آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدرر خان کا یہ کہنا
ہے کہ ان کی حکومت کی اولین ترجیحات میں کشمیر کاز،اچھے سرکاری نظم ونسق کا
قیام اور تعمیر و ترقی کے امور شامل ہیں۔معاہدہ کراچی کے ذریعے آزاد کشمیر
حکومت کا تمام ریاست کشمیر کی نمائندہ حکومت کا کردار ختم کر دیا گیا اور
1974ء کے عبوری آئین میں بھی آزاد کشمیر حکومت کا کردار مقامی امور میں
محدود کیا گیا۔لیکن اس کے باوجود کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر حکومت
کا سیاسی کردار اب بھی قائم ہے۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی درخواست پر
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے آزاد کشمیر میں آئینی اصلاحات کے
حوالے سے ایک اعلی سطحی کمیٹی قائم کی ہے تا کہ آزاد کشمیر حکومت کو مقامی
امور کے حوالے سے با اختیار بنایا جا سکے۔تاہم آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے
اس طرح کی کوئی تجویز شامل نہیں ہے کہ کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر
حکومت کے کردار کو آئین کا حصہ بنایا جائے۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے بھی
آئینی ترامیم کے معاملے میں وفاقی سطح پر ایک کمیٹی کام کر رہی ہے ،یوں
آزاد کشمیر کے لئے آئینی ترامیم کا معاملہ گلگت بلتستان کے آئینی معاملے سے
منسلک ہے کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کے لئے کس سیاسی حیثیت کا فیصلہ
کرتی ہے اور اسی کی روشنی میں آزاد کشمیر کے لئے بھی آئینی ترامیم کے ذریعے
معاملہ طے کیا جائے گا۔اس طرح گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے خطوں کے
سیاسی مستقبل کو طے کرنے کا معاملہ پاکستان کی طرف سے عالمی سطح پر مسئلہ
کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کی پالیسی پر ایک
بڑے سوالیہ نشان کے امکان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس حوالے سے
پاکستان کی کشمیر پالیسی دائو پر لگی محسوس ہوتی ہے۔آئینی ترامیم میں کشمیر
کاز کو نظر انداز کرنا آزاد کشمیر ہی نہیں بلکہ پاکستان کی طرف سے بھی ایک
مہلک غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔
آزاد کشمیر حکومت کی نمبر ایک ترجیح یعنی کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر
حکومت کے تین چار اقدامات نا مکمل اور غیر موثر انداز میں نظر آتے ہیں۔پہلے
آزاد کشمیر حکومت نے گزشتہ دور حکومت میں قائم کردہ کل جماعتی رابطہ کونسل
کو دوبارہ زندہ کرتے ہوئے اس کی ایک وسیع مشاورتی کانفرنس منعقد کی لیکن
اتفاق و اعلان کردہ امور پر کام کرنے کے بجائے رابطہ کونسل کے سربراہ
عبدالرشید ترابی کے غیر ملکی دورے تک ہی بات محدود رہی۔گزشتہ دنوںاس رابطہ
کونسل کی ایگزیکٹیو کونسل کے دو تین ارکان کی پاکستان کی دو تین سیاسی
شخصیات سے ملاقاتوں کی خبر اخبارات کی زینت بنی۔کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد
کشمیر حکومت کی دوسری سرگرمی وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کا دورہ یورپ
رہی۔اسی حوالے سے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے یورپی ممالک میں مقیم
کشمیری نوجوانوں کے گروپ کو پاکستان کا دورہ کراتے ہوئے انہیں ڈیفنس
یونیورسٹی،وزارت خارجہ سے بریفنگ دلانے کی بات کی۔تاہم یہ معاملہ فوری
اقدام کے طور پر نظر نہیں آ رہا۔
کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کے تیسرے اقدام میں کشمیر لبریشن
سیل سے متعلق دواقدام شامل ہیں، آزاد کشمیر کے اضلاع سے سیل میں کو
آڈینیٹرز کی تعیناتی، کشمیر لبریشن سیل میں '' ریسرچ اینڈ پالیسی فورم'' کا
قیام اور اس میں ریسرچرز،سکالرز اور آفیسرز کی تعیناتی کا اعلان۔فورم کے
چیئر مین' این ڈی' یونیورسٹی کے شعبہ' آئی آر 'کے سابق چیئرمین ریٹائرڈ
بریگیڈئر ڈاکٹر محمد خان ، اے جے کے یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر
سمیرا شفیق،اسسٹنٹ پروفیسر سید مظہر گردیزی،سابق ڈائریکٹر اوپن یونیورسٹی
محمد قاسم حیدرکے علاوہ سیکرٹری سیل محمد ادریس عباسی اور ڈائریکٹر سیل
راجہ سجاد لطیف شامل ہیں۔معلوم نہیں کہ ان میں ریسرچر کون ہے اور سکالر
کون۔فورم کی ذمہ داریوں میں کشمیر اشو بارے تحقیق،اشاعت،سیل کے میگزین کی
بہتری،ملکی اور عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنا،مقبوضہ کشمیر میں
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنا اور حق خود ارادیت کی حمایت
شامل ہے۔اعلان کے مطابق کشمیر اشو پر سیمینار،کانفرنس ،مکالموں اور ریسرچ
جنرلز کی اشاعت بھی اس فورم کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔کشمیر لبریشن سیل کے
مطابق فورم میں شامل کئے جانے والوں کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔ان
ناموں سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ریسرچ کا کام کریں گے لیکن معلوم نہیں کہ
بغیر معاوضے کے ان افراد کی طرف سے ریسرچ کا کام کس طرح ہو سکے گا؟ ہاں اگر
دوسروں کی ریسرچ کو استعمال کرنا ہے تو بات الگ ہے۔میری رائے میں اس فورم
کی تشکیل محدود سطح پر ہے اور کسی طور بھی یہ نظر نہیں آتا کہ فورم میں
شامل افراد اپنی ذمہ داریوں کے مطابق کام کو موثر طور پر ادا کر سکیں
گے۔ریسرچ کرنا الگ بات ہے اور کشمیر لبریشن سیل کی کارکردگی کو موثر بنا
ناالگ نوعیت کا کام ہے ۔کشمیر سیل کا کام بیک وقت علمی،سیاسی اور سرکاری
نوعیت کا ہے اور قائم کردہ فورم سیل کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔آزاد
کشمیر حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ترجیح نمبر ایک 'کشمیر کاز' کے لئے
اپنے اقدامات پر نظر ثانی کرے اور اس اہم ترین معاملے پر حسب استحقاق توجہ
دی جائے۔ |