والدین نے تو اس کا نام ذوالفقار علی بھٹو رکھا تھا،لیکن
کلاس فیلوز اسے زلفی کے نام سے پکارتے، زلفی کے معانی ’’تلوار کا دستہ،
دروازے کی زنجیر یا پھر بالوں کی لٹ‘‘ لیے جاتے ہیں، ماں کی گود سے لے کر
لحد میں اترنے تک وہ دوستوں کا دوست رہا اور دوستی نبھاتا بھی رہا۔زلفی نے
لاڑکانہ کے ایک جاگیردار سر شاہنواز بھٹوکے وسیع و عریض گھر کے آنگن میں
آنکھ کھولی مگر شعور کی منزلیں طے کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں اس وسیع
و عریض گھر سے اکتاہٹ پیداہونے لگی اور اس کی جگہ اس کے دل میں برسات کے
موسم میں ٹپکنے والی چھتوں اور ان کے نیچے رہنے والے میلے کچلے لوگوں کی
محبت ’’گھر‘‘ کرنے لگی۔
سندھ اور لندن کے غیر ملکی تعلیمی اداروں میں اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑنے
والے زلفی کے متعلق کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ برق رفتاری سے
دنیا کو فتح کرے گا، قائد اعظم علیہ رحمۃ کو خط لکھ کربھی زلفی نے سب کو
ورطہ حیرت میں ڈا لا اور پھر کم عمری میں ہی ( 1956) میں اقوام متحدہ جہاں
اعلی صلاحیتوں کے حامل افراد کو اپنی اپنی قوم کی نمائندگی کرنے کے لیے
بھیجا جاتا ہے وہاں پاکستان کی نمائندگی کے لیے زلفی کو منتخب کیا گیا،
اقوام متحدہ میں زلفی کی صلاحیتوں کے مظاہرے دیکھ حکمرانوں نے انہیں
پاکستان میں اعلی عہدوں پر خدمات سرانجام دینے کے لیے منتخب کیا۔ تب سے موت
کی آغوش میں جانے تک زلفی مملکت خداداد پاکستان اور اس کے عوام کی ترقی و
خوشحالی کے لیے جدوجہد کرتا رہا۔
زلفی یعنی ذوالفقار علی بھٹونے وزیر خارجہ کی حثیت سے اپنی صلاحیتوں کا
لوہا منوایا، اور ان کی صلاحیتیں ستمبر 1965 کی جنگ کے موقع پر نکھر کر
سامن�آائیں ، زلفی کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کی گئی وہ تقریر جس
نے پاکستانی عوام کو ان کا گرویدہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اس تقریر
میں زلفی نے بھارتیوں کو للکارتے ہوئے کہا تھا’’اے اقوام عالم اور بھارتیوں
یاد رکھو! ہم کشمیر کی آزادی کے لیےٍ ہزار سال تک لڑیں گے‘‘
اس موقع پر زلفی نے بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ کوللکارتے ہوئے کہا’’
بھارتی کتوں کشمیر سے نکل جاؤ کیونکہ کشمیر تمہارا نہیں بلکہ تاریخی ،جغرافیائی،
ثقافتی اور تہذیبی حوالوں سے پاکستان کااٹوٹ انگ ہے‘‘
زلفی کی اس لازوال تقریر سے اقوام متحدہ کے درودیوار آج بھی لرزاں ہیں۔ اس
تقریر نے عالمی ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور وہ کشمیر پر بھارت کے
غاصبانہ قبضے اور کشمیریوں پر اس کے ظلم و جبر و تشدد کی مذمت کرنے کے
علاوہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کے پاکستان کے مطالبے کی حمایت کرنے
لگا۔زلفی کی کشمیر اور پاکستان دوستی ہی عالمی سامراج کوکھٹکنے لگی۔اور اس
نے زلفی کو اپنے لیے خطرہ محسوس کیا اور تب سے اسے اپنے راستے سے ہٹانے کی
منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہوگیا ۔
16دسمبر1971کو سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اسٹبلشمنٹ نے انہیں اقوام متحدہ
سے پاکستان بلاکر عنان اقتدار سنبھالنے کی پیش کش کی تو زلفی کے معذرت کرنے
پر اسٹبلشمنٹ نے ( پرو بھٹوز طبقے کا کہنا ہے) منت سماجت کرتے ہوئے انہیں
