پانی زندہ رہنے کے لئے انتہائی ضروری ہے، یہ کہنا بے جا
نہیں ہو گا کہ پانی زندگی ہے۔اس کے بغیر کوئی بھی جاندار اپنا وجود قائم
نہیں رکھ سکتا۔وقت کے ساتھ ساتھ پانی اور خاص طور پہ صاف پانی کی اہمیت میں
اضافہ ہو رہا ہے،اقوام وممالک اب اسی تگ ودو میں نظر آتے ہیں کہ کسی طرح سے
اپنے ذخائر اور وسائل کو محفوظ بنایا جائے،اور انہیں ضائع ہونے سے بچایا
جائے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پانی اقوام کے مستقبل کا بھی ضامن ہے وہ قومیں
جن کے پاس پانی نہیں ہو گا وہ تباہ و برباد ہو جائیں گی، اور دنیا میں پانی
کے حصول کے لئے مستقبل میں جنگیں بھی ہو سکتیں ہیں،اس کی ایک مثال انڈیا
اور پاکستان میں پانی کے حوالے سے تنازعات بھی ہیں۔
اب وہی قومیں سر خرو ہوں گی جو اپنے پانی کے ذخیروں کو محفوظ بنائیں گی۔
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام پانی کا عالمی دن ہر سال بائیس مارچ کو منایا
جاتا ہے،اس سال بھی صاف پانی کو محفوظ بنانے کے حوالے سے صافی پانی کے
ذرائع کا بہتر انداز سے انتظام کرنے کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس سال کا خصوصی
موضوع “Wastewater.” تھا۔
دنیا بھر میں صاف پانی کے حوالے سے جو بحران موجود ہے یا مزید بڑھ رہا ہے
اس کے چند حقائق درج ذیل ہیں:
١۔پوری دنیا میں ایک اعشاریہ آٹھ بلین افراد ایسے ہیں جو پینے کے صاف پانی
سے محرومی کی زندگی گذار رہے ہیں،
٢۔پوری دنیا میں تین تہائی سکول ایسے ہیں جہان پینے کا صاف پانی میسر نہیں
اور نہ ہی مناسب سینی ٹیشن کا نظام مہیا ہے۔
٣۔کم آمدنی والے اور متوسط آمدنی والے ممالک میں کل کا ایک تہائی صحت کی
بنیادی سہولیات اور صاف پانی کے ذرائع تک دسترس نہیں رکھتا۔
ورلڈ اکنامک فورم نے 2015 میںپانی کے بحران کو پہلے نمبر پہ قرار دیا،جس کے
انسانی معاشرے پہ گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ایک سو ساٹھ ملین بچوں کے حادثات پانی اور سینی ٹیشن سے جڑے ہوئے ہیں،ہر
سال آٹھ لاکھ چالیس ہزار افراد پانی سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے لقمہ اجل
بن جاتے ہیں۔
صاف پانی کا یہ بحران ہمارے ملک میں بھی موجود ہے، اگر یہ کہا جائے کہ شاید
یہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک سے زیادہ انتہائی بڑے بحران کی طرف جا رہا ہے
تو غلط نہیں ہو گا۔
کیونکہ دنیا بھر میں غریب سے غریب ملک بھی کسی نہ کسی سطح پہ اس بحران پہ
قابو پانے کے لئے مناسب اقدام کر رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران اور
پالیسی ساز اس سلسلے میں کوئی بہتر اور مناسب حکمت عملی بنانے سے قاصر نظر
آتے ہیں۔
ہمار ی حالت یہ ہے نہر، دریا، سمندر کا صاف پانی شب وروز آلودہ کرنے میں
مصروف ہیں، جن علاقوں میں قدرتی چشمیں،اور صا ف پانی کے چھوٹے چھوٹے نالے
موجود ہیں،وہ اب غیر مناسب یا تباہ حال سینی ٹیشن کے نظام یا سرے سے سینی
ٹیشن کے نظام کی عدم دستیابی کی وجہ سے اب گندے نالوں میں تبدیل ہو چکے ہیں
یا ہو رہے ہیں۔ایکو سسٹم کو تباہ کرنے میں جس قدر ہماری قوم مصروف ہے شاید
ہی دنیا میں کہیں ایسا ہو رہا ہو۔
قدرت کے عطیہ صاف پانی کو ہم برباد کر کے آنے والی نسلوں کو پیاس اور تباہی
و بربادی دینے کی تیاری میں مصروف ہیں۔دریائوں، سمندر کے کنارے بسنے والی
تمام آبادیاں انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پہ کسی قسم کا انتظامی شعور نہیں
رکھتیں کہ کس طرح ان قدرتی پانی کے ذخیروں کو اپنی گندگی سے محفوظ بنایا جا
سکتا ہے۔بلدیاتی ادارے مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں ان کی اس ناہلی،غفلت اور
قومی جرم کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے کسی بھی شہر میں چاہے
چھوٹا ہو یا بڑا، پانی کےصاف ذخیروں کو محفوظ بنانے کے لئے ایسی ٹاون
پلاننگ موجود نہیں جو کہ مناسب سینی ٹیشن کا نظام بنا سکے۔کئی شہروں اور
ٹاونز میں گٹر نالوں کو صاف پانی کے ذخیروں میں ڈال دیا گیا ہے،جس کے نتیجے
میں کئی ذخائر تباہی سے دوچار ہو چکے ہیں،اور وہ مقامی آبادیوں کے لئے
مختلف قسم بیماریوں کے گڑھ بن چکے ہیں۔
جیسا کہ لاہور شہر کے کنارے دریائے راوی ہمارے مقامی اداروں کی غفلت اور
ناہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے،جو اب گٹر نالے کا منظر پیش کر رہا ہے۔اب تو
ہمارے شمالی علاقہ جات بھی غیر مناسب سینیٹیشن کے نظام کی وجہ سے تباہی و
بربادی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔جہان پانی کے وافر قدرتی ذخیرے آلودہ ہو رہے
ہیں۔اور مقامی آبادیاں صاف پانی کے لئے ترس رہی ہیں۔ایک طرف مقامی حکومتوں
کی ناہلی اور دوسری طرف عام افراد معاشرہ کی جہالت اور بے حسی، غیر ذمہ
داری نے بھی حالات کو مزید دگر گوں کر دیا ہے۔لوگوں کی یہ عادت ثانیہ بن
چکی ہے کہ کوڑا کرکٹ ندی نالوں میں ڈالنا، اس کے علاوہ جب گھر بناتے ہیں تو
اس کی گٹر لائنیں براہ ارست صاف پانی کے نالوں اور ذخیروں میں ڈال دینا یہ
عام روش ہے۔
اس کے علاوہ صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار نے پانی کو ذخیرہ کرنے کا
بھی کوئی انتظام نہیں کیا اور نہ ہی اس کو کبھی اہم قرار دیا ہے،جس کا
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کبھی تو پانی اس قدر ہوتا ہے کہ سیلاب کی صورت پیدا ہو
جاتی ہے اور ہر طرف تباہی و بربادی ہو جاتی ہے اور تو کبھی خشک سالی سے
تباہی وبربادی ہو جاتی ہے۔
نہ تو پانی کو سنبھالنے کا سلیقہ اور سوچ موجود ہے اور نہ ہی اسے استعمال
میں لانے کے طریقوں کو کو کبھی اپنانے کی کوشش کی گئی ہے۔دنیا بھر میں
قوموں نے ڈیم، مصنوعی جھیلیں، کنوئیں بنا کر بارشوں ،دریائوں کے زائد پانی
کو محفوظ بنا لیا ہے ،جو وہ مختلف سیکٹر میں استعمال میں لاتے ہیں۔ہم نہ
صرف پانی کو آلودہ کر رہے ہیں بلکہ اسے ضائع بھی کر رہے ہیں،دونوں صورتوں
میں ہماری موجودہ اور آئندہ نسلیں پانی کے ایک بڑے بحران میں تو مبتلا ہوں
گی ساتھ ساتھ وہ اچھی صحت سے بھی محروم ہوں گی۔اور مزید یہ کہ معاشی حوالے
سے بھی تباہی اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔لہذا اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ
انفرادی اور اجتماعی سطح پہ پانی کے صاف ذخیروں کو بچانے کے لئے عملی
کوششیں کی جائیں،لوگ مقامی گورنمنٹ کے اداروں کے ساتھ مل کر سینی ٹیشن کے
نظام کو بہتر بنائیں، گھر بناتے وقت اس کی مناسب منصوبہ بندی کریں،دریائوں،
سمندر اور دیگر پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے بہتر سے بہتر طریقوں پہ
تحقیق کریں اور انہیں اپنائیں۔اس طرح سے ہماری اجتماعی کوششیں ضرور رنگ
لائیں گی۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام پہ یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ
ایسے لوگوں کو اداروں میں منتخب کر کے بھیجیں جو کرپٹ اور ناہل نہ ہوں
۔چور، کرپٹ اور ناہل قیادت اور پالیسی ساز اداروں کے کرتا دھرتا کبھی ملک
کی تقدیر بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔
|