پاکستان میں ہر سال 23 مارچ کا دن پوری پاکستانی قوم ’’
یوم پاکستان‘‘ کے طور پرشاندار طریقے سے مناتی ہے ۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور
کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک جہاں اب مینار پاکستان بھی موجود ہے) میں
آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر ایک تاریخی
قرارداد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں
کےلیے ایک علیدہ وطن کا مطالبہ کیا ، یہ یاد رہے کہ آج جس وطن ’’پاکستان‘‘
میں ہم رہ رہے ہیں درحقیقت یہ 90 سال کی جہدوجہد کا نتیجہ ہے۔ برصغیر میں
مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا انگریز پورے ہندوستان پر قابض ہوچکے
تھے، 1857 میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی لیکن بدقسمتی سے وہ ناکام ہوگئی۔
انگریزوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کرلیں اور لاکھوں
مسلمانوں کو بے دردی سے پھانسی دے کرموت کے گھاٹ اتار دیا ۔ 1906میں ڈھاکہ
کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی گئی اور پھر اسی آل انڈیا مسلم لیگ
نے تحریک پاکستان کی بنیاد ڈالی اور 14 اگست 1947 کو قائداعظم محمد علی
جناح کی رہنمائی میں پاکستان کا وجود عمل میں آیا، جس کا مقصدمسلمانوں کو
تعلیمی،معاشرتی،سیاسی اور معاشی طور آگے بڑھانا تھا۔
اس سال 23 مارچ 2017کو پاکستان نےپہلی مرتبہ ’’یوم پاکستان‘‘ نئے انداز
اورولولے کے ساتھ منایا۔ 23 مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والی مسلح افواج
کی پریڈ میں چین، سعودی عرب اور ترکی کے فوجی دستوں نے بھی شرکت کی ، اس کے
علاوہ جنوبی افریقہ کی فوج کے سربراہ مہمان خصوصی کے طور پریڈ کے موقعہ پر
موجود تھے۔ 23 مارچ کی اس تقریب نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان
تنہا نہیں ہے اور اس کے ساتھ ہی پڑوسی بھارت جو آئے دن پاکستان کے خلاف
غیر اخلاقی سفارتی، سیاسی حرکتوںمیں ملوث رہنے کے علاوہ سرحدوں پر فوجی
خلاف ورزیاں کرتا رہتا ہے اور پاکستانی نہتے عوام پر گولیاں چلاتا رہتا ہے
اس کو یہ واضح پیغام گیا ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو اس کی کمزوری نہ
سمجھا جائے۔ پاکستان کے صدر، وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ بری، بحری اور ہوائی
افواج کے سربراہان کی ایک اسٹیج پر موجودگی بھی ایک واضح پیغام تھا کہ
پاکستان کی حفاظت کےلیے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت میں بھرپور اتحاد
ہے۔ پاکستانی صدر ممنون حسین نے اس موقعہ پر اپنے خطاب میں کہا کہ’’پاکستان
کا دفاع مضبوط اور ناقابل تسخیر ہے۔ ہماری روایتی و ایٹمی طاقت کا مقصد
عالمی اور علاقائی امن کو یقینی بنانا ہے اسی لئے ہم پوری دنیا خاص طور پر
اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور دوستی چاہتے ہیں،پاکستان بھارت سےمذاکرات
کرنے کو تیار ہے، تاہم بھارت کو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے
مطابق حل کرنا ہو گا‘‘۔
تیس(23)مارچ کو یوم پاکستان کی مناسبت سے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں
ایک تقریب منعقدہ ہونی تھی۔ اس تقریب میں شرکت کے لئے پاکستانی ہائی کمیشن
نے کشمیری حریت رہنمائوں کو جن میں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق،
یاسین ملک، شبیر شاہ اور آسیہ اندرابی شامل ہیں دعوت دی تھی۔ بھارت میں
کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی کی اپنی پاکستان دشمنی میں سب ایک جیسے ہی
ہیں، بھارتی حکومت نے یوم پاکستان سے پہلےہی ان رہنماوں کو گرفتار یانظر
بند کردیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ’’کیا بھارت ان رہنماوں کو گرفتار کرکے کشمیر
ی عوام کی آزادی کی جہدوجہد کو روک سکے گا؟‘‘۔ مقبوضہ کشمیرکے عوام اور
پاکستانی عوام کا تعلق دلوں کا ہے ،جس وقت اسلام آباد میں قومی پرچم
لہرایا جا رہا تھا تقریباً اسی وقت سرینگر میں بھی یوم پاکستان کی ایک
تقریب کا انعقاد کیا گیا، پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا اور پاکستان کا
قومی ترانہ گایا۔ جبکہ بھارت میں یوم پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے
پاکستانی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ آزادی کی تحریکوں کو دبایا تو جا سکتا
ہے مگر انہیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق پاکستان
ہائی کمشنرعبدالباسط کے بیان کو بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت
قراردیا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے
کہ کشمیرسے متعلق پاکستانی ہائی کمشنرکا بیان سفارتی آداب کے منافی
اوربھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
اگر 23 مارچ 2017 کو پاکستان ہائی کمشنرعبدالباسط کا بیان بھارت کےداخلی
معاملات میں مداخلت ہے تو پھر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 15 اگست 2016
کو بھارت کی یوم آزادی کے موقع پر نئی دہلی کے لال قلعے میں اپنی تقریر میں
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم کا ذکر کرنے کے بجائے کہا کہ پاکستان،
بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر نام نہاد ڈھائے جانے والے مظالم
کا جواب دے، کیا یہ بیان بد ترین جھوٹ ،سفارتی آداب کے خلاف اور پاکستان
کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت نہیں تھی۔ پاکستان کو تو جواب دینے کی
ضرورت نہیں تھی کیونکہ پاکستان میں کسی بھی غیر ملکی صحافی کو کسی بھی جگہ
جانے سے نہیں روکا جاتا ہے،لیکن بھارت میں ایسا ہر گز نہیں ہے اور خاصکر
غیر ملکی میڈیا کو کشمیر کے قریب بھی نہیں جانے دیا جاتا ہے۔ نریندرمودی کے
اس پاکستان دشمن بیان پر خود بھارت میں بھارت کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر،
سابق کانگریسی وزیرداخلہ پی چدم برم اور سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید سمیت
کئی اہم شخصیات نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بھارت کو ایک
ایسے علاقے پر بات کرنے کا کوئی حق نہیں جس پر اس کا کوئی دعویٰ ہی نہیں
البتہ کشمیر کے حوالے سے اسے خود اپنی خبر لینی چاہیے‘‘۔
بھارت ہو یا افغانستان، طالبان کے دہشتگردہوں یا داعش کے ایک بات سمجھ لیں
کہ پاکستان کے تحفظ کےلیے پوری پاکستانی قوم اپنے اپنے اختلافات بھلاکر ایک
قوم بننے میں دیر نہیں کرتی، اسکی مثال 1965 کی پاک بھارت جنگ کے علاوہ
پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے خلاف سوائے چند سہولت کاروں کے پوری قوم
متحد ہے۔ گذشتہ ماہ فروری میں ملک کےچاروں صوبوں میں دہشتگردی کی آٹھ
چھوٹی بڑی وارداتیں ہوہیں ، جن میں لاہور اور سہون شریف کی بڑی دہشتگردیاں
بھی شامل ہیں، ان دہشتگردی کی وارداتوں میں ایک سو سے زیادہ افراد جاں بحق
اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ جبکہ دوسری طرف لاہور میں5 مارچ کو پاکستان سپر لیگ
کا فائنل ہونا تھا اور ہوا، پورا پاکستان یہ کہہ کر اس میچ میں بھرپور شریک
تھا کہ یہ میچ دراصل پاکستان اور دہشتگردوں کے درمیان ہے اورپھرپوری دنیا
نےدیکھا کہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی
اوردہشتگرد وں کو ذلیل شکست کا سامنا ہوا۔ پاکستان بھارت سے مذکرات کے
زریعے ہی کشمیر سمیت تمام مسائل پر پرامن مذاکرات کرنا چاہتا ہے لیکن بھارت
کی موجودہ حکومت تو مذہبی دہشتگردوں کی حکومت ہے جس کو امن سے کوئی دلچسپی
نہیں۔
اس سال 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقعہ پر اسلام آباد کے علاوہ پورئے
پاکستان میں پاکستانی کے فوجی جوانوں کی پریڈ کے علاوہ پاک فضائیہ کے لڑاکا
طیاروں نے شاندار فلائی پاسٹ کا مظاہرہ کیا۔ کراچی میں بانی پاكستان
قائداعظم محمد علی جناح جبكہ لاہور میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال كے
مزاروں پر گارڈز كی تبدیلی كی تقریبات منعقد ہوئیں۔ سال 2017 کا یوم
پاکستان بلاشبہ ایک شاندار دن تھا، امید ہے اگلے سال اس دن کو منانے کےلیے
اور بھی دوست ممالک اپنے فوجی دستوں کے ساتھ شرکت کرینگے۔ اس شانداریوم
پاکستان کی کامیابی پرپاکستان کی سول اور فوجی قیادت کے علاوہ جن اداروں نے
اس میں کسی بھی طرح سے حصہ لیا تھا ان سب کو پاکستانی عوام کی جانب سے بہت
بہت مبارکباد۔پاکستان زندہ باد۔
|