پچھلی سات دہائیوں سے٢٣مارچ کی اہمیت کے بارے میں سینکڑوں
قلم کاروں نے اپنی محبت کے موتیوں سے ارضِ وطن کوخراجِ تحسین پیش کرنے میں
کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جب سے میں نے قلم کی حرمت کوجانااورپہچانا،میں نے
بھی اسے اپنی عقبیٰ وآخرت کی نجات کاوسیلہ سمجھ کر اپنے تئیں حصہ لیالیکن
نجانے کیوں اس سال اس عظیم الشان دن کومنانے کیلئے دل کے پھپھولے پھوڑنے
کودل چاہ رہاہے۔آج نجانے کیوں ملا عبدالقادر،علی احسن مجاہداوراب مطیع
الرحمان نظامی شدت سے یادآرہے ہیں ۔کوئی دکھ سادکھ ہے۔ڈھاکہ میں مقتل آباد
ہوئے اور ہم بے وفاؤں کے پاس ایک حرف مذمت تک نہیں تھا۔مقتلوں میں لٹکے
لاشوں کو زباں ملتی تویقیناًیہ کہتے:
پڑھی نماز جنازہ کی میری غیرو ں نے
مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے
لیکن شایدیہ بھی شہیدوں کاحسن ظن ہی ہوکیونکہ یہاں تویاروں نے وضوکاتردد
بھی نہیں کیا۔ایک سناٹاتھا۔کیسے بے نیازہیں ہم لوگ،اسی لہوکوبھول گئے جو
ہمارے لیے بہاتھا۔حادثے کے ذمہ دارالبدرکے جوان تونہ تھے۔ہمیں توفوجی
حکمرانوں اوربھٹوصاحب کی ہوس اقتدار لے ڈوبی،جس نے ڈھاکہ جانے والوں کی
ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی اسے ہم نے فخرایشیابنادیااورجس نے دختر انگورکے
مٹکے میں شعوراورغیرت ڈبو دی اسے ہم نے قومی پرچم میں لپیٹ کر توپوں کی
سلامی دے کراعزازکے ساتھ دفنادیا،اورجن پاکبازوں نے اپنی جوانیاں وطن پہ
نثارکردیں انہیں ہم نے گناہ کی طرح بھلادیا۔ ہتھیارپھینکتے وقت بھی نہیں
بتایا کہ ہم توسرنڈرکرنے والے ہیں تم بھی ادھرادھرہوکراپنی جان بچالو۔احباب
تو نرسوں کیلئےآئے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کرفرارہوگئے،البدرکے جوانوں کامکتی
باہنی نے جی بھرکرقتل عام کیالیکن وطن سے محبت کے جرم میں ان کے لاشے
پھانسی گھاٹ میں جھول گئے اورہمارے پاس انہیں دینے کے لیے لفظوں کاکفن بھی
نہیں تھا ۔
طبلچیوں کوصاحب منصب کی چمچہ گیری سے فرصت ملے توکوئی اس موضوع پربات کرے ۔اہل
دربارجنہیں بادشاہ سلامت کے جھوٹے قصائد کے عوض راشن ملتاہے،سوال اٹھاتے
ہیں پاکستان کیاکرسکتاتھا؟یہ بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ ہے۔سچ بات ہے جب
حیااٹھ جائے توآدمی جوچاہے کرے۔سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ جب بنگلہ دیش
بناتوامکان تھاکہ وہ انتقام کی طرف جائے گا ۔اسی لیے بھٹو نے ان ہزاروں
بنگالیوں کوواپس جانے سے روک لیاجومغربی پاکستان میں موجودتھے اوربنگلہ دیش
قیادت کوپیغام دیاگیا کہ اگراس نے جنگی ٹریبونل جرائم کے نام پرانتقام
کاسلسلہ شروع کیاتوان بنگالیوں پربھی مقدمات
قائم کر دیے جائیں گے چنانچہ ایک معاہدے کے نتیجے میں طے پایا کہ ایسی کوئی
کاروائی نہیں کی جائے گی۔اب اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے
وارٹربیونل نے خوفناک انتقام لیااورنجانے ابھی یہ سلسلہ اور
کتنادرازہوگا،اس کاکوئی جوازنہیں ہے۔اگرسزائیں بنگلہ دیش سے غداری کے جرم
میں سنائی گئیں توغیرقانونی تھیں کیونکہ اس وقت یہ سب لوگ اپنے وطن پاکستان
کے دفاع کی جنگ لڑرہے تھے اوربنگلہ دیش نام کاکوئی ملک اس وقت نہیں
تھااوراگریہ انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کی بنیادپردی گئیں توکیاوجہ ہے ان
کانشانہ صرف البدرہی کیوں؟مکتی باہنی کے کسی کارکن کوآج تک سزا کیوں نہیں
سنائی جا سکی۔رہ گئی بات یہ کہ پاکستان کیاکرسکتاتھاتوجناب ایک سفارتی مہم
توشروع کی جاسکتی تھی۔کیاآپ نے بنگلہ دیش وار ٹربیونل کے خلاف دنیا میں ایک
دفعہ بھی ڈھنگ کی آوازاٹھائی؟
دن میں پانچ دفعہ موذن اذان دیتا ہے اوردس دفعہ ملک الشعرانوازشریف کاقصیدہ
پڑھتے ہیں۔کیا ایک دفعہ بھی ان کے منہ سے ان شہیدوں کیلئےکوئی لفظ ادا ہوا؟
وہ جیسے چباچبا کرعمران خان کی مذمت کرتے ہیں ایسے ہی چباچباکردو فقروں میں
اس ڈائن کی بھی مذمت کردیتے جس کے سرپرخون سوارہے۔ بھارت کے ساتھ حکمران
طبقے کے کاروباری مفادات کی نوعیت ہرروز پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے اور نت نئے
سوالات اٹھ رہے ہیں۔ہم ایسٹ انڈیا کمپنی کی واردات دیکھ چکے اب انڈیا سے
کاروباری تعلقات سے سوالات اٹھنا فطری امر ہے۔یہاں ایک سرمایہ دارملک ریاض
کسی سے نہیں سنبھالاجارہااگر یہاں بھارتی سرمایہ آگیا توبھارتی مداخلت
کوکیسے روکاجائے گا؟ایک نئی ایسٹ انڈیاکمپنی وجودمیں تو نہیں آرہی؟ آخرکیا
وجہ ہے کہ ہر کام میں بھارتی خوشنودی دیکھی جاتی ہے۔کیا بنگلہ دیش
وارٹربیونل پرمجرمانہ خاموشی کی وجہ بھی یہی تھی کہ بھارت سے حکمرانوں کے
کاروباری مفادات ہیں اور اس کی ناراضی مول نہیں لی جا سکتی۔
بنگلہ دیش نے مطیع الرحمان نظامی کو سزائے موت دے دی کہ مطیع الرحمان نظامی
البدر کے سپریم کمانڈر تھے۔آج ہم میں سے کتنے ہیں جو جانتے ہیں کہ البدر
کیا تھی؟یہ تنظیم میجر ریاض حسین ملک نے بنائی۔ میجر سے میرا تعلق دڈھائی
عشروں پر محیط ہے۔میجر ریاض بتاتے ہیں کہ راجشاہی میں فوج کی نفری کم تھی
اورہمارے لیے ممکن نہیں رہا تھاکہ ہم پلوں اور رستوں کی نگرانی کرسکیں۔ایک
روزکچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دفاع وطن کے لیے آپ کے کچھ
کام آ سکیں توحاضرہیں۔ان جوانوں کاتعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔میجرریاض
نے انہیں کہاٹھیک ہے آپ فلاں فلاں پلوں پرپہرادیجیے۔ ایک نوجوان نے
کہا:میجر صاحب ہمیں اپنی حفاظت کے لئے بھی کچھ دیں۔یہ وہ دن تھے جب ہائی
کمان کی طرف سے حکم آچکاتھا کہ تمام بنگالیوں کوغیرمسلح کر دو۔ میجر ریاض
کی آج بھی آہیں نکل جاتی ہیں جب وہ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ اندرگئے