باور کرایا کہ موجودہ حالات میں ان کی شخصیت ہی ملک و قوم کی راہنمائی کرنے
کا کرشمہ رکھتی ہے، اور اس وقت دوسری کوئی شخصیت نہیں جو ملک و قوم کی ٹوٹی
امیدوں کے لیے سہارابن سکے، چنانچہ اسٹبلشمنٹ کو چاروں شانے چت دیکھ کر
شکست خوردہ قوم اور زخموں سے چور چور مملکت پاکستان کی عنان اقتدار اپنے
ہاتھ میں لے کر اسے اقوام عالم میں پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کازلفی
نے بیڑا اٹھایا۔
20 دسمبر1971کو زلفی نے بچے کھچے مملکت خداداد پاکستان کی عنان اقتدار
سنبھالی، اور 5جولائی 1977تک کے قلیل ترین عرصے میں دنیا میں سرجھکا کر
چلنے والی پاکستانی قوم کوسراٹھا کر چلنے کے قابل بنادیا اور پاکستانی فوج
کو دنیا کی نمبرون فوج میں شامل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،عرب ممالک سمیت
دنیا بھر میں شٹل کاک کی طرح گھومے ، طوفانی دورے کیے ، افواج پاکستان کے
لیے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید سامان حرب کے حصول کے اہم معاہدے کیے۔
پاکستان جسے دنیا بے آئین سرزمین کہتی تھی کے لیے متفقہ آئین تشکیل دیا اور
اس کے لیے دن رات محنت کی،پھر بھی ا س کارنامہ کو سرانجام دینے کا سہرا
پارلیمنٹ کے سر پر سجھایا جو کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی اور کرشماتی
شخصیت کا ہی کارنامہ ہے۔
1974 میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو زلفی نے عجلت میں بلائے گئے اعلی
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور
بنائیں گے،کیونکہ یہودی اور عیسائی تہذیب کے پاس ایٹم بم موجودہے،اور اب
ہندو تہذیب نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا اعلان کردیا ہے، اب محض مسلم
تہذیب ایٹم سے محروم رہ گئی ہے، لہذا ہم ہر قیمت پر ا یٹم بم بنائیں
گے۔پاکستان اور مسلم امہ سے محبت کے اظہار پر ممبنی زلفی کی یہی تقریر
عالمی سامراج کو ایک آنکھ نہ بائی۔۔۔ اس تقریر میں جن جذبات کا اظہار کیا
زلفی نے ان کی تکمیل کے لیے دنیا بھر سے ایتم بم کی تیاری میں کام آنے والے
آلات اور مشینری خریدنے کے لیے
عرب ممالک نے ذوالفقار علی بھٹو کے اندر مسلم امہ کی ترقی و خوشحالی کے لیے
موجزن عزائم و جذبات کو دیکھتے ہوئے اپنے ممالک کے دروازے پاکستانیوں کے
لیے وا کردئیے۔ اس سے قبل پاکستانیوں کا روزگار کے حصول کے لیے عرب ممالک
میں جانا خواب سے کم نہ تھا۔ 1971 پاک بھارت جنگ جو عالمی سازش تھی ، میں
شکست خوردہ ہونے کے باوجودتمام ممالک سے برابری کی بنیاد پر باہمی سیاسی
،سماجی ،اقتصادی،معاشی ،تجارتیہ اور سفارتی تعلقات قائم کرنا صرف ذولفقار
علی یعنی زلفی کی طلسماتی شخصیت کا ہی کرشمہ تھا ورنہ دو لخت ہونے والے
ممالک اتنی جلدی اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوتے۔ ٍ
عرب اسرائیل جنگ کی نظیر زلفی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے، کئی دہائیاں گذر
جانے کے بعد بھی عرب ممالک تیل کی دولت سے مالامال ہونے کے ، عالمی سپر
طاقت امریکا سے عرب ممالک کے مثالی تعلقات ہونے کے باوجود عرب ممالک
اسرائیل سے اپنے علاقے واپس لینے میں کامیاب نہیں ہو ئے لیکن یہ زلفی کی
ذہانت اور سیاسی سوجھ بوجھ پر ملکہ حاصل ہونے کی واضح دلیل ہے کہ اس نے
