21مارچ کو عالمی سطح پر جنگلات جبکہ 22مارچ کو پانی کا دن
منایا جاتا ہے۔ اس سال جب یہ دونوں دن آئے تو بھارت سے ایک اعلیٰ سطحی وفد
پاکستان پہنچ چکا تھا جس کی سربراہی بھارت کے سندھ طاس کمیشن کے سربراہ پی
کے سکسینہ نے کی جن کے ہمراہ 10 رکنی وفد تھا۔ پاکستان میں کچھ لوگ اس بات
پر اطمینان کا اظہار کر رہے تھے کہ چلو بھارت سے مذاکرات کا ڈول تو ڈالا ہے۔
یہ تو سب کو پتہ ہی تھا اور ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا بالآخر نتیجہ
وہی نکلنا ہے جو 70سال سے نکلتا چلا آیا ہے یعنی نشستند، گفتند، برخاستند……
افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس وفد کے ساتھ جو مذاکرات تھے اس میں بھارت کی طرف
سے بنائے گئے رتلے اور کشن گنگا ڈیم شامل ہی نہیں تھااور جو بات ہوئی اس کا
کوئی فائدہ ہی نہیں ۔بھارت مذاکرات کے نام پر وقت گزارنے اور فریق مخالف کو
دھوکہ دینے میں انتہائی ماہر ہے اور یہی مہارت وہ خطے کے سبھی ممالک خصوصاً
پاکستان کے خلاف استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ بھارت اس بات کا بھی استعمال
اتنی چالاکی سے کرتا ہے کہ فریق مخالف محض مذاکرات کو اپنی بہت بڑی کامیابی
سمجھنے لگتا ہے۔
پاکستان کا بھارت کے ساتھ آبی جھگڑا کیا آج کا ہے؟ ہرگز نہیں، یہ تو
پاکستان بنتے ہی اس وقت شروع ہو گیا تھا جب انگریزوں نے ہندوؤں سے ساز باز
کرتے ہوئے اور پاکستان کو ہمیشہ کیلئے بھارت کا باج گزار اور دست نگر بنانے
کے لئے دریاؤں کے ہیڈ ورکس بھارت کے حوالے کر دیئے تھے اور بھارت نے
پاکستان کی پہلی گندم کی فصل کے لئے بھی پانی روک لیا تھا۔ یہ جھگڑا 1958ء
تک چلتا رہا اور پاکستان اپنے حصے میں آنے والا پانی بھارت کو قیمت ادا کر
کے بھی خریدتا اور کھیت سیراب کرتا رہا، حتیٰ کہ ستمبر 1960ء میں کراچی میں
نہرو اور ایوب خان کے مابین سندھ طاس معاہدہ ہوا۔ اس معاہدہ کا ضامن ورلڈ
بینک بنا اور پاکستان کو ’’فنڈز‘‘ مہیا کر کے تین مشرقی دریا مستقل طور پر
بھارت کے حوالے کر دیئے گئے۔ 1970ء میں بھارت نے ’’اپنے حصے‘‘ کے ان تین
دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج کو مکمل طور پر بند کر دیا جس کے بعد اب تک ان
میں سوائے سیلاب کے کبھی کوئی پانی نہیں آیا۔ جب ورلڈ بنک کی ضمانت،
10طاقتور ملکوں کی موجودگی اور گواہی میں یہ طے ہو چکا کہ خطے کے تین مغربی
دریا یعنی سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے زیراستعمال ہوں گے تو ان پر اب
مذاکرات چہ معنی دارد…… چلئے مان لیا کہ معاہدہ میں یہ لکھا گیا ہے کہ
بھارت ان دریاؤں کا پانی بغیر روکے یا کم کئے بجلی بنانے یا زراعت کے لئے
استعمال کر سکتا ہے تو اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ بھارت پاکستان کے حصے کے
ان دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیم بنا کر ان کا پانی ہی روک دے بلکہ سرنگیں کھود کر
ان کا رخ ہی تبدیل کرنا شروع کر دے۔ کیسی دکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ طے
شدہ معاہدے پر ہم عمل درآمد کروانے کے لئے زور دینے کے بجائے اس بات پر
بغلیں بجا رہے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کے مسئلہ پر مذاکرات شروع کر دیئے
ہیں کہ جیسے یہ بھی ہماری کوئی بہت بڑی کامیابی ہے۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جنہوں نے انتخابات میں کامیابی کیلئے اور
بعد میں اپنے عوام کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لئے پاکستان دشمنی ہی کو
بنیاد بنایا ہے اور تمام تر معاہدوں اور اصولوں پر کلہاڑا چلاتے ہوئے بارہا
کہا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف جانے والا پانی روک دیں گے اور یہ پانی وہ
اپنے ملک کے کسانوں کو دیں گے۔ آخر کیوں؟ ایک اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ
مذاکرا ت یا تماشا جب بھی لگتا ہے تو پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں
پر لگتا ہے، کبھی ان دریاؤں کا تذکرہ بھی نہیں ہوتا جو بھارت کو ملے کہ ان
سے بھی تو کچھ پانی پاکستان کو ملنا چاہئے۔ کچھ بھی ہو پانی کے مسئلہ پر
مذاکرات تو سمجھ سے بالاخر ہیں کیونکہ اس طرح تو ہم کم از کم اپنے حصے کے
دریاؤں کے پانی کو بھی جیسے متنازعہ تسلیم کر چکے ہیں۔
کیا بھارت سے آج تک ہمیں اس مذاکراتی کھیل میں کبھی کچھ ملا ہے؟ ہرگز نہیں۔
ہمیں تو ہمارے پانیوں کے مرکز و منبع کشمیر کا موجودہ آزاد حصہ بھی جنگ و
جہاد سے ہی ملا تھا جہاں آج ہم نیلم جہلم جیسے منصوبے تعمیر کر رہے ہیں اور
جہاں ہمارے اور دیگر بہت سے پن بجلی کے منصوبے چل رہے ہیں، اگر اس وقت بھی
جہاد نہ ہوتا تو ہمیں یہ کشمیر بھی نہ ملتا اور ہم اس کیلئے بھی مقبوضہ
کشمیر کی طرح تڑپ اور مر رہے ہوتے جو ہمارے دریائے سندھ کا بھی بہت بڑا
منبع ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں کیفیت یہ ہے کہ زیرزمین پانی انتہائی تیزی
سے نیچے جا رہا ہے کیونکہ دریاؤں اور نہروں میں پانی انتہائی کم ہے۔ ملک
میں لگے ہوئے لاکھوں ٹیوب ویل دن رات پانی کھینچ کھینچ کر زیرزمین پانی کی
سطح کو گرانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس پانی کے لیول کو برقرار رکھنے کے لئے
جو دریا اور نہریں کام کرتی ہیں وہ خشک ہیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار
ایسا ہوا کہ مارچ کے وسط میں ہمارا منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم مکمل خشک ہو
گئے اور ہم بھارت سے پانی کے حصول کے لئے منتوں ترلوں میں لگے ہوئے تھے۔چند
ہفتے پہلے اقوام متحدہ نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں بتایا تھا کہ
پاکستان نے آج تک یہ ریکارڈ ہی نہیں رکھا کہ سندھ طاس معاہدہ پر کتنا عمل
ہو رہا ہے اور بھارت سے آنے والے پانی کی کیفیت کیا رہی ہے اور بھارت نے
ہمیں 1960ء سے لے کر آج تک پانی کی بندش کا ٹیلی میٹری سسٹم نصب نہیں کرنے
دیا کہ ہم اس کی پیمائش کر سکیں۔ ہم پھر بھی یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ایسے کر
لو تو شاید بھارت سے تعلقات ٹھیک ہو جائیں، شاید ہم محفوظ ہو جائیں۔
حالانکہ بھارت تو آپ کا وجود ایک دن برداشت کرنے کو تیار تھا، نہ ہو گا۔
اسی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ آنے والے چند برسوں میں
پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہو گا جو خوراک کیلئے دوسرے ملکوں پر انحصار
کریں گے اور ملک افریقی صحراؤں کی صورت اختیار کر لے گا۔ اس وقت ملک بھر
میں پانی کی کمی کی جو کیفیت ہے وہ چیخ چیخ کر ہمیں اس دن کی دہائیاں دے
رہی ہے کہ ہم بھارت سے اپنا حق اور حصہ حاصل کر لینے کے بجائے محض مذاکرات
کے آغاز پر خوش ہو رہے ہیں۔ پانی کے حوالے سے ملک کے حالات اس قدر سنگین
ہیں کہ ہمارا ہر گزرتا دن ہمیں بدترین تباہی کی طرف لے کر جا رہا ہے اور اب
بھی اگر ہم آنکھیں کھول لیں تو راستہ نکل سکتا ہے۔ اب تو ہمارے ملک کی دو
دہائیوں سے سندھ طاس کونسل کی سربراہی کرنے والی شخصیت جماعت علی شاہ جو
ہمیشہ بھارت کی نمائندگی کیا کرتے تھے، نے کہہ دیا ہے کہ بھارت ہمارے
دریائے چناب پر تین ہزار میگاواٹ کے پاور ہاؤس نصب کر کے بجلی بنا رہا ہے،
پانچ ہزار میگاواٹ کے پاور ہاؤس بنانے اور بیس ہزار میگاواٹ کی منصوبہ بندی
کئے بیٹھا ہے اور بھارت سے اس حوالے سے کسی بریک تھرو کی بھی امید نہیں ہے۔
ہم ذرا سوچیں تو سہی کہ ہمارے ملک کو جس 17ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے
وہ تو ہم ایک دریائے چناب کے پانی سے حاصل کر سکتے ہیں تو پھر ہم کشمیر سے
اپنا طے شدہ پانی کا حق حاصل کرنے میں کیوں پس و پیش اور لیت و لعل سے کام
لے رہے ہیں۔
اب بھی مہلت باقی ہے کہ ہم آنکھیں کھولیں۔ بھارت کی سب سے خطرناک آبی
جارحیت کے ساتھ ساتھ اگر ملک بھر میں خصوصاً پہاڑی علاقوں میں درختوں کا
قتل عام اور چوری روک کر ہم ساری قوم کو سنجیدگی سے مسئلہ کے حل کے لئے
شجرکاری پر بھی لگا دیں تو اس سے بھی ملک کے ماحول و معیشت دونوں کو فائدہ
پہنچ سکتا ہے۔ کشمیر کے پانی کے منبع ہونے کی وجہ سے اس کے گھنے جنگلات ہیں
جنہیں بھارت اور اس کی افواج مسلسل تباہ و برباد کر رہی ہیں اور پانی خشک
بھی ہوتا چلا جا رہا ہے۔، ہمیں اس پر بھی آنکھیں کھولنی چاہئیں اور اپنے طے
شدہ حق پر محض مذاکرات کے آغاز پر خوش ہونے کے بجائے وہ حربہ اختیار کرنا
اور آگے بڑھنا ہو گا جس سے بھارت راہ راست پر آئے ہو اور مسائل حل ہوں۔
|