کس قدر تکلیف کے ساتھ مردم شماری ٹیم کی وین کے قریب
خود کش دھماکہ کی تکلیف دہ خبر سنی۔جس میں پاک فوج کے چارجوان اور دو استاد
شہید ہوئے ۔بلوچستان کے علاقے تربت میں بھی شرپسندوں نے مردم شماری ٹیم پر
بم حملہ کیا جس سے ایک سیکورٹی اہلکار زخمی ہوا ۔محاذ جنگ میں شہید یا زخمی
ہونا ایک اعزاز تصور کیاجاتا ہے لیکن اندرون ملک شہادت اور زخمی ہونے کی
اطلاعات کس قدر تکلیف دہ ہے ۔اس کی شدت کااندازہ الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔
ہر ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ مردم شماری کرنا کیا فوج کا کام ہے ۔؟
اگر جواب میں نہیں تو پھرسول ادارے(پولیس ٗ ایلیٹ فورس ٗ ڈیلفن اور سول
ڈیفنس) اپنی ذمہ داریاں کیوں پور ی نہیں کر رہے ۔پولیس کا ڈھانچہ تبدیل اور
انہیں جدید سیکورٹی تقاضوں کے مطابق تربیت کیوں نہیں دی جارہی۔ فوج کو ہر
کام کے لیے شہروں میں بلانے کی روایت ختم ہونی چاہیئے۔فوج ایک حساس ادارہ
ہے جس کا بنیادی کام سرحدوں کی حفاظت ہے لیکن مردم شماری کے لیے ایک ایک
فوجی کو الگ الگ گلی محلوں میں پیدل پھیرانا کہاں کاطریقہ ہے ۔ ایسی نوبت
ہی کیوں آنے دی گئی کہ ملک دشمن عناصر اپنے مذموم ارادوں کو تکمیل تک
پہنچائیں۔ اس میں شک نہیں کہ فوج کاہر جوان قیمتی اور انمو ل ہے جس کی
تربیت پر قوم کا کثیر سرمایہ خرچ ہوتاہے ۔ پھر فوج میں وہی لوگ شامل ہوتے
ہیں جودشمن کے عزائم کو ہر سطح پر ناکام بنانے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔ وہ
زندگی سے زیادہ موت سے پیار کرتے ہیں ۔ایک واقعے کاذکر یہاں کرنا ضروری
سمجھتاہوں۔ میں ایک ایسی محفل میں موجود تھا جس میں دو آرمی آفیسر بھی شریک
محفل تھے ۔ میں نے ایک آفیسر سے کہا ۔ اس وقت ہم ہنسی مذاق میں مصروف ہیں۔
ایک لمحے کے لیے ہم تصورکرتے ہیں کہ ہائی کمان کی جانب سے آپ کو ابھی اور
اسی وقت سیاچن جانے کا حکم ملتا ہے پھر آپ کے دلی جذبات کیا ہوں گے ۔ وہ
آفیسر اپنی جگہ سے یکدم اٹھا مجھے سلیوٹ کرکے کہنے لگا سر اسی موقع کی تلاش
میں تو ہم رہتے ہیں ۔ ہمیں وطن کے دفاع کے لیے سیاچن سے بھی زیادہ خطرناک
اور بلند مقام پر بھیج دیا جائے ٗہم اسے اپنے لیے اعزاز تصور کرتے ہیں ۔
میں اس آرمی آفیسر کے جذبہ ایمانی اور موت سے بے خوفی دیکھ کر حیران رہ گیا۔
میری زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے کہ جس فوج کا ہر سپاہی اور افسر ایسا
جذبہ رکھتا ہو۔ اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں د ے سکتی ۔آرمی چیف نے
بالکل ٹھیک کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے پاک فوج بہت سخت جان ہو
چکی ہے اورہر چیلنج کامقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس کے برعکس
دنیا کی کوئی فوج چھپے ہوئے دشمن سے لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ پاک فوج
نے قبائلی علاقوں میں جس جرات اور بہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے
خلاف جنگ لڑی اور جیتی۔ اس کا برملااعتراف پوری دنیا کررہی ہے ۔ فوج اور
فوجی چھاؤنیاں بہت حساس تصور کی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ فوج کوشہر سے دور
ہی رکھا جاتا ہے تاکہ آستین میں چھپے ہوئے سانپ وہاں تک نہ پہنچ سکیں ۔
ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے کہ ایک فوجی اور استاد مردم شماری کے لیے