بھارت کی جانب سے کوئی پیشگی شرط منوائے بغیر بھارت سے پنجاب کا 5 ہزار
مربع میل کا علاقہ اور تقریبا 90 ہزار فوجی و سویلین قیدی رہا کروائے۔
یہ سارا کمال شملہ معاہدے کے تحت ہوا، حالانکہ اس شملہ معاہدے کے متعلق
بھٹو مخالف اپوزیشن اور اسٹبلشمنٹ نے طرح طرح کی من گھڑت باتیں پھیلائیں،
کہا گیا کہ زلفی نے اندرا گاندھی کے ساتھ خفیہ معاہدہ کر کے کشمیرپر سودے
بازی کرلی ہے،اس جھوٹے پروپیگنڈے کو باطل کرنے کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ
زلفی کے بعد گیارہ سال تک جنرل ضیاء الحق اس ملک پر قابض رہا ، وہ اپنی
تمام تر بھٹو دشمنی کے باوجود شملہ معاہدے میں چھپی خفیہ شقوں کو بے نقاب
نہ کرسکے، پھر جنرل پرویز مشرف اس کو تلاش کرنے میں بھی کامیاب وکامران نہ
ٹھہرے، او ر نہ ہی میاں نواز شریف بھٹو دشمنی میں شملہ معاہدے کی خفیہ شقوں
کے ذریعے کشمیر کی سودی بازی ثابت کرکے پاکستانی عوام کو اس سے آگاہ کر کے
دادتحسین وصول کرپائے۔
زلفی اور اس کے رفقائے کار کو اعتماد تھا کہ عوام کی فلاح و بہود اور ملک و
قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے جوعوامی،سیاسی اور قومی خدمات انہوں نے
سراانجام دی ہیں اس کے پیش نظر کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ عام انتخابات
میں عوام انہیں ووٹ نہ دیں، اسی سوچ اور پاکستانی عوام پر اعتمادنے زلفی کو
قبل از وقت عام انتخابات کروانے پر آمادہ کیا، اور اس نے 7 مارچ 1977کو عام
انتخابات کروانے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان ہوتے ہی ٹوٹی تسبیح کے دانوں کی
طرح بکھری بھانت بھانت کی بولیاں بوللنے والی اپوزیشن کی جماعتیں راتوں رات
امریکی اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی آشیر باد سے قائم ہونے والے پاکستان
نیشنل الائنس (پاکستان قومی اتحاد) کے 9 ستاروں والے اتحاد کے جھنڈے تلے
جمع ہوگئے، ویسے تو ان کے منشور کے بہت سارے نکات تھے ،لیکن حقیقت میں اس
بھان متی کے کنبے اور ایک دوسرے کی ضد نظریات رکھنے والے سیاست دان ایک
دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر اور فضاؤں میں بلند کرکے اکٹھے جینے مرنے کے وعدے
کرتے رہے، اندرون خانہ ان کا ایکا یک نکاتی تھا، وہ یک نکاتی پروگرام بھٹو
دشمنی تھا، بھٹو دشمنی میں اس اتحاد نے امریکی ڈالروں کے لیے اور ان کے
ایجنڈے کی تکمیل کے لیے انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے انکارکیا، ملک گیر
لوٹ مار، اور گھیراؤ جلاؤ کی تحریک شروع کی ، یہ سب کچھ اس کے باوجود تھا
کہ زلفی نے انہیں مذاکرات کی دعوت دی اور باہمی اختلافات اور مسائل مل بیٹھ
کر طے کرنے کی پیش کش کی، سازشی سیاستدانوں کے اندرونی اور بیرونی آقاؤں نے
مل کر قومی اتحاد کی جانب سے تین رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی گئی جس میں
بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خاں ، مولانا مفتی محمود اور پروفیسر غفور
احمد شامل تھے جبکہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کی طرف سے زلفی، مولانا کوثر
نیازی اور عبدالحفیظ پیرزادہ نے مذاکرات میں حصہ لیا، کئی مہینوں کی کوششوں
سے مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوئے، تو قومی اتحاد میں شامل تحریک استقلال
