برصغیر میں مسلمانوں پر 1857 کی جنگ آزادی کے بعد زمین
تنگ کر دی گئی اس جنگ میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ میں حصہ
لیا جب جنگ میں ناکامی ہوئی تو اس جنگ کے سارے منفی اثرات مسلمانوں پر پڑے
ہندو انگریزوں کے دوست بن کران کے قریب ہوگئے اس طرح مسلمانوں کے خلاف
انگریزوں نے انتقامی کاروائی شروع کردی مسلمانوں کی
جائیدادیں،کاروبار،املاک،عزت وناموس غیر محفوظ ہوگئے تمام سرکاری مراعات سے
مسلمانوں کو بے دخل کردیا گیا حتیٰ کہ مسلمانوں پر سرکاری ملازمتوں کے
دروازے بند کردئیے گئے مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لئے انگریزوں نے
مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن کردیا مسلمانتعلیم،معیشت جیسے
اہم شعبوں میں پیچھے رہنے لگے ان حا لات میں مسلمانوں نے دو طرح کے تعلیمی
ادارے کھولے ان میں ایک قسم سرسید احمد خان کی قیادت میں سکول وکالجزجبکہ
دوسری دارالعلوم دیوبند کی طرز پردینی مدارس کی تھی ،برصغیر میں ہندوؤں کی
تعصبانہ ذہنیت نے مسلمانوں کو جنگ آزادی میں بے وفائی کے بعد بھی معاف نہ
کیا مسلمانوں کے خلاف مختلف دور میں مختلف متعصبانہ تحریکیں جاری وساری
رکھیں جن کاکام مسلمانوں کا استحصال اور مسلمانوں کو جبری ہندو بنانا تھا
جس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں نے باقاعدہ الگ وطن کے قیام کے لئے
جدوجہد شروع کردی تاکہ نئی قائم کردہ ریاست میں اسلام کا عادلانہ نظام
خلافت کوقائم کرکے مسلمان اپنی زندگیاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق
گزار سکیں اور عالم اسلام کی قیادت وسیادت یہیں سے ممکن ہوسکے ۔اس سلسلے
میں اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب مولانا اشرف علی تھانویؒ،سر سید احمد
خانؒ،مولانا عبدالحلیم شررؒ،مولانا محمد علی جوہرؒ،مولانا مودودیؒ جیسی قد
آور شخصیات نے ایک الگ اسلامی ریاست کے قیام کے حق میں لب کشائی کرتے ہوئے
ا سے مسلمانوں کی اولین ضرورت قراردیا ایسی دیگر اہم شخصیات کی عبقری نظروں
نے جب اس ضرورت پر زور دیاتو قافلۂ آزادی چل پڑا 29 دسمبر 1930 کو شاعر مشر
ق علامہ محمد اقبال ؒ نے الگ وطن کا تصور پیش کرکیا۔ شروع شروع میں لوگوں
نے اسے دیوانے کا خواب قرار دیا مگر ایسی باتیں کرنے والوں کو کیا خبر تھی
کہ رب ذوالجلال برصغیر کے مسلمانوں کے مسلسل وعدے (کہ ہم نئی سلطنت کو
اسلامی نظام سے آراستہ کریں گے) کے بعدقائدینؒ تحریک پاکستان جیسی ہستیوں ؒ
کے ہاتھوں مدینہ منورہ کے بعد اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت کو
وجود میں لانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ قافلہ اپنی منزل کی جانب بڑھتا ہی چلا
جا رہا تھا ،آخر کار 23 مارچ 1940کو الگ وطن کے لئے لاہور کے( منٹو پارک)
مینار پاکستان میں ابوالقسیم مولوی فضل الحق نے قرارداد پاکستان پیش کی
جبکہ چوہدری خلیق الرحمان نے پر جوش تقریر کرکے اس کی تائید کی ۔ان کے بعد
مولانا ظفر علی خاں،سردار اورنگ زیب خان ،سر حاجی عبداﷲ ہارون،نوا ب
اسمٰعیل خان ،قاضی محمد عیٰسی نے بھی اس قرارداد کی تائید کی۔اس قرارداد کے
