چاہیے اس کے لیے بھی
اقدامات کرنے چاہییں کہ جہاد کو فرض کیا جائے ہر شعبے سے جوانوں کو فوج میں
بھرتی کیا جائے اور سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں بھی جہاد کی تربیت لازمی
قرار دی جانی چاہیے اللہ تعالیٰ ہمیں اللہ کی حکموں کے مطابق فیصلے کرنے کی
توفیق دے ورنہ غلامی مسلمانوں کا مقدّر بن جائے گی اور کوئی راہ نجات نہ
ملے گی اور دین ایمان سے محروم ہونا پڑے گا - |