کے سربراہ ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خاں نے اندرونی اور بیرونی آقاؤں کے
اشاروں پر مذاکارات کو سبوتاژ کرکے ملک پر آمریت کے اندھیرے مسلط کرنے میں
اہم کردار ادا کیا۔ اندرونی اور بیرونی اشاروں پرمذاکرات کی بیل منڈھے نہ
چڑھنے دی۔
زلفی کے رفقائے کار نے اپنے ’’جیالوں ‘اور عوام‘‘ کو سڑکوں پر لانے کا
انہیں مشورہ دیا لیکن زلفی نے ملک و قوم کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے سے
انکار کیا، ان کے اس فیصلے کے پس پردہ یہ خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ
احتجاجی تحریک خود بخود دم توڑ دے گی ۔قومی اتحادٍ کے راہنماؤں نے ان کی
گھیراؤ جلاؤ کی تحریک کے مقابل عوام اور اپنے جیالوں کو سڑکوں پر نہ لانے
کے فیصلے کو پیپلز پارٹی اور بھٹو حکومت کی کمزوری سے تعبیر کیا، اور
منصوبہ سازی کے عین مطابق احتجاجی پروگرام کو آگے بڑھایا ۔قومی اتحاد نے
پاکستان میں پہیہ جام سٹائل ہڑتال کو متعارف کروایا جس کے متعلق ذوالفقار
علی بھٹو نے کہا کہ’’ پہیہ جام پاکستانی ماڈل نہیں ہے اسے سامراجی قوتوں نے
انہیں اقتدار سے الگ کرنے کے لیے پاکستان مٰن متعارف کروایا ہے۔
ملک کو آمریت کی تاریک رات کی آغوش میں دالنے کے لیے’’ منصوبہ کے تحت’’ 5
جولائی‘‘ کی شب کا انتخاب کیا گیا، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اس شب زلفی
اسلام آباد میں ہی ہوں گے ،کیونکہ 5 جولائی امریکہ کا قومی دن ہے، اس دن
امریکی سفارت خانے میں امریکہ کے قومی دن کی مناسبت سے تقریب ہونا تھی،
تقریب ہوئی اور رات گئے جنرل فیض علی چشتی کی قیادت میں جمہوریت کا چراغ گل
کرنے کے لیے ’’آپریشن فیئر پلے‘‘ کا آغاز ہوا۔ زلفی ،ان کے اہل خانہ اور
کابینہ کے ارکان کو گرفتار کرلیا گیا، اور دکھاوے کے طور پر قومی اتحاد کے
راہنماؤں کو بھی حراست میں لیکر مری کے پنجاب ہاؤس میں سرکاری مہمان کے طور
پر بڑے ناز نعم سے رکھا گیا،صبح ہونے تک آئین جو بڑی محنت سے تشکیل پایا
تھا معطل ہوچکا تھا، پارلیمنٹ تحلیل کر دی گئی، جنرل ضیا ء الحق نے سرکاری
ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر آکر اعلان کیا کہ ملک سے جمہوریت کا بوریا بستر گول
کردیا گیا ہے، اور مارشل لا کا نفاذ ہوگیا ہے۔
زوالفقار علی بھٹو کی ذات جنرل ضیا الحق اور اس کے رفقائے کار کے لیے خطرے
کا باعث اس وقت بنی ، جب وہ حفاظتی حراست سے رہائی پانے کے بعد لاہور
پہنچے، عوام کا ایک سمندر ان کے استقبال کے لیے لاہور ایئر پورٹ پر امڈ آیا
تھا، ضیائی آمریت کی جانب سے کھڑی کی گئی تمام رکاوٹیں دھری کی دھری رہ
گئیں، ہر راستہ ہر قافلہ کی منزل لاہور ایئرپورٹ تھی، عوام کا جم غفیر اپنے
قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھا، عوامی سیلاب کو روکنے کے لیے
انہیں لاہور ایئرپورٹ سے ہی واپس لوٹا دیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے لیے عوام کے سمندر کا باہر نکلنا جنرل ضیا کے لیے
واضح پیغام تھا کہ اب یا وہ نہیں یا ذوالفقا رعلی بھٹو نہیں ، اس دن کے بعد
جنرل ضیا کہتا تھا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو، اس استقبال نے جنرل کے کے اس
خواب کو چکنا چور کردیا کہ پیپلز پارٹی اور ذوالفقا ر علی بھٹو ختم ہو چکے
ہیں، اب صرف نو ستارے ہیں یا وہ خود۔۔۔ذوالفقار علی بھٹو کو دوبارہ گرفتار