بعد تحریک پاکستان اپنے زور شور سے شروع ہوگئی ہر طرف سے یہی صدا ئیں سننے
کو مل رہی تھیں کہ لے کے رہیں گے پاکستان،بن کے رہے گا پاکستان،پاکستان کا
مطلب کیا ؟ لاالہ الااﷲ۔۔۔۔ہماری منزل آزادی ۔۔۔۔۔برصغیر کے مسلمانوں کی
مسلسل جدوجہد کے باعث آزادی14 اگست 1947 کو نصیب ہوئی قیام پاکستان کے بعد
ہمارا پیارا وطن اپنے محسن ومربی قائد اعظم ؒ سے جلد ہی محروم ہوگیا جس کے
باعث پاکستان اپنے قیام کے مقصد (اسلامی نظام کے قیام) سے دور ہوتا چلا گیا
یہاں تک کہ ہم قیام پاکستان کے مقصد سے اتنے دور ہوئے کہ جس انگریز سامراج
سے ہمارے بزرگوں نے آزادی حاصل کی تھی آج پھر ہم ان کے رحم وکرم پر آگئے
ہماری داخلہ وخارجہ پالیسیاں،معیشت وتجارت،حکومت وتہذیب وتمدن انہی
انگریزوں کی عکاس ہیں وہی سامراجی طاقتیں آج دنیا کے خود سے بنائے ہوئے ۔قانون،
اصول اور ضابطے کو اپنے ہی پاؤں تلے روندتے ہوئے مملکت خدادا د پر ڈرون
حملوں کی بارش کر چکے جس کا سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے پاکستان کے مطالبے
کے باوجود ڈرون حملوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا انہی ڈرون حملوں کے
باعث پاکستانی قوم کو تاریخ کا سب سے بڑا نقصان برداشت کرنا پڑا ،ہمارے
گلی،محلے،بازار،سرکاری ونیم سرکاری دفاتر بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے لت
پت ہوگئے پھر بھی امریکہ و اسرائیل کو ہم پر اعتماد نہیں وجہ یہ ہے کہ دشمن
کبھی دوست نہیں ہوتا۔۔۔۔ اﷲ ورسول ﷺ کا اٹل فیصلہ ہے کہ سود حرامہے کسی
قیمت پر اس کے ذریعے لین دین نہیں کرنا لیکن آج تک ہم سود جیسی لعنت سے
خلاصی حاصل نہیں کر سکے ،ہماری قومی زبان آج انگریز سامراج کے تہذیبی حملے
کے باعث اپنے ہی ملک میں لاوارث،یتیم ہوکررہ گئی ہے اسے سرکاری
دفاتر،سرکاری ونجی تعلیمی اداروں سے بے دخل کردیا گیا ہے،ہمارے بے ضمیر
ڈکٹیٹر حکمران چند ڈالروں کے عوض قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فروخت
کرنے اور بعد کے جمہوریت پسند حکمران عافیہ کی رہائی پر مجرمانہ خاموشی کے
جرم کا ارتکاب کر چکے،اﷲ سے کئے گئے وعدے نظام الٰہیہ کا قائم نہیں کیا جا
سکا کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟۔ اے میر ی قوم ! اگر ہم نے اپنے اسلامی طرز حیات ،نظام
حکومت سے تہی دامن ہی رہنا تھا تو الگ پاکستان کی کیا ضرورت تھی؟ اے میری
قوم مجھے تو ایسے محسوس ہورہا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت جو وعدہ ہم نے اﷲ
سے کیا اسے وفا نہ کرنے پر ہم بحیثیت قوم اﷲ کی نارضگی کا شکار ہوگئے ہیں
قائدین تحریک پاکستان کی روحیں بھی تو ہم سے آج خفا نظر آتی ہیں اگر ہم نے
قیام پاکستان کا مقصد پورا نہ کیا تو اﷲ ورسول ﷺ،قائدین تحریک پاکستان ہمیں
کسی قیمت پر معاف نہیں کریں گے ۔قیامت کے روز ہمیں شرمندگی،افسوس ،ناکامی
کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔۔۔ مجھے تو قراداد پاکستان کی پکار قائدین
تحریک پاکستان کی روحوں کی جانب سے ہمہ وقت آرہی ہے۔کیا ہے کوئی سن کر اس
صدا کوحکمرانوں،ارباب اقتدار،پاکستان کے سیاہ وسفید کے مالک سیاست دانوں تک
پہنچانے والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
|