’یہ کفر و الحاد کے دھوکے ہیں‘


یوگا اور سوریہ نمسکار کے ہم کیوں مخالف ہیں؟ کیا یہ ہمارے مذہب سے متصادم ہے؟ بلاشبہ یہ ہمارے مذہب اسلام کے خلاف اور اس کے آفاقی احکامات سے متصادم ہے۔یوگا اور سوریہ نمسکار میں جس طرح انسان سورج کو سامنے رکھ کر لفظ ’اوم‘ کی جاپ کرتا ہے یہ سراسر اسلام مخالف عمل ہے ہم اسے ہر گز نہیں کرسکتے۔ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی کے بیان کی حمایت و مخالفت میں بیانات کا سلسلہ جاری ہے کوئی اسے مذہب سے نہ جوڑنے کی باتیں کہہ رہا ہے تو کوئی یوگی کو ٹوپی پہن کر نماز پڑھنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ کوئی یوگی کے بیان کو ہندو مسلم اتحاد کا ضامن ٹھہرارہا ہے۔ کیا واقعی یوگی نے ہندو مسلم میں جو خلیج ہے اسے پاٹنے کے لئے یہ بیان دیا ہے؟ بی جے پی جیسی پارٹیاں جن کی سیاست ہی نفرت اور خلیج سے شروع ہوتی ہے کیا وہ واقعی ہندومسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب کے فروغ کے لئے کوشاں ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے، یہ ہماری فکری بھول ہے، گذشتہ دنوں جو گھر واپسی اور خود یوگی کے لوجہاد کے جو مبینہ اثرات ہیں وہ شہادت پیش کرتے ہیں کہ بھاجپا کو مسلمانوں سے کوئی تعلق داری نہیں ہے، ان کا مقصد مسلمانوں کے دین پر حملہ کرکے انہیں بے دین کرنا اور اپنی حاکمیت کا اعلان ہے اگر اسے اقتدار کا سودا نہیں ہوتا تو یاد رکھیے گوا میں غیر واضح اکثریت کے باوجود منوہر پاریکر کو وزارت نہیں سونپی جاتی۔ وہ قوم جہاں مردوں کے مرجانے پر ان کی بیویوں کی ستی کی جاتی ہو، جہاں عورتوں کو غلامی جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہو، جہاں عورتوں کو وراثت سے محروم کیا جاتا ہو اور اپنے ہی ہم مذہب افراد، قبیلے، علاقے والوں کو ’’اشودر ـ‘‘ قرار نہ دیتے، وہ قوم مسلمانوں کے مسلکی وعائلی معاملات میں اس قدر دلچسپی کیوں لے رہی ہے؟ کیوں وہ طلاق ثلاثہ کو ختم کرانے کے درپے ہے۔ کیوں کہ وہ اسکولوں وکالج میں تعلیم کا بھگوا کرن کررہی ہے۔ ان کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو ہندو بنانا ہے۔کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے آباء واجداد ہندو تھے لہذا یہ بھی ہندو ہیں، انہیں مسلمان نہیں ہوناچاہئے۔ لوجہاد سیکولر ازم مخالف تحریکیں اسی ہندو بنانے کی اسکیموں میں سے ایک ہے۔ ویسے مسلمانوں کو ہندو بنانے کا کام تو آج سے سو سال قبل ہی شروع کردیا گیا تھا لیکن اس وقت ان کی اسکیمیں تیارہوئی تھیں اب جب کہ زمام اقتدار ان بھگوائیوں کے ہاتھوں میں آئی ہے تو انہیں اپنی اسکیموں کو عملی جامہ پہنانے کا سنہری موقع دستیاب ہوا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ان کی برسوں کی پرانی خواہش کی تکمیل کا موقع آن پڑا ہے اور وہ اسے عملی جامہ پہنا کر ہی دم لیں گے۔ بس اس وقت ہمیں کیا کرناچاہئے اور کس طرح سے اپنا دفاع کرناچاہئے یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ آج گاؤں، دیہات اور قصبوں میں مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اگر ہم مزید اسی طرح سوئے رہے ، قوم کو بیدار نہ کیے تو ہوسکتا ہے وہ سوریہ نمسکار پر آمادہ ہوجائیں اپنے بچوں کو وندے ماترم پڑھوانے پر مجبور ہوجائیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملی تنظیمیں متحد ہوکر باطل کے مقابلے کے لئے سینہ سپر ہوجائیں؛ کیونکہ وقت آن پڑا ہے یوگی کے دین سوریہ نمسکار کے خلاف آوازیں بلند کرنے کا۔

ملک کے موجودہ حالات ماضی کی طرف ایک بار پھر پلٹ رہے ہیں۔ہندوستان کی تاریخ جب ہم کھنگال کر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دورِ اکبری میں یہی حالات تھے جو آج یوگی اور مودی حکومت میں پیدا ہورہے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ اکبر فیضی جیسے اہل علم کے ہاتھوں مختلف مسالک کے اختلاف کے باعث اسلام کا دشمن بن گیا تھا اور اس دور میں سرکاری مشینری؛ بلکہ جمہوری دجال کے فتنوں کے باعث مسلمان الحاد وکفر کی طرف جارہے ہیں اور جو نہ جانا چاہ رہے ہیں انہیں نت نئے فتنے اور سازشوں کے ذریعے ان حالات پر لے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی کا حالیہ بیان کہ ’’نماز اور سوریہ نمسکار ‘‘ ایک ہی جیسے ہیں یعنی نماز کے کچھ طریقے سوریہ نمسکار اور یوگا کے آسن جیسے ہیں۔ یہ مکمل مغالطہ آمیزی اور کھلی فریب کاری ہے ـ ایک بات یاد رکھیں نماز خالق کی عبادت ہے اور سوریہ نمسکار اور یوگا جیسی دیگر عبادتیں برادران وطن کی خود ساختہ عبادتیں اور سورج، شجر و حجر جیسی مخلوقات کی پرستش کے طریقے ہیں، جو بھارت میں رہتے ہوئے شجر و حجر اور زمین و فلک وغیرہ کی عبادت کر رہے ہیں وہ جمہوری آئین کے تحت شرک و کفر کے مجاز ہیں، البتہ مسلمانوں کو اس مشرکانہ فعل پر زور نہیں ڈالا جاسکتا۔ قرآن میں وضاحت کے ساتھ حکم ہے ’’تم سورج اور چاند کا سجدہ نہ کرو؛ بلکہ جس نے ان سورج چاند کو پیدا کیا ہے اس کا سجدہ کرو‘‘ ؛ لہذا یوگا کو نماز جیسی ایک اہم عبادت کے مشابہ قرار دینا کھلی مذہبی انتہا پسندی اور حقیقت سے صرف نظر ہے ـ ،مسلمان صرف اور صرف خالق کی عبادت کرسکتا ہے ؛کیوں کہ انہیں ان کی مقدس کتاب اور رسولوں کی تعلیمات سے یہی فرمان ملا ہے کہ وہ ایک خدا کی عبادت کریں، وقت کے جابر وظالم حکمرانوں کے سامنے سجدہ ریز نہ ہوں؛ لیکن ملک میں جو حالات بنائے جارہے ہیں، جس طرح سے مذہب اسلام میں دخل اندازی کی کوششیں تیز ہورہی ہیں اس سے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور مسلمانوں کا وہ طبقہ جو دین سے نابلد و نا آشنا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ حکومت کے دام فریب میں آکر یوگا، سوریہ نمسکار اور سہوا نماز کو ایک جیسا سمجھ کر اپنے دین حنیف سے ہٹ جائیں۔ یوگا ایک ورزش ہے، اور سوریہ نمسکار بھی ایک ورزش ہے یا ایک حقیر مخلوق کی پوجا ہے۔ نماز ورزش نہیں ہے صرف اور صرف عبادت ہے یہ الگ بات ہے کہ سائنسی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو پنج وقتہ نمازی ہوتے ہیں ان کی صحتیں اچھی ہوتی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز کو سوریہ نمسکار اور یوگا کے مقابل کھڑا کردیاجائے۔ نماز صرف اور صرف خالق کی عبادت ہے اور اس کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے جو نماز نہیں پڑھتا ہے وہ اسلام کے منافی عمل کرتا ہے اور خدا و رسول کے احکام سے روگردانی کا مرتکب ہوتا ہے آخر ت میں اسے نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے سزا بھگتنی ہوگی؛ لیکن اگر جو یوگا نہ کرے، جو سوریہ نمسکار نہ کرے اس کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا؛ بلکہ یوگا اور سوریہ نمسکار نہ کرنے کی صورت میں انعامات کے مستحق ہوں گے۔

یوگا اور سوریہ نمسکار کے ہم کیوں مخالف ہیں؟ کیا یہ ہمارے مذہب سے متصادم ہے؟ بلاشبہ یہ ہمارے مذہب اسلام کے خلاف اور اس کے آفاقی احکامات سے متصادم ہے۔یوگا اور سوریہ نمسکار میں جس طرح انسان سورج کو سامنے رکھ کر لفظ ’اوم‘ کی جاپ کرتا ہے یہ سراسر اسلام مخالف عمل ہے ہم اسے ہر گز نہیں کرسکتے۔ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی کے بیان کی حمایت و مخالفت میں بیانات کا سلسلہ جاری ہے کوئی اسے مذہب سے نہ جوڑنے کی باتیں کہہ رہا ہے تو کوئی یوگی کو ٹوپی پہن کر نماز پڑھنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ کوئی یوگی کے بیان کو ہندو مسلم اتحاد کا ضامن ٹھہرارہا ہے۔ کیا واقعی یوگی نے ہندو مسلم میں جو خلیج ہے اسے پاٹنے کے لئے یہ بیان دیا ہے؟ بی جے پی جیسی پارٹیاں جن کی سیاست ہی نفرت اور خلیج سے شروع ہوتی ہے کیا وہ واقعی ہندومسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب کے فروغ کے لئے کوشاں ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے، یہ ہماری فکری بھول ہے، گذشتہ دنوں جو گھر واپسی اور خود یوگی کے لوجہاد کے جو مبینہ اثرات ہیں وہ شہادت پیش کرتے ہیں کہ بھاجپا کو مسلمانوں سے کوئی تعلق داری نہیں ہے، ان کا مقصد مسلمانوں کے دین پر حملہ کرکے انہیں بے دین کرنا اور اپنی حاکمیت کا اعلان ہے اگر اسے اقتدار کا سودا نہیں ہوتا تو یاد رکھیے گوا میں غیر واضح اکثریت کے باوجود منوہر پاریکر کو وزارت نہیں سونپی جاتی۔ وہ قوم جہاں مردوں کے مرجانے پر ان کی بیویوں کی ستی کی جاتی ہو، جہاں عورتوں کو غلامی جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہو، جہاں عورتوں کو وراثت سے محروم کیا جاتا ہو اور اپنے ہی ہم مذہب افراد، قبیلے، علاقے والوں کو ’’اشودر ـ‘‘ قرار نہ دیتے، وہ قوم مسلمانوں کے مسلکی وعائلی معاملات میں اس قدر دلچسپی کیوں لے رہی ہے؟ کیوں وہ طلاق ثلاثہ کو ختم کرانے کے درپے ہے۔ کیوں کہ وہ اسکولوں وکالج میں تعلیم کا بھگوا کرن کررہی ہے۔ ان کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو ہندو بنانا ہے۔کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے آباء واجداد ہندو تھے لہذا یہ بھی ہندو ہیں، انہیں مسلمان نہیں ہوناچاہئے۔ لوجہاد سیکولر ازم مخالف تحریکیں اسی ہندو بنانے کی اسکیموں میں سے ایک ہے۔ ویسے مسلمانوں کو ہندو بنانے کا کام تو آج سے سو سال قبل ہی شروع کردیا گیا تھا لیکن اس وقت ان کی اسکیمیں تیارہوئی تھیں اب جب کہ زمام اقتدار ان بھگوائیوں کے ہاتھوں میں آئی ہے تو انہیں اپنی اسکیموں کو عملی جامہ پہنانے کا سنہری موقع دستیاب ہوا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ان کی برسوں کی پرانی خواہش کی تکمیل کا موقع آن پڑا ہے اور وہ اسے عملی جامہ پہنا کر ہی دم لیں گے۔ بس اس وقت ہمیں کیا کرناچاہئے اور کس طرح سے اپنا دفاع کرناچاہئے یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ آج گاؤں، دیہات اور قصبوں میں مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اگر ہم مزید اسی طرح سوئے رہے ، قوم کو بیدار نہ کیے تو ہوسکتا ہے وہ سوریہ نمسکار پر آمادہ ہوجائیں اپنے بچوں کو وندے ماترم پڑھوانے پر مجبور ہوجائیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملی تنظیمیں متحد ہوکر باطل کے مقابلے کے لئے سینہ سپر ہوجائیں؛ کیونکہ وقت آن پڑا ہے یوگی کے دین سوریہ نمسکار کے خلاف آوازیں بلند کرنے کا۔ مسلم قوم ایسی زرخیز قوم ہے کہ اس میں ہر دور میں باطل سے لوہا لینے کے لئے افراد تیار رہے ہیں۔ اور ہمیں امید ہے کہ ہم اس باطل کا بھی مقابلہ کرکے اپنے دین کی حفاظت وصیانت کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ تو ضرورت ہے کہ پھر کوئی مجدد الف ثانی پیدا ہوں جو یوگی کے اس دین کو نمسکار نہ کرے بلکہ لوہا لے؛ کیونکہ یہ مذہب کا معاملہ ہے۔ ہم کسی بھی حال میں مخلوق کی عبادت نہیں کرسکتے ہیں۔ ہمارا معبود ایک خدا ہے ۔ یہ سورج ، چاند ،ستارے ، زمین وآسمان، خدا کی مخلوق ہیں اور خدا عظیم ہے ہم اپنے عظیم رب کے سامنے سجدہ کرتے ہیں نہ کہ خدا کی مخلوق کے سامنے۔ تاریخ شاہد ہے ہم نے ہر دورمیں وقت کے خداؤں سے لوہا لیا ہے اور کامیاب بھی ہوئے ہیں،ہم نے کبھی ’چڑھتے سورج کی پوجا ‘ نہیں کی ۔ یہاں بھی وقت پڑا تو آئیں گے اور اپنے دلائل سے یہ ثابت کردیں گے کہ سوریہ نمسکار اور یوگا ہندو مسلم اتحاد کے لئے نہیں ہے بل کہ مسلمانوں کو دین حنیف سے بے زار اور انہیں ملحد بنانے کے لئے ہے۔ اور یہ کوششیں؛ بلکہ سازشیں جنھیں ہم مختلف اسماء سے پکارتے ہیں ملک گیر نہیں؛ بلکہ عالمگیر ہیں، صاف کہہ لیجیے کہ یہ سازشیں یہود و نصاری کی ایجاد کردہ ہیں ـ احادیث کی مختلف روایات سے یہ ثابت بھی ہوتا ہے کہ عنقریب وہ زمانہ آئے گا کہ لوگ صرف نام کے ہی رہ جائیں گے ـ تاہم یہودیت و فسطائیت پورے عالم میں اپنی فطرت کے اظہار اور اس کے شیوع و نفوذ کے لئے شاطرانہ چالیں چل رہی ہیں یہ بزدلانہ اور احمقانہ کوشش ہےـ اب جب کہ یوگی جسے دیر و شوالہ میں قشقہ کشا ہوکر لات و منات کی تسبیح خوانی کرنی چاہیے تھی وہ زمام اقتدار پر مسلط ہوچکا ہے اور ابلیسی؛ دجالی فریب و مکر سے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے تو ملک کی اقلیت جسے یہ دیر نشیں اپنے مکر کا نشانہ بنا رہا ہے، اس مذکورہ اقلیت کا ردعمل کیا ہوگا؟ جب کہ اولا غیرقانونی مذبح کے نام پر قانونی مذبح کو بھی اپنی ستم کاری کا نشانہ بنا کر اس اقلیت کی معیشت کو تباہ کر چکا ہے! پھر یہ کہ یوگا کو نماز کے مشابہ بھی قرار دیا ہے؟ جمہوری آئین اور دستور جسے ایک ملک کے تمام پہلوؤں کے مفاد کی خاطر نافذ کیا گیا ہے اس کا سہارا لینا ہوگا اور مؤثر اقدام کرنے ہوں گے ـ اگر یوگی کے اس بیان کو بنظر غائر اور بالاستیعاب دیکھا جائے تو اس بیان کے مبینہ اثرات کافی حد تک کسی زہر ہلاہل سے کم نہیں؛ کیونکہ جب عوام یہ دیکھیں گے کہ یوگی یوگا کو نماز کے مشابہ قرار دے رہا ہے تو یہ بھی سوچنے پر مجبور ہونگے کہ آخرش کیا وجہ ہے کہ پھر مسلمان یوگا سے متنفر ہیں؟ البتہ یہ افسوسناک پہلو ضرور ہے کہ عوام کالانعام اس پہلو پر غور سے گریزاں ہوں گے کہ یہ مماثلت اگر ہے تو ہندوتوا کے تمام مذہبی کتابوں تمام ویدوں، پرانوں اور اشلوکوں کا جائزہ لیں کہ مماثلت کس قدر پائی جاتی ہے؛ لیکن جن ویدوں پر برہمنوں کا اجارہ ہے وہ اشلوک پر غور تو کجا اشلوک کی آواز بھی اشودر کے کانوں میں پہنچنے نہیں دیں گے، البتہ ان اشودر کو مذہب کے تئیں ورغلا اور گمراہ کرکے اقتدار پر قابض ضرور ہوں گے جیسا کہ اس وقت ہندوستانی سیاست کا احوال ہے ـ یوگی جسے دیر نشیں ہونا چاہیے تھا اب جب کہ اقتدار پر قابض ہوچکے ہیں اور اپنی برہنہ فطرت کا اظہار بھی کرچکے ہیں تو انہیں ایک نظر اس اشلوک پر بھی ڈال لینی چاہیے ’’ایکم برہم دوتیہہ نیستے، ناہے نیستے‘‘(اگر اب بھی نہ جاگے تو؟) یہ عبارت قرآن وحدیث یا تفسیر و فقہ کی نہیں ہے؛ بلکہ ویدوں کے تمام بابوں کا نچوڑ ہے اور سنسکرت زبان میں ہے، اس پر غور کرنا چاہیے کہ برہما کون ہے اور اس کی تعداد کتنی ہے؟ مجھے امید ہے کہ اگر تمام برہمنی تلبیس سے بالاتر ہوکر بغور اس اشلوک کی مالاجپی جائے تو یہ فتنے سر نہ ابھاریں گے ـ۔

NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69002 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.