اورسورہ یسٰین کاایک نسخہ اس جوان کوپکڑادیاکہ اپنی حفاظت کیلئے میں تمہیں
اس کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔وہ نوجوان چلے گئے، گھر نہیں بلکہ میجر کے
دیے مشن پر۔بانس کے ڈنڈے انہوں نے بنا لیے اور ندی نالوں اورپلوں پرجہاں سے
مکتی باہنی اسلحہ لاتی تھی پہرے شروع کر دیے۔میجر ریاض بتاتے ہیں کہ اس کے
بعدانہوں نے اسلحہ نہیں مانگا۔لیکن میجرکے من کی دنیااجڑچکی تھی۔ فوجی
ضابطے انہیں عذاب لگ رہے تھے۔ایک روز تیس کے قریب نوجوان ان کے پاس آئے کہ
انہیں بھی اس رضاکار دستے میں شامل کر لیں۔ان میں ایک بچہ بھی تھا۔ میجر نے
اسے کہا بیٹا آپ بہت چھوٹے ہوواپس چلے جائو۔وہ بچہ اپنی ایڑیوں پرکھڑا
ہوگیا اورکہنے لگا: میجر شاب ہن توبڑاہوئے گاشے(میجر صاحب اب
توبڑاہوگیاہوں)۔میجر تڑپ اٹھے،انہیں معوزاورمعاذیادآگئے جن میں ایک نے نبی
کریم ۖ کی خدمت اقدس میں ایسے ہی ایڑیاں اٹھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی
کہ وہ اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ جہاد میں حصہ نہ لے سکیں۔ میجر نے اس بچے کو
سینے سے لگا لیا۔ہائی کمان کا حکم پامال کرتے ہوئے ان جوانوں کومسلح کردیا
اورجنگ بدرکی نسبت سے اس رضاکاردستے کوالبدرکانام دے دیا۔کئی ہفتے بعد ہائی
کمان نے ان سے پوچھا کہ ان کے علاقے میں اتنا امن کیسے ممکن ہواتومیجر نے
یہ رازفاش کیا کہ میں نے آپ کی حکم عدولی کی اور میں نے تمام بنگالیوں
پرعدم اعتماد نہیں کیا۔میں نے بنگالیوں کو مسلح کر کے بھارت اور مکتی باہنی
کے مقابلے میں کھڑا کر دیا ہے۔تب یہ رضاکار تنظیم پورے بنگال میں قائم کر
دی گئی۔
ایک روزمیں نے میجرسے پوچھاکہ ہم میں عمروں کے فرق کے باوجود تکلف باقی
نہیں ہے،البدرنے ظلم تو بہت کیے ہوں گے اپنے سیاسی مخالفین پر؟یہ سوال سن
کر میجرکوایک چپ سی لگ گئی۔کہنے لگے: تم میری بات کا یقین کرو گے؟میں نے
کہا آپ سے پچیس سال کا تعلق ہےمیرا نہیں خیال کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔میجر نے
کہا: میں اپنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے البدر کے لوگوں سے
زیادہ قیمتی اورنیک لڑکے نہیں دیکھے ، یہ لڑکے اللہ کا معجزہ تھے، میرے علم
میں کوئی ایک واقعہ بھی نہیں کہ انہوں نے کسی سے ذاتی انتقام لیا ہو۔مجھے
تو جب یہ پتا چلا کہ ان کی فکری تربیت مودودی نام کے ایک آدمی نے کی ہے تو
اشتیاق پیداہواکہ دیکھوں یہ مودودی کون ہے؟برسوں بعد جب میں بھارت کی قیدسے
رہا ہواتومیں اپنے گھرنہیں گیا،میں سیدھااچھرہ گیا، مودودی صاحب کے گھر،میں
دیکھناچاہتاہے وہ شخص کیساہے جس نے ایسے باکرداراورعظیم نوجوان تیار کیے۔
دراصل مولانامودودی اپنے کرداراورتعلیم سے ان نوجوانوں کے قلب وذہن کے
اندرپچھلی کئی دہائیوں سے عملِ خیر کا بیج بوچکے تھے ،اس بیج پر مشیت کی
