تاریخ کا سبق اور بھٹو سیاست

تاریخ کاسبق جب غیر جانبدارمورخ کی قلم سے برآمد ہوتا ہے تو اُس میں ظالموں کے ظلم کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے اور مظلوم کی آہیں بھی سسکتی ہوئی کان میں پڑتی ہیں۔ تاریخ کو مسخ کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا قدرت کے کسی کام میں دخل اندازی دینا۔سکندر ،افلاطون کوآج بھی تاریخ وہ مقام دیتی ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ تاریخ ِ عالم آج بھی ہادی برحق نبی پاکﷺ سے بڑھ کر محسن انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستانی سیاست جو کہ سات دہائیوں سے مختلف نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی ابھی تک ہوا میں معلق ہے۔جمہوریت کے حسن نے نام نہاد سیاسی لیڈروں اور آمروں کو کھرب پتی بنادیا ہے لیکن عام آدمی کی قسمت اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے۔سپریم کورٹ کے سنئیر ترین جج صاحب فرما رہے ہیں کہ ماتحت عدلیہ صرف حکمرانوں کی باندھی بنی ہوئی ہے۔ ایٹم بم رکھنے والی قوم کے پاس اپریل کے آغاز میں بجلی کا شدید بحران پیدا ہوچکا ہے۔ پانامہ کے سائے تلے نام نہاد جمہوریت غریب سے ہر شے چھین کر لے گئی ہے۔پاکستانی سیاست میں بھٹو کا نام زندہ ہے۔ اِس لیے بھٹو بھی زندہ ہے۔ بھٹو ایک کرشماتی صلاحیتوں کا حامل انسان تھا۔ لیکن چونکہ وہ خود وڈیرہ تھا اِس لیے اُس کے سیاسی فلسفے کو بھٹو کے اپنے حواریوں نے ڈبو دیا۔ بھٹو کی بیٹی بے نظیر نے آمر کے خلاف خوب لڑائی لڑی لیکن اُس کی شہادت کے بعد پارٹی مرد ِ بیمار بن چکی ہے۔ جب بھی کہیں بات ہوتی ہے تو صوبائیت کا نعرہ آتی ہے۔ بھٹو جیسے انقلابی لیڈر کی پارٹی کی جانب سے صوبائیت کی بات کرنا کسی طور بھی نہیں جچتا۔تاریخ عالم کا یہ مشاہد ہ ہے کہ لوگ اپنے ماضی سے منسلک رہتے ہیں۔ پاکستانی اپنی جبلت اور رسومات میں بندھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے انداز کچھ اِس طرح کہ ہیں کہ خاندانی پس منظر کاپاکستان میں بہت ہی زیادہ عمل دخل ہے۔ جب بھی کبھی پیپلز پارٹی کے ایسے کارکنوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے جن کے دل بھٹو کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں تو مجھے اُن کے اِس جذبے پر رشک آتا ہے کہ بہار ہو یا خزاں، مارشل لاء کا دور ہو یا جمہوریت کے ایام۔پیپلز پارٹی کے جیالے ہر دور میں بھٹو سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ انسانی آزادیوں کے حوالے سے بھٹو نے جو جذبہِ شوق پاکستان کے طول و عرض میں رہنے والوں کے دل میں پیدا کیا اُس کی مثال حضرت قائد اعظمؒ کے بعد دی جاسکتی ہے۔ ہم بھٹو صاحب کی سیاست سے اختلافات کر سکتے ہیں میری دانست میں ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی شخصیت نے پاکستانی سیاست کو ہنوز اپنی گرفت میں رکھا ہوا ہے۔ نواز شریف نے مسلم لیگ کو پھر عوامی جماعت بنایا اور پیپلز پارٹی کے مخالف کیمپ کو پنی سیاست کا محور بنایا جس کی وجہ سے گذشتہ تین دہائیوں سے نواز شریف کی سیاست کا طوطی بول رہا ہے لیکن جس طرح سے گزشتہ دو دہائیوں سے عمران خان نے محنت کی اور سیاست میں نواز شریف کے حلقہ اثر کو کو اپنی طرف ترغیب دی۔ بھٹو کو اپنی سیاست کے انداز کو جلا بخشنے کا موقع ایوب کے دور میں ملا جب بھٹو نے غریب کے لیے آواز بلند کی۔ عام آدمی کو قوتِ گویائی بخشی بھٹو سیاست نے پاکستان میں دھوم مچادی۔ بھٹو نے ایک لاکھ کے قریب پاکستانی قیدیوں کو ہندوستان سے رہائی دلوائی اور اسلامی سوشلزم کو غریب کی منزل قرار دئے دیا۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد قوم کی روح چھلنی تھی بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرس لاہور میں منعقد کرکے مسلم دُنیا کے اتحاد کی داغ بیل ڈالی۔ نجی اداروں کی بدترین کارکردگی کی بناء پر نیشنلائزیشن کی پالیسی شروع کی جس سے وقتی طور پر تو عوام نے بہت جوش کا مظاہرہ کیا لیکن بعد ازاں حکومتی اداروں کی بدترین کارکردگی نے یہ ہی قومیائے گئے ادارئے عوام کے لیے سوہانِ روح بن گئے۔ بھٹو کی مقبولیت نے جنوبی اشیاء میں دور رس اثرات چھوڑئے کیونکہ قومی اسمبلی اور عوامی اجتماعات میں بھٹو کی تقاریر نے سماجی طور پر آمریت کی پسی ہوئی قوم کو ایک نئی زبان بخشی۔ 1973 ء کا متفقہ آئین بھٹو کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اِس آئین کو بنانے والی اسمبلی میں ہر طبقہِ فکر کی نمائندگی تھی اور اِس متفقہ آئین نے پاکستانی فیڈریشن کو ایک قومی دھارئے میں رکھنے کا کردار ادا کیا۔ دوسری طرف بھٹو نے ختم ِ نبوت کا قانون اسمبلی سے منظور کرواکر پوری دُنیا کے مسلمانوں کے دل جیت لیے۔بھٹو کی معاشی طور پر مضبوطی کے خواب نے کہ اپنی قوم کو امریکہ کی بجائے سوشلزم بلاک کی طرف رغبت دلائی۔ اسی لیے امریکہ بہادر کو پاکستان کے خلاف اقدامات کرنے پر مجبور کردیا یوں علاقے کا تھانے دار بننے کے زُعم میں بھٹو کی حکومت کو بر طرف کرکے آمریت مسلط کردی اور اِس ضیاء کی آمریت نے روس کے خلاف امریکہ کی بھرپور معاونت کی اور روس پارہ پارہ ہو گیا۔لیکن جیسے ہی امریکی مقاصد پورئے ہوئے تو امریکہ نے افغانستان کو بھی اکیلا چھوڑ دیا اور پاکستان کو بھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے مفادات کے تحفظ پر مامور جنرل ضیاء کو ایک حادثے میں مروادیا۔ یوں پاکستان کی سر زمین امریکی مفادات کی آمجگاہ بنی رہی بھٹو نے بہت کوشش کی کہ پاکستان کو آزاد معاشی نظام یعنی سرمایہ دارانہ نظام ِ معیشت سے بچانے کی بھر پور کوشش کی اور ایران اور عرب دُنیا سے تعلقات کو بہتر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ضیاء جس نے بھٹو کو پھانسی دلوائی اور بھٹو خاندان کو بعد ازاں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو خاندان کی موت غیر طبعی ہوئی ماسوائے نصرت بھٹو جس نے بہت عرصہ خود فراموشی میں گزارا اور کومے کی حالت میں ہی اگلے جہان سدھار گئی۔ شاہ نواز کی موت شام میں ہوئی، مرتضی کی موت اپنے بہن کے اقتدار کے دنوں میں ہوئی اور بے نظیر بھی لیاقت باغ میں گولیوں سے چھلنی کردی گئی۔ بے نظیر اپنے باپ کی پھانسی کے بعد جس طرح ایک آہنی خاتون کے طور پر پاکستانی سیاست میں نمودار ہوئیں اور جس طرح ضیاء کی موت کے بعد پاکستانی سیاست میں بھونچال بپا کر گئی اُس نے بھٹو کی سیاست کو پھر سے زندہ کردیا اور بے نظیر وزیراعظم کے طور پر منتخب ہوگئیں۔ بے نظیر نے اپنے باپ کی مانند پاکستان کو ایٹمی پاکستان بنانے کے سفر کو جاری رکھا۔ اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی کمپرومائز نہ کیا۔ نواز شریف کی سیاست کا مرکز و محور آغاز میں بطور ضیاء کے جانشین کے طور پر تھا لیکن بعد ازاں پاکستان میں دائیں بازو کے حلقے کا نمائندہ بن گئے اور بے نظیر لیفٹ ونگ کی سربراہ۔بے نظیر نے دو ادوار بطور وزیر اعظم گزارائے اور بے نظیر کی حکومت کا انداز اینٹی اسٹیبلیشمنٹ رہا یوں سول و ملٹری بیورو کریسی کے ساتھ بے نظیر حکومت کے تعلقات پنپ نہ سکے اور بے نظیر کے اداوار میں ملک کو معاشی طور پر بھی سنبھلنے کا موقع نہ ملا۔ نواز شریف اور بے نظیر کے ادوار پاکستان میں بہت زیادہ الزامات کے سیاست کے زیرِ اثر رہے اور اِسی اثناء میں نواز شریف نے موٹر وئے بنوائی اور ایٹمی دھماکے بھی کر ڈالے۔ یوں نواز شریف جو کہ ہمیشہ سول ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کی انکھوں کا تارا رہے اُن کی حکومت کو 12اکتو بر 999 1کو جنرل مشرف نے ختم کر ڈالا۔ نواز شریف کی حکومت کے خاتمے سے پہلے ہی بے نظیر کو سیاسی طور پر ہراساں کرنے کے لیے مختلف قسم کے مقدمات میں پھنسادیا گیا یوں بے نظیر کو مجبوراً جلا وطنی اختیا ر کرنا پڑی۔ مشرف حکومت گجرات کے چوہدریوں اور راولپنڈی کے شیخ رشیدوں کی مرہونِ منت رہی اور ملک میں نائن الیون کی بناء پر دہشت گردی کا بدترین تحفہ دئے گئی۔ بے نظیر کی پاکستان آمد مشرف کے ساتھ ایک این آر او کے تحت ہوئی اور بے نظیر کے ساتھ نواز شریف کے ہونے والے لندن میں معائدئے میثاق ِ جمہوریت کی بدولت نواز شریف کو پاکستان میں لانے کے لیے بے نظیر نے مشرف کو مجبور کردیا۔مشرف کی خواہش تھی کہ بے نظیر اور نواز شریف پاکستان نہ آتے تاکہ مشرف کی حکومت چلتی رہتی لیکن بے نظیر نے قائدانہ صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کیا اور مشرف کو مجبور کر دیا کہ وہ نواز شریف کو آنے سے نہ روکے۔یوں مشرف کی حکومت کے خاتمے کی داغ بیل رکھ دی گئی اور بے نظیر باوجود دھمکیوں کے، پاکستان پہنچ گئی لیکن بے نظیر کے دشمنوں نے بے نظیر کو لیاقت باغ میں شہادت کے رُتبے پر سرفراز کردیا۔ یوں وفاق کی علامت بھٹو کی نشانی بے نظیر شھید ہوکر امر ہوگئی لیکن پاکستان کی وحدانیت پر آنچ نہ آنے دی۔نواز شریف نے بے نظیر کی شہادت پر بے نظیر کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور محترمہ کو اپنی بہن قرار دیا۔ یوں ساٹھ کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے پاکستانی سیاست کو ایک نئے انداز سے ہم آہنگ کیا تھا اور بے نظیر نے خود کو اپنے باپ کی سیاسی وارث ثابت کردیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بھٹو کے نام کے گرد ہی گھومتی ہے۔ بر صغیر پاک وہند میں موروثی سیاست کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اِس لیے پاکستان میں بھٹو خاندان اور بھارت میں اندراگاندھی کے خاندان بنگلہ دیش کی خالدہ ضیاء اور حسینہ واجد موروثی سیاست کی مثالیں ہیں۔ پاکستان میں جس طرح سے پیپلز پارٹی نے سیاست کی اور جس انداز میں بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے حکمرانی کی ہے اِس بات کا اعادہ کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں پی پی پی کی سیاست میں فعالیت کا دارومدار بھٹو نام پر ہے۔ جو بھی پیپلز پارٹی کی سیاست میں بھٹو نام کے علاوہ پی پی پی کے نام پر سیاست کرنے کی کوشش کرتے رہے وہ زیرو ہوتے چلے گئے۔ لیکن ایک بات طے ہو چکی ہے کہ شائد بے نظیر کے بعد کے حالات اب پارٹی کے لیے بہتر نہیں رہے۔ کوئی کیسے اندازہ کر سکتا تھا کہ پیپلز پارٹی جس نے عشروں تک لوگوں کے دلوں پر حکومت کی آخر ایک دن غریب الوطنی کا شکار ہوجائے گی۔ حریت، جمہوریت کی دعوئے دار پیپلز پارٹی اب صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کراچی کی سیاست میں ایم کیو ایم کے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی کی نفوس پزیر نہیں رہی۔تحریک انصاف نے بھی کافی زور لگایا لیکن چونکہ کراچی میں ووٹ بھی پول بہت کم ہوئے جس کا فائدہ عمومی طور پر ایم کیو ایم کو گیا۔ ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے۔پاکستانی تاریخ میں بھٹو خاندان کی سیاست میں قربانیوں کی ایل لازوال داستان ہے۔ بھٹو سے لے کے بلاول زرداری تک پیپلز پارٹی نے جو سفر طے کیا ہے اُس حوالے سے عام تاثر یہ ہی ہے کہ جناب آصف زرداری کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے لوگ نالاں ہیں۔ گیلانی صاحب جو کہ زرداری صاحب کے دور میں وزیر اعظم رہے وہ بھی ضیا الحق کی کابینہ کے منسٹر تھے۔ یوں دورنگی سیاست نے پیپلز پارٹی کے حقیقی کارکنوں کو بد دل کیا۔ سوائے سندھ کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی مزید سکڑتی چلی گئی ہے۔پارٹی میں شائد کشش بھی کھوئی کھوئی سی ہے۔ اِس حالات کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ کام ظاہری بات ہے پارٹی رہنماؤں کا ہے کہ وہ سرجوڑ کر غور فرمایں کہ پارٹی کے کارکنوں کا مورال کیوں گر رہا ہے۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 383266 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More