متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
امیر: عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ
بانیان پاکستان کیسا پاکستان چاہتے تھے۔؟ یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے اور
اس کا جواب اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ تقسیم برصغیر کی المناک
داستان جان گسل حالات میں پیش آئی۔ اس پاک خطے کو حاصل کرنے کے لیے بہت
قربانیاں دینی پڑیں ، ظالم سامراج نے وہ کون سا ظلم تھا جو برصغیر کے
مسلمانوں پر روا نہ رکھا ۔ ان پرلوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کا بازار گرم
کیا،ان کے محلے قصبوں،شہروں اور دیہاتوں کو لوٹا گیا۔ ان کے گھروں کو جلایا
گیا ، مساجد و مکاتب کو آگ لگائی گئی ،ہزاروں بے گناہ بچیوں کی عزت کو تار
تار کیا۔ لٹے پٹے قافلوں نیاپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے،آزادی کے متوالوں
نے سولیوں پر چڑھ کر اپنا حق چھینا ،کئی کڑیل جوان ارض پاک کے حصول کے لیے
کارزارکی پیاسی زمین کو اپنے خون سے سیراب کرتے رہے۔ شہداء نے بہتے دریاؤں
کو اپنے لہو کا خراج دیا۔ گنگا و جمنا اور راوی نے بے کسوں کے خون کی سرخ
چادر اوڑھی ،کئی سہاگ سسکیوں میں گم ہو گئے۔ہزاروں بے گناہ شیر خوار بچے
موت کی وادی میں رقصاں ہوئے ، پاک گلشن کو سینچنے کے لیے جذبہ آزادی سے
سرشار لہو کی گرمائش کو حالات کے ستم ٹھنڈا نہ کر سکے۔برصغیر کا مسلمان
سمجھتا تھا کہ زندہ قوموں کیلئے غلامی سوہانِ روح ہے۔ اس کے لیے وہ ہر طرح
کی ذہنی کوفت ، قلبی اذیت، بے چینی، بے قراری اور درد و کرب کو ہنس کر
برداشت کرتے رہے۔
برصغیر میں لگنے والی آگ بہار سے لے کر مشرقی پنجاب تک کو جھلسا رہی
تھی۔پلاسی کے میدان سے لے کر سرنگا پٹم تک اورپانی پت سے لے کر کرنال تک کی
سرزمین لہو لہو تھی ،1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر تحریک خلافت تک ، تحریک
ریشمی رومال سے لے کر تحریک ترک موالات تک سلطان محمود غزنوی،سلطان محمد
غوری،ظہیر الدین محمد بابر،احمد شاہ ابدالی، شیخ الہند مولانا محمود حسن ،
حافظ ضامن شہید، مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ
جیسے مایہ ناز جری جرنیلوں کے وفادار سپاہیوں کی انتھک محنت رنگ
لائی۔اورغلامی کی زنجیریں آزادی کے نعروں کی گونج سے ٹوٹنے لگیں۔
بابائے قوم نے برصغیر کے مسلمانوں کو جس آزادی کے لیے تیار کیا اور جس کے
حصول کے لیے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ظہور پذیر ہوئی۔ اس کے پیچھے جو قائد
کی سوچ کار فرما تھی وہ اسلامی تشخص،اسلامی تہذیب و تمدن ،اسلامی فکرونظر
کے فروغ اور تحفظ پر مبنی ہے۔
چنانچہ اسی سلسلے کی ایک کڑی قرار داد پاکستان ہے جو 23مارچ 1940 کو لاہور
میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کو حاصل کرنے کے لئے پیش کی گئی اور جسے
سب نے متفقہ فیصلے سے قبول کرلیا۔ اس قرارداد کے ذریعے پہلی مرتبہ یہ واضح
طور پر اعلان کیا گیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، جو ایک ساتھ
نہیں رہ سکتیں۔ ان کا مذہب، عقیدہ اور رسم و رواج سب مسلمانوں سے الگ ہیں۔
وہ ایک الگ وطن چاہتے ہیں جہاں وہ کھل کے آزادی کے ساتھ سانس لے سکیں اور
اﷲ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرکے زندگی گزار سکیں۔ اس
قرارداد میں بہت واضح الفاظ میں یہ کہہ دیا گیا تھا:’’آل انڈیا مسلم لیگ کے
اس اجلاس کی یہ متفقہ رائے ہے کہ اس ملک میں اس وقت تک کوئی دستوری خاکہ
قابل عمل یا مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا جب تک کہ وہ درج ذیل
اصولوں پر مرتب نہ کرلیا جائے۔ یعنی جغرافیائی لحاظ سے ملحقہ علاقے الگ خطے
بنا دئیے جائیں اور ان میں جو علاقائی ترمیمیں ضروری سمجھی جائیں، کرلی
جائیں تاکہ ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں انہیں یکجا
کرکے آزاد ریاستیں بنا دی جائیں، جو خود مختار اور مقتدر ہوں۔‘‘
23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان اپنی ابتدائی شکل میں سامنے آئی جسے
بعدازاں قائداعظم اور مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی کے کنونشن 1946ء نے بہتر
اور واضح شکل دی۔ اس قرارداد میں جو مطالبہ پیش کیا گیا تھا اس کی بنیاد پر
مسلم لیگ نے 1946ء کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی اور 14 اگست
1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
حصول وطن کے مقاصد کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور بانی پاکستان کے افکار کو
اگر قریب سے دیکھا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ ایک آزاد ،
خود مختار اسلامی ، نظریاتی ،فلاحی اور مثالی ریاست کے خواہاں تھے۔ جس کا
اظہار انہوں نے جابجا اپنی تقاریر میں کھل کر کیا۔