کرلیا گیا ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کے ایم صمدانی نے انکی ضمانت لے کر
انہیں فوری رہا کرنے کا حکم صادر کیا لیکن اگلے ہی روز انہیں نواب محمد
احمد خان( احمد رضا قصوری ، ہاں یہ وہیں احمد رضا قصوری ہے،ججز بحالی تحریک
میں جن کے منہ پر کالی سیاہی پھینکی گئی تھیکے والد کے) قتل کے الزام میں
گرفتار کرکے لاہور کی جیل میں بند کردیا گیا۔
آئین اور قانون کے تحت قتل کے مقدمات ضلعی سیشن عدالت میں چلائے جاتے ہیں
اور سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں دائر کی جاتی ہے اور
اگر ہائی کورٹ بھی سیشن عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھے تو پھر آخری اپیل
عدالت عظمی یعنی سپریم کورٹ سنتی ہے، اس عدالت عظمی کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے
اور اس فیصلے کے خلاف صرف صدر مملکت کے روبرو اپیل جسے رحم کی اپیل کہا
جاتا ہے ہو سکتی ہے۔ اس طرح مقدمہ قتل کے ملزم کو دو اپیلوں کا حق حاصل
ہوتا ہے، لیکن ذوالفقار علی بھٹوکے خلاف مقدمہ کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف
جسٹس مولوی مشتاق حسین نے نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل کو بھٹو دشمنی
میں سیشن کورٹ سے براہ راست لاہور ہائی کورٹ منتقل کرکے زوالفقا ر علی بھٹو
کو لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے حق سے محروم کرکے مقدمے کو قتل
کردیا۔اگر ایسا مقدمہ آزاد ،غیر جانبدار اور انصاف کے تقاضوں کو سمجھنے
والے ججوں کے روبرو پیش ہوتا تو پہلی تین چار پیشیوں پر ہی مقدمے کا فیسلہ
ہوجاتا، کیونکہ سیشن کورٹ سے مقدمے کو براہ راست ہائی کورٹ منتقل کرنے کے
فیصلے کے پس پردہ بھٹو دشمنی ، اور بھٹو کے خلاف مولوی مشتاق حسین کے سینے
میں چھپا تعصب اور بغض عیاں اور واضح ہے۔
بھٹومرحوم کے خلاف چلایا جانے والا قتل کا مقدمہ دنیا کی عدالتی تاریخ کا
واحد مقدمہ ہے جس میں بہت زیادہ سقم موجود ہونے کے باوجود اس مقدمہ میں شک
کا فائدہ ملزم کو دینے کی بجائے استغاثہ کو دیا گیا ہے،شائد انہیں وجوہات
کے باعث عدالتی دنیا کے بڑے بڑے ماہرین کی جانب سے اس مقدمہ قتل کے متعلق
کہا گیا ہے کہ یہ قتل کا مقدمہ نہیں بلکہ’’ مقدمے کا قتل‘‘ہے، قانونی
ماہرین اس مقدمہ کو عدالتی قتل بھی قرار دیتے ہیں۔
جنرل ضیا ء نے پاکستانی عوام اور اقوام عالم کو یقین دہانی کروائی کہ 90
روز کے اندر عام انتخابات منعقد کروا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد
کردیا جائے گا۔ جنرل ضیا الحق نے یہ بھی کہا کہ ان کے کسی قسم کے کوئی
سیاسی عزائم اور مقاصد نہیں ہے ،قرآن پاک کی آیات کی تلاوت کرکے نوے دنوں
میں انتخابات کروانے کا وعدہ گیارہ سال تک طویل ہوتا چلا گیا۔ ان کے سیاسی
عزائم کا خاتمہ 17اگست 1988کو ان کی عبرتناک موت کے ساتھ ہی ہوا، اگر جنرل
ضیا مذید زندہ رہتے تو پاکستان کی آج سے کہیں زیادہ حالت ابتر ہوتی۔ اس پر
ہمیں اللہ تعالی کا مشکور ہونا چاہیے۔
3 اور 4 اپریل۔۔۔ نوڈیرو،لاڑکانہ اور کراچی سمیت پورے سندھ میں غیر معمولی
نقل وحرکت دیکھنے میں آئی ، یہ نقل و حرکت گڑھی خدا بخش بھٹو کے باسیوں کے
لیے’’کچھ انہونی ‘‘ کے ہونے کی خبر دے رہی تھی،وردی والے اور غیر وردی والے
سرکاری اہلکار علاقے کو سیل کرنے میں مصروف تھے، لوگوں کو بتایا جا رہا تھا
کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
5جولائی1977سے 4 اپریل 1979 تک ذولفقار علی بھٹو، زلفی اور ذوالفقار علی
بھٹو تھا،4 اپریل کے بعد زلفی یا ذوالفقار علی بھٹو اپنے عوام کے لیے شہید
بابا بن جاتے ہیں، سندھ ،پنجاب ، بلوچستان ، خیبر پختون خواہ ،آزاد کشمیر
اور گلگت بلتستان کے دور دراز کے علاقوں سے سینکڑوں ہزاروں میل کا سفر
اختیار کرکے گڑھی خدا بخش پہنچنے والے بھٹو کے دیوانے انہیں ’’شہید بابا‘‘
کہہ کر پکارتے ہیں، ان کے مزار پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں ،ان کا
مزار غریبوں،بے سہارا، عوام کے لیے آس ،امید کا مرکز کا روپ دھار چکا ہے،
دوردراز سے لوگ گڑھی خدا بخش آکر شہید بابا کے مزار پر اپنی حاجات کے لیے
دعائیں مانگتے ہیں، میں خود ان واقعات کا چشم دید گواہ ہوں، میں نے سینکڑوں
میل کا تکلیف دہ سفر کرکے آنے والے زائرین کوگڑھی خدا بخش بھٹوننگے پاؤں چل
کرجاتے ہوئے ہوئے دیکھا ہے، ایک عاشق بھٹو سے میں نے دریافت کیا کہ اس سخت
گرمی کے موسم میں جب سورج آگ برسا رہا ہے ،سڑکیں آگ اگل رہی ہیں تو آپ نے
اپنی جوتی پاؤں سے اتار کر سر پر رکھ لی ہے اور ننگے پا پاؤں چلنے کو ترجیح
دے رہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے تو اس بزرگ نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ’’ شہید
بابا ‘‘ کے مزار پر کونسا روز روز آنا ہے، ہماری عقیدت اور محبت نے ہمیں
مجبورکیاکہ شہید کے مزار پر ننگے پاؤ ں حاضری دینی ہے تو ننگے پاؤں ہی جانا
ہے۔بھٹو کے اس عاشق نے جو جواب میں بتایا تھا میں نے اسے من و عن نقل نہیں
کیا تاکہ متعصب لوگ دین کے نام پر فتوی نہ لگادیں۔
گڑھی خدا بخش بھٹو میں مدفون ذوالفقار علی بھٹو کو زلفی کے نام سے
پکاریں،یا شہید بابا کہیں۔۔۔ یہ سب عقیدت اور محبت کی صورتیں ہیں، بابا
بھلے شاہ نے کہا تھا ’’ میلے عاشقاں دے سدا لگدے رہن گے‘‘ اور حاسدوں کے دل
جلتے رہیں گے، چار اپریل کو گڑھی خدا بخش بھٹو میں لگنے والے ’’عاشقاں دے
میلے‘‘ میں شہید رانی بے نظیر بھٹو، مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو، غلام
مرتضی بھٹو اور میر شاہ نواز بھٹو کے مزارات بننے سے کسی قسم کی کمی واقع
نہیں ہوئی، اور نہ ہی مہنگائی کے طوفان اور آندھیاں ’’عاشقین بھٹو ‘‘ کے
سیاسی جذبے ، ولولے اور عقیدت و محبت کو کم کرنے کا باعث بن سکے ہیں۔ گڑھی
خدا بخش بھٹو میں جیئے بھٹو کا نعرہ آج بھی اسی گرم جوشی اور جذبے کے ساتھ
بلند ہوتا ہے جیسے ذوالفقا ر علی بھٹو کے پہلے چہلم کے اجتماع مٰیں فضاؤں
کو چھوتا، اور بھٹو دشمنوں کے دلوں پر بارگراں گذرتا تھا۔میں یہ کہنے میں
کچھ عار اور جھجک محسوس نہیں کرتا کہ ذوالفقا ر علی بھٹو آج بھی عوام کے
دلوں میں زندہ ہے اور جب تک ایک بھی عاشق بھٹو زندہ رہے گا ، ذوالفقا ر علی
بھٹو اس دنیا میں زندہ رہے گا،ذوالفقا ر علی بھٹو زندہ تھا تو بھی غریبوں
،ہاریوں ، کسانوں ،مزدوروں کی آسوں اور امیدوں کا محور اور مرکز تھا اور
مرکر بھی ذوالفقا ر علی بھٹو، شہید بابا کے روپ میں غریبوں ،مزدوروں
،کسانوں ہاریوں ،طلبہ اور خواتین کے لیے آسوں، امید وں اورظام کے خلاف
مظلوموں کے لیے طاقت کے حصول کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ |