یہ 1988-89کی بات ہے،سرینگر میں ایک انڈین ٹی وی میر واعظ
مولوی محمد فاروق کا انٹرویو کر رہا تھا۔ انڈین ٹی وی چینل کا نمائندہ
مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کے رجحانات کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہا
تھا۔انڈین صحافی کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان مسلح تحریک کا
راستہ اختیار کر رہے ہیں،جو نہایت خطرناک بات ہے۔اس پر میر واعظ محمد
فاروق(مرحوم) نے اس انڈین صحافی سے کہا کہ کشمیری بچے ہمارے اپنے بچے
ہیں،ان سے متعلق آپ کو کیوں فکر ہے؟ وہ جو کر رہے ہیں وہ ہمارا اپنا معاملہ
ہے،آپ کو اس پر پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کے نوجوان
بھارت سے آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کی طرف راغب ہو رہے تھے۔اس وقت کئی بڑی
عمر کے لوگ ان نوجوانوں سے کہتے تھے کہ تم خود بھی مرو گے اور ہمیں بھی
مروائو گے،لیکن پھر مسلح جدوجہد پر آمادہ کشمیری نوجوانوں کا عزم اور جرات
دیکھ کر وہ بھی حمایت کے انداز میں خاموش ہو گئے۔اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کے
نوجوانوں نے بھارت سے آزادی کے لئے مسلح جدوجہد شروع کرتے ہوئے
جدوجہد،قربانی اور بہادری کی ایک نئی داستان رقم کی۔انہی دنوں مقبوضہ کشمیر
کے آزادی پسند سیاسی رہنمائوں کی طرف سے یہ کہا جانے لگا کہ ہمارے نوجوان
آزادی کی مسلح جدوجہد کر رہے ہیں اور ہم سیاسی میدان میں ان کی نمائندگی کر
رہے ہیں۔گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر کے چند سٹو ڈنٹس سے مقبوضہ کشمیر کی
صورتحال اور نوجوانوں کے رجحانات پر تفصیلی بات کرنے کا موقع ملا۔مقبوضہ
کشمیر کے ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی امنگوں اور خواہشات کی
روشنی میں اچھی اور موثر رہنمائی کے فقدان کی وجہ سے حریت رہنما مقبوضہ
کشمیر میں اپنی ساکھ سے محروم ہو رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں سے
تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ اب مقبوضہ کشمیر کے نوجوان
حریت کانفرنس کے بجائے بھارت کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے والے کمانڈروں کو
اپنا رہنما تصور کرتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے آزاد کشمیر،پاکستان کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں
کشمیر سے تعلق رکھنے والی کئی شخصیات کام کر رہی ہیں لیکن کشمیر کاز کے لئے
انفرادی سطح پر کام کرنے اور اشتراک عمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ غیر منظم
انفرادی کوششیں غیر موثر ثابت ہو ئی ہیں۔حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر کے
رہنمابھارت کے ریاستی جبر ،ظلم کی وجہ سے پابندیوںکے شکار ہیں ۔تاہم آزادی
پسندکشمیری حلقوں کی طرف سے حریت کانفرنس کے طریقہ کار،کاکردگی پر تنقید
سامنے آتی رہتی ہے۔باہمی انتشار کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے حریت کانفرنس
میں شامل کئی تنظیموں کے نام تبدیل ہوتے رہے،مختلف تنظیموںمیں شامل کئی
افرادنے اپنی تنظیموں سے الگ ہو کر اپنی نئی تنظیمیں بنا لیں، پھر بھی حریت
کانفرنس کے میر واعظ گروپ یا گیلانی گروپ میں شامل رہے،چند ایک جوکسی گروپ
میں شامل نہ رہے ،وہ بھی'' کنٹرول اور کمانڈ'' کے اسی دائرہ کار میں چلے آ
رہے ہیں جس میں حریت کے دونوں گروپ بھی پابند ہیں۔اسی صورتحال میں حریت
کانفرنس میں شامل تنظیموں (جن میں کئی کو بجا طور پر ٹانگہ پارٹی کہا جا
سکتا ہے)کے حوالے سے اس تاثر کو تقویت حاصل ہوئی کہ یہ ایک مفاداتی کلب
ہونے کی جانب راغب ہے۔جن حریت پسند سیاسی تنظیموں نے اسی کی دہائی میں
کشمیریوں کومطالبہ آزادی کے پلیٹ فارم اکٹھا کیا تھا،وہ تنظیمیںکئی تنظیموں
میں تقسیم ہو کر اپنی ساکھ سے محروم ہو چکی ہیں۔کشمیری عوام کی حمایت مسئلہ
کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے جدوجہد آزادی کے ساتھ ہے،کسی تنظیم کے لئے
نہیں۔کشمیریوں کی تحریک بھارت سے آزادی کی جدوجہد ہے لیکن ''حصہ بقدر جسہ''
کے مصداق اپنے اپنے'' حصے'' کے لئے نت نئی تنظیموں کا روپ دھارنابعض افراد
کے کاروباری پیشے کے طور پر نظر آ تا ہے۔جن افراد کو تادیبی کاروائی کے
ذریعے تحریکی ذمہ داریوں سے الگ کر دینا چاہئے تھا،انہیں گلے سے لگائے
رکھنا بھی حریت کانفرنس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچانے کا ایک بڑا محرک ہے۔
شاید حریت کانفرنس ''کمانڈ اینڈ کنٹرول'' کی پابندیوں میں اتنی مجبور ہو
چکی ہے کہ ایسے افراد کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کاروائی سے قاصر ہے جو
تحریک کو خراب اور بدنام کرنے کا باعث ہیں۔حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر کے
سینئر رہنمائوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کی تحریک مزاحمت کو نتیجہ
خیز بنانے کے اقدامات اور عوامل پر توجہ دیں۔لیکن ایسا اس وقت تک ہونا ممکن
نظر نہیں آتا کہ جب تک کہ اخلاص و کردار کو اہمیت نہ دی جائے۔یہ بھی سینئر
حریت رہنمائوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی،مسئلہ کشمیر کے
حتمی حل کے لئے ایک ایسا وسیع پلیٹ فارم تشکیل دینے پر توجہ دیں جس میں
پاکستان اور مختلف ملکوں میں سرگرم آزادی پسند کشمیری حلقوں کو یکجاء کیا
جا سکے۔حریت کانفرنس سے وابستہ جو افراد اپنی سرگرمیوں اورکردار سے کشمیر
کاز کے ساتھ اپنا اخلاص ظاہر کرنے سے بھی معذور ہیں،ان افراد کو پچھلی صفوں
میں بٹھانا وقت کا ایک اہم تقاضہ ہے۔البتہ اگر ''کمانڈ اینڈ کنٹرول'' کی
پابندیاں انہیں ایسا کرنے کا اختیار نہیں دیتیں تو اپنی مجبوریاں اور
پابندیاں ظاہر کرنے میں انہیں کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہئے۔ حریت
رہنمائوںاور ان کی تنظیموں کا رابطہ کشمیری عوام ہی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر
کے منصفانہ حل کے لئے قلمی محاذ پر سرگرم حلقوں سے بھی کم سے کم ہوتے ہوئے
خاتمے کی دہلیز تک آ چکا ہے۔ کشمیری عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی رہنمائی
کی موجودہ کوششیں غیر موثر چلی آ رہی ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ حریت رہنما
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو موثر بنانے کے اقدامات کی بصیرت اور اہلیت
رکھتے ہیں یا نہیں۔ |