چند تاریخی حقائق پیش خدمت ہیں :
17 فروری 1938ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں اسٹریچی ہال میں ببانگ دہل
یہ اعلان فرمایا :’’ مجھے اپنے اسلامی کلچر اور تہذیب سے بہت محبت ہے۔ میں
ہرگز نہیں چاہتا کہ ہماری آنے والی نسلیں اسلامی تمدن اور فلسفہ سے بالکل
بیگانہ ہو جائیں۔‘‘
14 دسمبر 1942ء کوکراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب
کرتے ہوئے فرمایا : ’’پاکستان کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ پاکستان میں
اﷲ کے دین کا نظام قائم ہوگا۔‘‘
19 مارچ 1944ء پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کی سالانہ کانفرنس میں خطاب
کرتے ہوئے فرمایا :’’ ہمیں ہلالی پرچم کے علاوہ کوئی اور پرچم درکار نہیں۔
اسلام ہمارا رہنما ہے جو ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔‘‘
21 نومبر 1945ء سرحد مسلم لیگ کانفرنس پشاورمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا
:’’مسلمان ؛پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ اپنے ضابط? حیات ، اپنے
تمدنی ارتقاء ، روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کر سکیں۔‘‘
24 نومبر1945ء مردان کے جلسہ عام سے خطاب کے دوران فرمایا :’’پاکستان کی
آزاد مسلم مملکت کے حصول میں بھی اپنا کردار ادا کریں جہاں مسلمان اسلامی
فرمانروائی کا نظریہ پیش کر سکیں گے۔‘‘
26 نومبر 1946ء کو سید بدرالدین احمد کو اپنی قیام گاہ پر ایک تفصیلی
انٹرویو دیا جس میں آپ نے برملا کہا:’’دنیا کی تمام مشکلات کا حل اسلامی
حکومت کے قیام میں ہے۔ اسی قیام کی خاطر میں لندن کی پر سکون زندگی کو رد
کر کے عظیم مفکر علامہ اقبال کے اصرار پر واپس آگیا۔ ان شاء اﷲ پاکستان کے
نظام حکومت کی بنیاد لا الہ الا اﷲ ہی ہو گی اور اس پر ایسی فلاحی اور
مثالی سٹیٹ قائم ہوگی کہ دنیا اس کی تقلید پر محبور ہو جائے گی۔‘‘
7 جولائی 1947ء کو لندن مسلم لیگ کے نام پیغام میں فرماتے ہیں: ’’خدا کے
فضل سے ہم دنیا میں اس نئی عظیم خود مختار اسلامی ریاست کی تعمیر مکمل
اتحاد ، تنظیم اور ایمان کے ساتھ کر سکیں گے۔ ‘‘
19 دسمبر 1946ء کو مصری ریڈیوپر خطاب کے دوران فرمایا:’’ہم چاہتے ہیں کہ
ایک آزاد خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں اور ان تمام اقدار
کا تحفظ کریں جن کا اسلام علمبردار ہے۔‘‘
14 دسمبر 1947ء کو آل انڈیا مسل لیگ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :’’
میں صاف طور پر واضح کر دوں کہ پاکستان اسلامی نظریات پر مبنی ایک مملکت
ہوگی۔ ‘‘
14 فروری 1948ء میں سبی دربار بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’ میرا
ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو قانون عطا کرنے والے
پیغمبر اسلام محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمارے لیے بنایا۔ ہمیں چاہیے کہ
اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر
رکھیں۔‘‘
21فروری 1948ء کو افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’ اب آپ کو اپنے ہی
وطن عزیز کی سرزمین پر اسلامی جمہوریت ، اسلامی معاشرتی عدل اور مساوات
انسانی کے اصولوں کی پاسبانی کرنی ہے۔‘‘
پاکستان کے بارے میں شاعر حریت علامہ محمد اقبال کے افکار بھی ملاحظہ
فرمائیں :
29دسمبر1930ء کو الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبہ صدارت
پیش کرتے ہوئے فرمایا:’’برصغیر ہندوستان میں بھانت بھانت کے لوگ اور مختلف
مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں چنانچہ مسلمان اپنے لیے مسلم انڈیا کے قیام
کے مطالبے میں پورے پورے حق بجانب ہیں۔ ‘‘
28مئی 1937ء کو علامہ اقبال نے قائد اعظم کو تفصیلی خط لکھا جس میں انہوں
نے کہا کہ ’’ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے قانون اور اسلامی شریعت میں اس
مسئلے کا حل خود موجود ہے مگر شریعت کے نفاذ اور ترقی کے لیے ہندوستان میں
ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے قیام کی ضرورت ہے۔‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے نقشے پرایک آزاداسلامی جمہوری نظریاتی فلاحی
مملکت پاکستان کی صورت میں بن کر ابھری،جس کیحصول اور قیام کیلئے مسلمانان
برصغیر نے قائد اعظم محمد علی جنا ح کی قیادت میں ایک طویل سیاسی و جمہوری
حقوق کی بازیابی کی جنگ لڑی، یہ اْن نیک جذبوں اور پاکیزہ آرزؤں کی انمٹ
تاریخ ہے جس نے برصغیر کی کئی صدیوں پر محیط ظلمت شب کا سینہ چیر کر آزادی
کا سورج طلوع ہوا۔
23 مارچ کادن ہمیں اپنے اس عہد کی یاد دلاتا ہے کہ جس دن ہم نے بحیثیت قوم
یہ مصمم عزم کیا تھا کہ ہم آزاد جمہوری ریاست حاصل کر کے اسلام کے دینی،
معاشی اور معاشرتی نظام کو صحیح معنوں میں نافذ کریں گے۔ |