رات کے دس بجکر پچاس منٹ ھوچکے
تھے۔ میں اور مرتصیٰ گزشتہ آدھے گھنٹے سے گروسری اسٹور کے باھر کھڑے
انتہائی بےچینی کے ساتھ ٹیکسی کا انتظار کررہے تھے۔ مرتضیٰ ہر پانچ منٹ کے
بعد اسٹور کے کسٹمر سروس کاؤنٹر سے کیب کمپنی کو فون کر کے انہیں فوراً کیب
بھجوانے کی تاکید کرتا لیکن اس روز نہ جانے ایسی کیا قیامت آن پڑی تھی کہ
کیب آ کے نہیں دے رہی تھی اور ہمیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ ہم لوگوں نے
بےشمار گروسری کرلی تھی اور جسکی بڑی تعداد آئسکریم، جوس، منجمد اشیاٴ
خوردونوش، دہی اور مکھن وغیرہ پر مشتمل تھیں جو کے بہت جلد خراب ھوسکتی
تھیں۔
میں اور مرتضیٰ ابھی اسی سوچ میں غلطاں تھے کہ آخر کیا کیا جائے کے اچانک
اسٹور کا خود کار برقی دروازہ کھلا اور اسمیں سے ایک گوری خاتون باہر نکلی
اور تیز قدموں سے چلتی ھوئی ھماری جانب آئی۔ اس کے سینے پر مینجر کا بیج
آویزاں تھا۔ پاس آتے ہی وہ ہم سے مخاطب ھوئی: "مجھے کسٹمر سروس پر موجود
ڈیوٹی کلرک نے بتایا ہے کہ آپکی بیشمار کالوں کے بعد بھی اب تک کیب نہیں
آئی۔ کبھی کبھار رات کے وقت ایسا ھو جایا کرتا ہے۔"
اسکے خاموش ھوتے ہی مرتضیٰ بولا: "دراصل ہمیں یہ فکر لاحق ہے کے کہ ہماری
گروسری میں اکثر چیزیں ایسی ہیں جو جلد خراب ھو سکتیں ہیں۔"
مرتذیٰ کی بات سن کر وہ خاتون مسکرا کر بولی: "میں ابھی کسی مددگار کو
بھجوا کر سارا سامان کولڈ اسٹوریج میں رکھوائے دیتی ھوں۔ اگر آپ لوگ مزید
انتظار نہیں کرنا چاہتے تو میں ابھی ریفنڈ بھی کروادیتی ھوں لیکن آپ لوگ
کیب کا مزید انتظار کرنا چاہتے ہیں تو چونکہ ہمارا اسٹور رات گیارہ بجے بند
ھو جاتا ہے، میں ایک کیش کاوٴنڑ کھلا رکھواتی ہوں تاکہ مزید پندرہ بیس
منٹوں میں اگر کیب نہ آئے تو آپ لوگ اپنا ریفنڈ حاصل سکیں۔"
مرتضیٰ اور میں نے اسکا بیحد شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم کچھ دیر اور
انتظار کرینگے۔ ہماری بات سنکر اسنے اپنا سر ہلایا اور واپس جانے کیلئے مڑی
اور پھر اچانک نہ جانے کس خیال کے تحت دوبارہ پلٹی اور بولی: "آگر کیب نہ
آئی تو آپ لوگ واپس کیسے جائیں گے، اگر ایسا کوئی مسئلہ درپیش ھوں تو مجھے
آگاہ کیجئے گا، میں اسٹور کے کسی کارکن کے ہمراہ آپکی سواری کا بندوبست
کروا دونگی۔"
میں اور مرتضیٰ اس خدائی خدمتگار کا بس شکریہ ہی ادا کرتے رہ گئے۔ بحرحال
کچھ دیر بعد کیب آ گئی۔ مرتضیٰ فوراً اندر جا کر کولڈ اسٹوریج سے ساری
گروسری نکلوا لایا اور یوں ہم گھر کو پہنچے۔
یہ آج سے کم و بیش پانچ چھے برس قبل کی بات ہے جب ہم امریکا میں اپنے اہل
خانہ کے بغیر ریاست فلوریڈا کے ایک دور افتادہ قصبے میں ایک ادارے جس کے
لئے ھم کام کرتے تھے، کی جانب سے فراھم کردہ اپارٹمنٹ میں اپنے ایک اور
ساتھی کارکن مرتضیٰ کمال، بحسن اتفاق جنکا تعلق بھی ہماری طرح کراچی ہی سے
تھا، کے ہمراہ مقیم تھے۔ ادارے کا فراھم کردہ اپارٹمنٹ کام کی جگہ سے بےحد
نزدیک ہونے کے سبب ھم دونوں روزانہ پیدل ہی کام پر چلے جایا کرتے تھے لٰہذا
گاڑی وغیرہ کا جھنجھٹ بھی نہ پالا تھا۔ البتہ گھر میں کسی خاتون کے نہ ہونے
کے سبب آٹے دال کا بھاؤ تاؤ اور دال دلیہ کے بندوبست کی فکر خود ہمیں ہی
کرنا پڑتی تھی، لہٰذا ھفتے میں کم از کم ایک آدھ بار ھفتے بھر کے راشن
وغیرہ کی خریداری کے لئے بذریعہ بس گھر سے تقریباً تین چار میل کے فاصلے پر
موجود ایک گروسری اسٹور جاتے اور واپسی پر ٹیکسی پر سارا سامان لادھ کر لے
آتے۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد اتفاقاً کسی واقف کار کے توسط سے ہمیں پتہ چلا کہ
اس قصبے میں ایک عدد پاکستانی مٹھائی کی دکان ہے جہاں پاکستانی کھانے بھی
ملتے ہیں۔ یہ تو کچھ ایسا ہی تھا کے جیسے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے۔
بحرطور ہمارے اور مرتضیٰ کے درمیان یہ بات طے پائی کے کسی روز وہاں چل کر
کچھ عمدہ سی مٹھائی اور چٹپٹے پاکستانی کھانے کھائیں جائیں اور یوں ایک دن
ھم دونوں اس پاکستانی مٹھائی کی دکان جا پہنچے۔
وہاں پہنچ کر ھم نے چند مٹھائیاں بندھوائیں اور پھر دکان کے کاؤنٹر پر
موجود ایک پکی عمر کی بزرگ سی شخصیت سے اس وقت دستیاب کھانوں کے بارے میں
دریافت کیا جس پر انہوں نے بے شمار کھانوں کے نام گنوا دئیے اور غالباً ھم
نے مرغ بریانی اور نہاری کا آرڈر دے دیا۔ اچانک نہ جانے مرتضیٰ کو کیا
سوجھی، اس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے ان پکی عمر والے صاحب سے ایک سوال کر
ڈالا: " جناب آپ کے تمام کھانے حلال گوشت کے ہی بنے ہویے ہیں نا؟"
بس صاحب، خدا کی پناہ! مرتضیٰ کا یہ پوچھنا، سمجھیے کہ قیامت ہوگیا!!! ایسا
محسوس ہوا کہ جیسے بےخبری میں مرتضیٰ نے ان کی دکھتی رگ پر اپنا پاؤں رگھ
دیا ہو۔ وہ بزرگوار سخت جلال میں آگئے اور نہایت ہی غصے، بدتمیزی اور
اجڈپنے کے ساتھ آگ بگولہ ہو کر خوب گرج کر بولے: "یہ مسلمانوں کی دکان ہے،
آپ نے سمجھ کیا رکھا ہے، کیا ھم لوگوں کو حرام گوشت کھلا رہے ہیں؟"
مرتضیٰ بےچارہ شرمندگی سے بغلیں جھانکنے لگا اور جھینپ کر بولا: "ارے صاحب!
آپ اسقدر ناراض کیوں ہورہے ہیں، میں نے تو محض ایک سوال ہی تو کیا ہے۔۔۔!!!"
اس پر تو وہ صاحب مزید چڑھ گئے اور باآواز بلند چلا کر بولے:"میاں! یہ
مسلمانوں کی دکان ہے، یہاں کھانے حلال گوشت سے ہی بنائے جاتے ہیں، کھانا ہے
تو کھائیں ورنہ چلتے پھرتے نظر آئیں!!!"
شرمندگی اور خفت کے مارے ہماری زبانیں کنگ ہو کر رہ گئیں اور ہمیں ایسا
محسوس ہورھا تھا کہ جیسے ھم لالو کھیت کے کسی تیسرے درجے کے بھٹیارخانے کے
کسی اجڈ، بدتمیز اور جاھل بیرے سے مخاطب ہوں۔
وہاں سے نکلے تو سارے راستے ھمارے کانوں میں بار بار ایک ہی جملہ گونجتا
رہا: یہ مسلمانوں کی دکان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔! یہ مسلمانوں کی دکان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
یہ مسلمانوں کی دکان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
جبکہ نگاہوں کے سامنے کبھی اس بڑے میاں کا چہرہ گھومتا تو کبھی اس رات
گروسری اسٹور کے باھر ہمیں دلاسے دینے والی اس گوری خاتون مینیجر کا مہربان
چہرہ گھومنے لگتا اور ھمارے زہنوں میں بار بار ایک ہی سوال ابھر رھا تھا کہ
درحقیقت مسلمانوں کی دکان تھی کونسی؟ وہ جہاں اس روز ایک غیر قوم و مذہب سے
تعلق رکھنے والی خاتون نے ھمارے ساتھ کمال ہمدردی کا مظاہرہ کیا تھا! یا وہ
جہاں ھم آج گئے تھے اور اپنے ہی ھم وطن و ھم مذہب کے ھاتھوں زلیل ہوکر آرہے
ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! ایک وہ ہے جسے اس بات کا فکر لاحق ہے کہ ھم رات گئے پیدل
گھر کیسے جائیں گے! اور ایک وہ ہیں جسے ہمارا وہ سوال کسی گندی گالی کے
مترادف لگا کہ جسے پوچھنا صرف ہمارا حق ہی نہیں بلکے مذہبی فریضہ بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔!!!
گھر پہنچنے کے بعد مرتضیٰ بنا کوئی بات چیت کئیے مفت تقسیم کئیے جانے والے
اس اردو اخبار کے مطالعے میں مشغول ہوگیا جو وہ اسی دکان سے اٹھا لایا تھا۔
اچانک تھوڑی دیر بعد اخبار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے بولا: "ارے زرا
دیکھنا تو اس اخبار میں اسی دکان کا اشتہار چھپا ہے اور اس میں یہ دعویٰ
کیا گیا ہے کہ وہاں سارے کھانے حلال گوشت سے تیار کئیے جاتے ہیں، غلط ثابت
کرنے والے کو 1000 ڈالر انعام دیا جائے گا۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ
میں نے وہ سوال پوچھ کہ اس بڑے میاں کی کسی دکھتی رگ پر پاؤں رکھ دیا تھا،
جبھی تو وہ اتنی سی بات پر اسقدر لال پیلا ہورہا تھا کہ جیسے میں نے اسے کو
کوئی فحش گالی دے ڈالی ہو"۔
مرتضیٰ کی بات سن کر میں محض مسکرا دیا لیکن وہ دن اور آج کا دن میرے ذہن
میں ایک ہی سوال گردش کررہا ہے کہ آخر مسلمانوں کی دکان تھی کونسی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
شاید اس بات کا درست فیصلہ قارئین ہی کرسکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!! |