برسائی ہوئی برسات نے بالآخرکس طرح عمل خیرکی لہلہاتی ہوئی کھیتی اگادی
۔اگراس فصل کی تقسیم شروع کردی جائے توسب کوہی اپنا دامن تنگ نظرآئے گا۔ ان
شہداء نے اپنے خونِ دل اورجان سے پائے رسولۖ کے نقوش کوایسااجاگرکیا کہ
ہرکسی کواب اپنی منزل آسان دکھائی دی۔ ان کی للہٰیت' اخلاص نیت اوربے لوث
ادائے فرض نے ایک ہی جست میں تمام فاصلے عبورکرلئے ہیں جس کی تمناانبیائ'
اصحابہ اورصالحین نے ہمیشہ کی۔ان عظیم شہداء کی یاداب تاقیامت تک کفر کے
تاریک جزیروں پرایمانی قوت کے ساتھ کڑکتی اورکوندتی رہے گی۔
پاکستان سے محبت کے جرم میں پھانسی کے تختے پرجھول جانے والے شہداء نے جہاں
اوربے شمارباتوں کاسبق یاددلایاہے وہاں ایک یہ بات بھی ہمارے ذہن نشین
کروائی ہے کہ عالمِ اسباب میں سانس کاایک تموج اورذرے کاایک حقیر وجودبھی
تخلیق اسباب اورترتیب نتائج میں اپناحصہ رکھتا ہے۔جس طرح عمل بدکی ایک خراش
بھی آئینہ ہستی کودھندلاجاتی ہے اسی طرح عمل خیرکاایک لمحہ بھی عالم کے
اجتماعی خیر کے ذخیرے میں بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے اور لوحِ زمانہ میں
ریکارڈ ہوکرکبھی نہ کبھی ضرورگونجتاہے اورمیزان نتائج میں اپنا وزن
دکھاتاہے اوریوںآخرت کوجب گروہ درگروہ اپنے رب کے ہاں حاضر ہوں گے تو
عبدالقادر،علی احسن مجاہداور مطیع الرحمان نظامی بھی شہداء کے کے گروہ میں
شامل اپنے رب کے ہاں اس شان سے حاضرہوں گے کہ تمام عالم ان پررشک کرے گا!
آج بھی یہی البدر پھانسی گھاٹ پر لٹک رہی ہے اور ہم ایک حرف مذمت بھی کہنے
کی ہمت نہیں رکھتے ۔آزادمیڈیاکیاہوا؟ حقوق انسانی تخلص کرنے والی سول
سوسائٹی کہاں کھو گئی ؟ سکوت مرگ کیوں ہے ؟کیا سب مر گئے؟ہم سا بے حس بھی
کوئی ہو گا؟سیکولر ملائیت کا تو پیشہ ہی اہل مذہب سے نفرت ہے ان مجہول
عصبیت فروشوں سے کیا گلہ؟ اگراس غلطی کا ازالہ کرناچاہتے ہیں تو٢٣مارچ
کوپارلیمنٹ کے لان میں عبدالقادر،علی احسن مجاہداور مطیع الرحمان نظامی کی
غائبانہ نماز جنازہ پڑھ کرساری دنیاکویہ پیغام دیاجائے کہ اب ہم پاکستان سے
محبت کرنے والوں کے ساتھ ایساظالمانہ سلوک برداشت نہیں کریں گے۔نجانے یہ
پھانس میرے دل سے کب نکلے گی کہ جماعت اسلامی نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ پاک
فوج کے شہدا کے بعداس ملک پرقربان ہونے والوں میں یہ سب سے آگے ہے لیکن
اُدھر بھی یہ غدار،اِ دھربھی یہ غدار۔ جونکوں کی طرح اس ملک کو لوٹ کھانے
والے گدھ یہاں معتبرٹھہرے لیکن وطن عزیز سے محبت جرم ہوا۔ یہاں نہ سوئس
بنکوں میں لوٹ کامال رکھناجرم ہے نہ پانامہ لیکس میں بے نقاب ہوتے
کرتوت۔صرف پاکستان سے محبت جرم ہے۔اس جرم میں متقل آباد کرنے والوں کے لیے
نہ کوئی پرسہ نہ کوئی آنسو ۔
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز |