لاہور پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کا
تاریخی شہر ہے اور ہر دور میں لاہو ر کو مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے لاہور
اپنی مثال آپ ہے اک مثل بھی مشہور ہے کہ "جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای
نئیں"یہ شہر واقعی ہی بہت خوبصورت اور قدیمی ہے جب پاکستان و ہندوستان
اکٹھے تھے تو 23مارچ 1940 ء کو شہر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی
اجلاس میں اک قراداد پیش کی گئی اور اس قراداد کو متفقہ رائے سے منظور کر
کے پاکستان کی بنیاد ڈال دی۔قرارداد لاہور چارسو الفاظ اور چار پیراگراف پر
مشتمل تھی 23مارچ کے تاریخی اجلاس میں شیر بنگال اے کے مولوی فضل الحق نے
قرارداد لاہور میں پیش کی جسکی چوہدری خلیق الزمان ،مولانا ظفر علی خان،سر
عبدا للہ ہارون ،سردار اورنگ زیب،نواب اسمٰعیل،قاضی محمد عیسٰی اور بیگم
محمد علی جوہر نے تائید کی۔ اس قرارداد کے مطابق "آل انڈیا مسلم لیگ کے اس
اجلاس کی یہ مسلمہ رائے ہے کہ کوئی بھی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل
اور مسلمانوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا تاوقتیکہ وہ مندرجہ ذیل بنیادی
اصول پر وضع نہ کیاگیاہو۔یعنی جغرافیائی طور پر متصلہ علاقوں کی حد بندی
ایسے خطوں میں کی جائے(مناسب علاقائی ردوبدل کے ساتھ) جن علاقوں میں مسلمان
کی اکثریت ہے مثلأ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے،ان کی تشکیل ایسی
آزاد ریاستوں کی صورت میں کی جائے جسکی مشمولہ وحدتیں خود مختار اور مقتدر
ہوں ۔ نیز ان حدوں اور خطوں میں اقلیتوں کے مذہبی،معاشی،سیاسی،انتظامی اور
دیگر حقوق و مفادات کا مناسب موئثر اور حکمی تحفظ انکے مشورے سے آئین میں
صراحت کے ساتھ پیش کیاجائے"
اس اجلاس کے موقع پر قائداعظم محمدعلی جناح نے اپنی صدارتی تقریر میں دو
قومی نظریہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ" ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ
نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے اور اس مسئلہ کو بین الا قوامی مان کر حل کرنا
چاہیے۔اگر برطانوی حکومت ہندوستان میں امن اور سکون چاہتی ہے تو صرف ایک
صورت ہے کہ ہندوستان کو تقسیم کرکے جدا گانہ قومی وطن قائم کیے جائیں۔ہندو
مسلم کبھی ایک قوم نہیں بنے،نہ دونوں کے درمیان شادیاں ہوتی ہیں جنکی بنیاد
متصادم افکار و تصورات پر ہے۔انکے کارنامے مختلف ہیں،دونوں کی رسومات مختلف
ہیں ایسی متضاد قوموں کو ایسے نظام میں باندھنا جس میں ایک اقلیت اور دوسری
اکثریت میں ہواس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ ان میں بے چینی بڑھے گی اور وہ
نظام بالآخر تباہ و بر باد ہوجائے گا۔قائداعظم نے اس مفروضے کو کہ مسلمان
ایک اقلیت ہیں تردید کرتے ہوئے فرمایا مسلمان ایک اقلیت نہیں ، بلکہ وہ
قومیت کی ہر تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں لہٰذا ان کا ایک علیٰحدہ وطن ہونا
چاہیے"مزید اپنی تقر یر میں لالہ لاجپت رائے کے خط کو پڑھ کر سنایاجو انہوں
نے 1924 میں سی آر داس کو لکھا تھاکہ مسلمان اور ہندو دو مختلف قومیں ہیں
جنہیں مدغم کر کے اک قوم بنانا ناممکن ہے۔انکے خط نے لوگوں کو ششدر
کردیا۔ملک برکت علی کے منہ سے نکل گیا کہ لاجپت رائے نیشنلسٹ ہندو تھے اس
پر قائد اعظم نے زور دے کر فرمایا کہ"کوئی ہندو نیشنلسٹ نہیں ہو سکتا ہر
ہندو اول و آخر ہندو ہے"
ہمیں سب سے پہلے خداوند کریم کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس پاک ذات نے آزاد
مملکت عنایت فرمائی اس کے بعد بانی پاکستان اور تصور پاکستان کے ساتھ ساتھ
اپنے ان تمام قومی ہیروز اور آباؤاجداد کا شکر گزار ہونا چاہیے جنکی ان تھک
محنت اور لازوال قربانیوں سے ملک پاکستان معرض وجود آیا۔ قائداعظم محمد علی
جناح نے جب پاکستان بنایا تو انہوں نے تمام مذاہب کے لوگوں کو برابر کے
حقوق دیئے اور انکو واضح کیا کہ آپ جس بھی قوم اور فرقے سے تعلق رکھتے ہوں
آپ سب پاکستانی ہیں اور ہم نے جس طرح مل جل کرمشترکہ جدوجہد کرکے قربانیاں
دے کر پاکستان حاصل کیا ہے اسی طرح اکٹھے مل کر پاکستان کی حفاظت کرنی
ہے،پاکستان کی ترقی کے لئے دن رات محنت کرنی ہے،پاکستان کے وقار کو بلند
رکھناہے یہ تھا بانی پاکستان محمد علی جناح کا ویژن ۔مگر انکی وفات کے بعد
انکے ویژن کی پاسداری ٹھیک طرح نہیں ہوئی جسکی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا
ہوگئے پھر کیا تھا کہ ان مسائل کے حل کی تو دور کی بات بلکہ ان میں کئی
گناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان اس وقت دہشتگردی،کرپشن،بیرونی قرض،بے
روزگاری اور فرقہ واردیت جیسے کئی سنگین مسائل میں گھراہوا ہے ۔
اس تحریر کی وساطت سے اقلیتوں کے کچھ ایشوز کو بیان کرنا چاہتا ہوں
۔قائداعظم محمد علی جناح اور قرار داد پاکستان کی رو سے پاکستان میں بسنے
والی تمام قوموں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل ہو گی ۔قانون سازی میں حصہ
اور برابر کے حقوق حاصل ہوں گے ۔مگر پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب میں سکھوں
کے گورو نانک صاحب کا مزار ہے اور اس مزار کے اردگرد ساری زمینیں سکھوں کی
تھی جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چند بااثر افراد نے ہتھیا لی جس پر سکھ
برادری کی دل آ زاری ہوئی۔اسی طرح کراچی اور حیدر آباد میں ہندو خاندانوں
کو چند ایک افراد نے اس حد تک ستایا کہ وہ پاکستان کو چھوڑنے پر مجبور ہو
گئے اور یہ واقعات کوئی ڈھکے چھُپے نہیں ہیں۔اسی طر ح ساہیوال کے گاؤں
چھیانوے میں ایک میسحی خاندان نے محمد مجید نامی شخص کو گھر کا اک پورشن
کرائے پر دیا تھامالک مکان کسی عزیز کی وفات پر دوسری جگہ گیا جب واپس گھر
پر آیا تو مجید اور اسکے دو بیٹوں نے مالک مکان اور اس کی دو بیٹیوں پر
وحشیانہ تشدد کیا اورانکی بے حرمتی کی گئی۔جب مالک مکان نے قانونی کارروائی
کرنا چاہی تو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی اور یہ واقع اسی ماہ(مارچ) کی
15 تاریخ کا ہے اور آجکل فیس بک پر سارے واقع کی ویڈیو وائرل ہے۔ اسی طرح
لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کیمپس نہر کے پل کے پاس میسحی قبرستان جیون ہانہ
گارڈن ٹاؤن واقع ہے جس پر چند سرکاری افسران ایل ڈی اے اور ٹیپا کے ساتھ مل
کر سڑک بنانا چاہتے ہیں اور اسی غرض سے میسحی لوگوں کے عزیزوں کی قبروں پر
بلڈوزر چلایاگیا جو کہ میں سمجھتا ہوں ظلم کی انتہا ہے یو ں کہنا زیادہ
بہتر ہو گا کہ میسحی قوم پر قیامت ٹوٹ گئی کوئی بھی زی شعور انسان ایسا ظلم
اور اپنے پیاروں کی آخری آرام گاہ کی تذلیل کبھی برداشت نہیں کر سکے گا یہ
ایک تاریخی قبرستان ہے جس میں حب الوطن لوگ دفن ہیں جنہوں نے پاکستان کے
لئے اپنے رشتے، اپنی جائیدادیں قربان کردی اور پاکستان کو اولیت کا درجہ
دیا آج انہی کی قبروں پر بلڈوزر پھیر کر حکومت نے تاریخ رقم کر دی حالانکہ
میسحی لوگوں نے سڑک بنانے کے خلاف عدالت میں کیس بھی جیتا ہے اور دو بار ڈی
سی او لاہور اور گلبرگ ٹاؤن لاہور میں میسحی قبرستان جیون ہانہ گارڈن ٹاؤن
کی چار دیواری بنانے کیلئے درخواست بھی جمع کروائی پر آج تک کوئی عمل درآمد
نہیں ہو سکا ۔ سو برائے کرم وزیراعلیٰ پنجاب،مئیر لاہور مثبت اقدامات صادر
فرمائیں۔ ایسے اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن کو بیان کیا جا سکتا ہے لیکن
آج کے حکمرانوں سے میرا سوال ہے کیا ایسے دن کے لئے قائد نے پاکستان بنایا
تھا ؟کیا ہمارے بزرگوں نے ایسے دنوں کے لئے جدوجہد کی تھی؟اس تحریر کی
وساطت سے میری وزیراعظم پاکستان،صدر پاکستان اور تما م صوبوں کے وزرا ء
اعلیٰ سے التماس ہے کہ خدایا قائداعظم محمد علی جناح کے فرمان اور 23مارچ
1940 ء کی قرار داد کی پاسداری کریں تاکہ قائد اعظم کی روح کو سکون میسر آ
سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان زندہ باد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |