کیا افغان سرحد کی بندش سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟

 یہ سرحد ایک ماہ سے مکمل طورپر بند ہے۔نہ صرف بڑے راستے طورخم اور چمن بلکہ ان کے درمیان واقع کئی چھوٹے گیٹ بھی بند کردیئے گئے ہیں۔اس طرح کا قدم صرف اسی وقت اٹھایا جاتا ہے جب حالات بہت زیادہ بگڑ جائیں۔اس سے دونوں طرف کے تاجروں کو کروڑوں کا نقصان روزانہ ہورہا ہے۔سرحد کے دونوں طرف کے عوام بھی بہت مشکل میں ہیں۔متا ثرہ لوگوں کی تعداد کا اندازہ ان 2دنوں سے لگایا جا سکتا ہے جب سرحد صرف پیدل عبور کرنے والوں کے لئے کھولی گئی۔کل50۔ہزار افراد ایک ملک سے دوسرے ملک گئے۔دونوں ملکوں میں اختلافات بڑھنے سے پہلے ہی تجارت2.5۔ارب ڈالر سے کم ہوکر1.3۔ارب ڈالر ہوچکی تھی۔اس بندش کے تجارت پر قلیل اور طویل مدتی اثرات ہونگے۔افغانستان کے پاس متبادل راستہ بندر عباس کا ہے۔اگرچہ یہ لمبا راستہ ہے لیکن اور کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔اس صورت حال سے حکومت پاکستان کا بھی مالی نقصان ہے۔کل 500ٹرک روزانہ گزرتے ہیں اور ہر ٹرک پر10۔ہزار روپے ڈیوٹی ملتی ہے۔تجارت کے علاوہ عام عوام پر بھی اس کے برے اثرات سرحد کے دونوں طرف ہونگے۔غریب لوگ روزی روزگار کے لئے ،علاج معالجہ اور طلباء تعلیم کے لئے پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔پاکستانی حکومت کے قدم سے عوام میں ہمدردی نہیں پیدا ہوگی۔خیبر ایجنسی کے مقامی جرگہ نے ایف سی کے کرنل سے ایسے ہی مسائل پر گفتگو کی ہے۔پاکستان کا فوری مطالبہ 76۔دہشت گردوں کے حوالے کرنے سے ہے۔ایسی ہی فہرست افغان حکومت نے پاکستان کو دی ہے۔افغان حکومت کی ایک بات بین الاقوامی طورپر تسلیم کی جاتی ہے۔کہ 9۔موجودہ افغان حکومت کی رٹ پورے ملک پر نہیں ہے۔لیکن پاکستان یہ بھی ثابت کرتا ہے۔کہ مطلوب دہشت گردوں کے روابط افغان خفیہ ایجنسیوں سے بھی ہیں۔اس دفعہ پاکستان میں تباہی پھیلانے والوں کے بارے کافیHomeworkکیاگیا۔تانے بانے واضح ہونے کے بعد ہی76۔افراد کی فہرست افغان حکومت کے سپر د کی گئی۔جس جماعت الاحرار نے لاہور اور سیون شریف دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ۔اس نے ملٹری ہسپتال کابل کی تباہی کا بھی ذمہ لیا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک دونوں ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔داعش کا کردار بھی بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔موجودہ سرحدی بندش سے پاکستانی یہ بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کابل حکومت سرحدوں کے انتظام وانصرام میں بھر پور انداز سے تعاون کرے گی۔پاکستان کے نقطہ نظر سے یہی بنیادی اور اہم کام ہے۔بلوچستان کے علاقہ میں واقع افغان باڈر کے ساتھ ساتھ تو ایک لمبی خندق کھود دی گئی ہے۔لیکن صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے میں1500کلومیٹر کا کھلا باڈر مسٔلہ بنا رہتا ہے۔باڈر کی مکمل بندش تجارت کے ساتھ ساتھ انسانی المیہ بھی ہے۔دہشت گردوں کے غلط کام نے عام غریب لوگوں کو بھی متاثر کیا ہے۔اس مسٔلہ کاجائزہ ہم مشرق وسطیٰ کے حوالے سے بھی لے سکتے ہیں۔اسرائیل بھی فلسطینیوں کی نقل و حمل پر پابندی لگاتا ہے۔اسے انسانی نقطہ نظر سے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔دنیا نے ٹرمپ کے چھ مسلم ملکوں پر پابندی کے فیصلے کو بھی اچھا نہیں سمجھا۔حکومت پاکستان کو تاجروں کی بجائے غریب لوگوں کی آمدورفت کے لئے سہولتیں پیدا کرنی چاہیں۔کاغذات کی چیکنگ کے بعد عام لوگ اور طلباء کے لئے گنجائش پیدا کرنا ضروری ہے۔ہمیں صرف سرحد کے اس پار کے دہشت گردوں کو ہی سامنے نہیں رکھنا چاہئے۔بلکہ ملک کے اندر کے نیٹ ورک پر بھی نظررکھنا ضروری ہے۔اور یہ ایک خوش کن بات ہے کہ آپریشن ردالفساد کے ذریعے بڑی تعداد میں امن دشمن افراد کو گرفتار کیاجارہا ہے۔اور یہ آپریشن پورے ملک میں جاری ہے۔پنجاب کو پہلے بھی استشناء نہیں ملنا چاہئے تھا۔دہشت گردوں کے چھپنے کی جگہیں ملک کے کسی بھی صوبے میں ہوسکتی ہیں۔ایسے کاموں کے لئے سہولت کار اورمالی امداد دینے والے بھی ہرصوبے میں پائے جاسکتے ہیں۔پنجاب سے اسلحہ کا ملنا بہت کچھ ثابت کرتا ہے۔یہ بھی خبر آرہی ہے کہ ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب افغان مشیر سیکورٹی سے ملنے لندن پہنچ گئے ہیں۔سرتاج عزیز اور حنیف اتمار کی ملاقات کا انتظام برطانوی حکومت نے کیا ہے۔برطانیہ اس مسئلہ میں ثالثی کے کردار کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔ملاقات سے بہتری کی توقع ہی کی جاسکتی ہے۔فہرست کے76۔ دہشت گردوں کے مسٔلہ میں کچھ پیش رفت ہونی چاہئے۔افغان حکومت اگرنیت صاف کرکے مصمم ارادے سے آگے بڑھے تو ان لوگوں پر ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے۔امریکی ڈرونز بھی ایسے ہی لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔لہذا افغان حکومت امریکہ سے بھی تعاون مانگ سکتی ہے۔اگر امریکہ اور افغان حکومت طے کرلیں تو76۔افراد کو پکٹرنا یا مارنا کوئی مسٔلہ نہیں ہے۔سیکیورٹی کے ایک ذمہ دار افسرنے یہ بتادیا ہے کہ جب تک دہشت گرد حوالے نہیں کئے جائیں گے۔سرحد کے کھلنے کاکوئی امکان نہیں ہے۔اس دفعہ قدم اٹھانے سے پہلے حکومت پاکستان نے اپنے مالی نقصان کا اندازہ لگالیا ہے۔افغانستان سے آنے والے دہشت گرد جو جانی نقصان کرتے ہیں اس کے مقابلے میں مالی نقصان کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔یہ توہر کوئی جانتا ہے کہ سرحدی انتظام و انصرام میں دلچسپی نہ لینے کے پیچھے ڈیورنڈ لائن کا قدیم مسٔلہ ہے۔انگریزوں کے زمانے سے بہت سے معاہدوں کے بعد اب یہ تسلیم شدہ سرحد ہے۔اس مسٔلہ کو طول دینے سے افغانستان کو کوئی بھی فائدہ نہ ہے۔کرزئی جیسے لوگوں کے بیانات مسٔلہ کو بگاڑتے ہیں ۔مسٔلہ کو حل کرنے کی بجائے مزیدالجھانا قوموں کے لئے کبھی بھی فائدہ مند نہیں ہوتا۔ڈیورنڈ لائن کے مسٔلہ کو افغان پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہئے۔اسے مستقل طورپر سرحد تسلیم کرلینا ہی دونوں ممالک کے مستقبل کے لئے فائدہ مند ہے۔لندن کا کردار اپنی جگہ اہم ہے دونوں ملکوں کو اپنے اختلافی مسائل کے لئے ایران سے بھی مدد لینا چاہئے۔ایران کی بھی ایک لمبی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔پاکستان کے لئے مشرق اور مغرب دونوں طرف جھگڑوں کی موجودگی کسی بھی لہاظ سے درست نہ ہے۔مشرق کے جھگڑے تو شاید ہی کبھی حل ہوں۔مغرب کے مسائل کو جلد از جلد صاف ہونا ضروری ہے۔چند دنوں کے بعد دوبارہ غریب عوام کے لئے سرحد پر سہولتیں مہیا کرنا ضروری ہے۔اس سے سرحدی علاقے کے عوام میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہونگے۔سرحد کی بندش صرف دباؤ کے لئے ہے۔اور دباؤ اتنا ڈالنا چاہئے۔جو دوسرے فریق کے لئے قابل برداشت ہو۔دونوں ملکوں کا امن ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔

Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55091 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.