دروازوں پر دستک دیتے نظر آئے ۔ کسی بھی انسان کو اس بات کا علم نہیں ہوتا
کہ جس دروازے پر دستک دی جارہی ہے ۔ وہ شریف شہری ہے ٗ دہشت گرد یا سہولت
کار ہے۔ یہ دیکھے بغیر مردم شماری والے عملے کے ساتھ فوج کا جوان بھی ٗہر
گھر کے باہر پندرہ بیس منٹ تک کھڑا رہتا ہے ۔ دروازہ کھلتا ہے تو اندر کوئی
شریف انسان نکلتا ہے یا دہشت گرد اس کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے پھر یہ امر
بھی تکلیف دہ ہے کہ عوام میں شعور نہ ہونے کی بناپر مطلوبہ معلومات مردم
شماری کے عملے کو دستیاب نہیں ہورہیں ۔یہ فوج اور استاد کی توہین نہیں تو
اور کیا ہے ۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ملک دشمن عناصر اور دہشت گرد
ہمارے شہروں میں ہی چھپے بیٹھے ہیں جو شکل سے تو ہم جیسے ہی دکھائی دیتے
لیکن وہ دہشت گردوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان حالات میں فوج کو مردم شماری
کا کام سونپنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے ۔ بلاشبہ اس کی ذمہ دار
حکومت پاکستان ہے ۔پولیس عوام کے اندر رچی بسی ہے پھر ہماری پولیس کواس بات
کا بھی علم ہے کہ اس کے ماتحت علاقے میں کتنے جرائم پیشہ افراد رہتے ہیں۔
اول تو مردم شماری کے عملہ کو اکیلے ہی یہ کام کرنا چاہیئے تھا اگر تھوڑی
بہت مدد کی ضرورت تھی تو متعلقہ تھانے کے عملہ کے ساتھ ایلیٹ فورس کو بھی
استعمال کیاجاسکتاہے ۔ الیکشن کاانعقاد ہوٗ سیلاب یا زلزلے کی آفات ہوں ٗ
جب بھی قوم پر کوئی مصیبت یا آفت ٹوٹتی ہے تو سول اداروں صفر ہوجاتے ہیں
اور فوج کو ہی مد د کے لیے آنا پڑتا ہے ۔ اب یہ روایت ختم ہونی چاہیئے۔ اب
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ دہشت گردوں کا نشانہ حساس تنصیبات کے ساتھ
ساتھ فوجی جوان بھی ہیں ۔ پھر انہیں گلی گلی ٗمحلے محلے اور گھر گھر پھرانا
کہاں کی دانش مندی ہے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس بدبخت شخص نے مردم شماری
کی ٹیم پر خود کش حملہ کیا ہے کیا وہ آسمان سے اترا تھا ۔ وہ قرب و جوار کے
علاقوں میں ہی کہیں موجودتھا۔کیا اب ضمانت دی جاسکتی ہے کہ ایسے ہی بدبخت
افراد اور کتنے ہماری صفوں میں موجود ہیں ۔ پاک فوج کاشمار دنیاکی بہترین
اور جنگجو افواج میں ہوتا ہے ۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ فوج سے وہی کام لیا
جائے جو فوج کے لیے مخصوص ہے مردم شماری پولیس کرے ٗ ایلیٹ فورس کرے یا اس
مقصد کے لیے ڈیلفن کو استعمال کیاجائے ۔کم ازکم فوج کو اس کام سے مبرا
کیاجائے ۔ اس لمحے عوام کو بھی کو اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا ہوگااگر
عوام فوج سے والہانہ محبت کا اظہار کرتی ہے تو عوام کو فوجی جوانوں اور
فوجی تنیصبات کی حفاظت کا فرض بھی ادا کرنا ہوگا جو ان کی حفاظت کے لیے
اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔مجھے خوشی ہوگی اگر میں اپنے فوجی بھائیوں کی
حفاظت کرتا ہوں جام شہادت نوش کروں ۔ یہ وقت ہے کہ ہر پاکستانی کو ایسے ہی
جذبات کے اظہارکا ہے ۔ جہاں جہاں بھی فوجی جوان دکھائی دیں ان کی عزت
افزائی کریں اور ان کے دفاع کے لیے عوام ڈھال بن جائیں ۔ موت کا ایک وقت
مقرر ہے پھر ڈر کاہے کا۔ ہر شخص کو اپنے گھر اور اردگرد کے ماحول پر ضرور
نظر رکھنا ہوگی تاکہ آستین میں چھپے ہوئے سانپوں کو واردات سے پہلے ہی کیفر
کردار تک پہنچایاجائے اور فوج سمیت وطن عزیز کا تحفظ ممکن بنایاجائے ۔ |