الور: وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے یوم تاسیس پر رام نومی کے دن پارٹی کے رہنماوں اور کارکنوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ یہ ’فخر‘ کی بات ہے کہ ملک کے تمام طبقوں نے پارٹی پر اعتماد کیا ہے۔ان کےدیگر دعووں کی طرح یہ بھی ایک کھوکھلادعویٰ ہے لیکن اگر درست مان لیا جائے تو انہیں بتانا ہوگا کہ بی جے پی نے ملک کے تمام طبقات خصوصاً مسلمانوں سے اعتماد شکنی کیوں کی؟ جس وقت یہ بیان نشر ہورہا تھا ذرائع ابلاغ پر راجستھان کے الور میں گئو رکشک غنڈوں کے ذریعہ میوات کے پندرہ لوگوں کے زدوکوب کیے جانے کی خبر نشر ہورہی تھی جن میں سے۵۵ سالہ پہلو خان اسپتال میں دم توڑچکے تھے۔سوشیل میڈیا کی ویڈیومیں ۵لوگ دوافراد کو زدوکوب کرتے نظر آتےتھے ۔ خونخوار بھیڑیوں کیکھلے عام سفاکی سے بے نیاز بے حس عوامشرپسندوں کی حامی تھی ۔ سبزی خور حیوانوں کی یہ حرکت گوشت خوری کے خلاف سارے پروپگنڈے کو جھٹلا رہی تھی۔

اس ظلم کی سیاسی توجیہ کے علی الرغم قرآنی رہنمائی یہ ہے کہ اللہ کے باغیوں کااقتدار ان کے فساد کو الزام تراشی سےقتل و غارتگری کے حدود میں داخل کردیتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے۔’’ واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘۔ عصر حاضر میں فسطائیت کا من و عن یہی طریقۂ کار ہے کہ لوگوں کو تقسیم کرکےکسی ایک گروہ کو بلاجواز سارے فتنہ و فساد کا ذمہ داٹھہراکر ذلیل و رسوا کرو۔ اس مظلوم طبقہ پر ہر طرح کےظلم و جبر کو جائز بلکہ پسندیدہ قرار دو۔ قوم پرستی یا دیش بھکتی کے نام پر یہ گھناونا کھیل دنیا بھر میں کھیلا جارہا ہے۔

راجستھانپولیس کے مطابق گائے خریدنے سے متعلق دستاویزات پیش کئے جانے پر بھی حملہ آور نہیں مانے جبکہ ان کو طلب کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا ۔حملہ آوروں پرپٹائی اور دنگا فساد کرنے کی شکایت درج کر کے پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ نے قصوروار سزادینے کا یقین دلاتے ہوئے حملہ آوروں کا دفاع بھی کردیا ۔ وزیر کے مطابق گائےکی حمل و نقل غیر قانونی ہے، پھر بھی لوگ باز نہیں آتےاس لیےگئو رکشکوں کو روکنا پڑتا ہےلیکن گئو رکشکوں کاقانون ہاتھ میں لینا غلط ہے ۔ تشدد کے یہ سرپرست نہیں جانتے کہ گائے کو سرکاری بازارسے گئوشالہ میں چھوڑ نےکی خاطر نہیں خریدا جاتاکہ گئو بھکت گائے کے نام پر سرکار سے مدد لے کر خود کھاجایا کریں۔

۶اگست ۲۰۱۶؁ کو'دَ ٹربیون' نامی انگریزی اخبار مںی شائع ہونے والرتپورٹ کے مطابق گزشتہ سال جنوری سے جولائی کے درمیانراجستھان کے ہنگونیا میں سرکاری گئو شالہ کے اندر بیماری کی وجہ سے ۱۰۵۳ گائے ماہانہ کے حساب سے ۸۱۲۲گائیں مرگئیں اور۲۴ جولائی سے ۶ اگست کے دوران پانچ سو سے زائد گائیں حادثاتی موت کاشکار ہوئیں۔ اس گئو شالہ میں ڈھائی سال کے اندر ۲۷ ہزار گائے موت کے منہ میں چلی گئیں۔ یعنی اوسطاً یومیہ ۳۰گائیں بھوک ، پیاس اور بیماری کے سبب چل بسیں ۔ ہنگونیا گئو شالہ کی خبرکے پھیلتے ہی انتظامیہ بیدار ہو گیا۔ سرکاری افسروں نے کیچڑ میں دھنسی پڑی بھوکی پیاسی گائیں دیکھیں جن کی تصاویر اخبارات میں شائع بھی ہوئیں ۔ راجستھان کے چیف سکریٹری نے تسلیم کیا کہ ۵دن میں وہاں ۲۰۰گایوں کی موت ہوئی ۔ گئو شالہ کے۸۰فیصد باڑوں کی نالیاں بند تھیں۔ ہر طرف گوبر کا انبار تھا۔

ان واقعات کا بنیادی سبب بدعنوانی تھا اس لیے کہ گئو شالہ کے ۳۰فیصد ملازمین تنخواہ تو لیتےمگر کام پر آنےکی زحمت گوارہ نہیں کرتے تھے۔ یہ سب اس بی جے پی کی گئو بھکت ریاست میں ہورہا تھاجس کے لیڈر گئو رکشا کےموضوع پر طول طویل تقاریرفرماتے ہیں۔ کوئی گائے کاگوشت کھانے والوں کیلئے عمر قید کی سزا تجویز کرتا ہے کوئی جان سے مارنے کی دھمکی دیتا ہے۔ کسی کو گائے قومی جانورنظر آتی ہے۔ یہ لوگ گائے کو ماں بھی کہتے ہیں اور قومی جانور بھی قرار دیتے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ کوئی اپنی ماں کو جانور کیسے کہہ سکتا ہے چاہے وہ قومی ہی کیوں نہ ہو؟ راجستھان کی بے حس حکومت الور کے واقعہ کی مانند اس وقت بھی خاموش تھی۔ ہنگونیا واقعہ پر وزیر اعلیٰ کا کوئی بیان نہیں آیا تھا۔

اس معاملہ کا نوٹسعدالت نےلیا تھااور سرکاری بدانتظامی کے سبب گوبر کے دلدل میں پھنس کر مرنے والی گایوں پر گہری تشویش ا ظایر کیا تھا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو گئو شالہ کا معائنہ کرکے بد تر صورتحال رپورٹ پیش کرنے کیہدایت کی تھی۔ا ٹارنی جنرل نے باڑوں میں مری پڑی اور حالت مرگ میں مبتلا بے شمار گایوں کو بلڈوزر سے کھینچے جانے کا مشاہدہ کیا۔ ان کی جانچ کے مطابق اوسطاً یومیہ ۳۵ تا ۴۰ گایوں کی موت ہو رہی ہے۔اس دل دہلا دینے والے واقعہ کے منظر عام پر آنے کہ بعد کسی گئو بھکت کا خون نہیں کھولا اس لیے اس کاروبار میں ملوث سارے لوگ ہندو تھے اپنی نام نہاد ماں کے چارے کیلئے ملنے والے سرکاری مدد پر عیش کرنے والے اس دگر گوں صورتحال کیلئے براہ راست طور پر ذمہ دار تھے۔ الور میں بھی ہندو ڈرائیور کو چھوڑ دیا گیا اور مسلم مالکان کو نشانہ بنایا گیا اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ معاملہ گائے کے تقدس کا نہیں بلکہ فرقہ وارانہ عصبیت کا ہے۔

سنگھ پریوارگوا اور شمال مشرقی ریاستوں میں ووٹ کیلئے گائے کے ذبیحہ کو جائز قرار دے دیتاہے اور شمال مغرب و وسطی ہند میں ووٹ کیلئے انسانوں کو ذبح کرنے سے پس پیش نہیں کرتاکیایہ بدترین سیاست نہیں ہے؟اس بابت وزیر اعظم کا بیان درست ہے کہ گئو رکشا کے نام پر ۸۰فیصد لوگ دھندہ کررہے ہیں۔ یہ کاروبار جب سیاست کے بازار میں آتا ہے تو اس کی خسران بہت بڑھ جاتا ہے۔ اُترپردیش میں یوگی سرکار کے بعد پورے ملک میں گاؤکشی کے نام پر ڈر اور خوف کا ماحول پیداہو گیا ہے۔ گجرات انتخاب میں کامیابی کی خاطر گئوکشی کے قانون میں ترمیم کےگائے کے ذبح کرنے پر عمر قید کی سزا کا قانون بنا دیا گیا ہے۔ چھتیس گڈھ کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر رمن سنگھ نے جن کی نکسلوادیوں کے خلاف آواز نہیں نکلتی قتل کی دھمکی پر اتر آئےہیں۔ سماجوادی اور بی جے پی یکساں قراردینے والوں کو دادری کے بعد اکھلیش کے اقدامات اورالور کے وسندھراکے رویہ کا موازنہ کرنا چاہیے۔ بی جے پی سرکار نے جس طرح میوات کے مظلوم مسلم کسانوں پر رام نومی کے دن بلاوجہ اسمگلنگ کا الزام لگایا ہے اسے دیکھ مصحفی کا( ترمیم شدہ) شعر یاد آتا ہے؎
یہ عجیب رسم دیکھی کہ بروزِ رام نومی
وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا

اس سنگین واقعہ کا سب سے افسوسناک پہلو مختار عباس نقوی کا ایوان بالا میں بیان ہے۔ حزب اختلاف کی تشویش پر نقوی کے الفاظ من و عن ملاحظہ فرمائیں ’’ہمارے دیش میں یہ میسیج نہیں جانا چاہیے کہ ہم یہ ہتیا کو سمرتھن کررہے ہیں ۔ اس لئے کہ It is very sensitive issueکروڈ لوگوں کی بھاونا سے جڑا ہوا مدعا ہے۔ ہمارا ایساکوئی میسیج نہیں جانا چاہیے کہ ہم ہتیا کےسمرتھن میں کھڑے ہوئے ہیں ‘‘۔ نقوی نے ایک بات دوبار کہی ۔ انہیں اس حادثے میں مرنے والے کا نہ کوئی افسوس ہے اور اس کی فکر ہے بلکہ کیا پیغام جارہا ہے اس کیلئے وہ پریشان ہیں ۔ اس لیے کہ پیغام کا تعلق ووٹ بنک سے ہے ۔ اپنے ہندو ووٹ بنک کی چنتاا نہیں ستا رہی ہے۔ بی جے پی والوں کے نزدیک بھاونا صرف ہندووں کی ہے ۔ مسلمانوں کے تو کوئی جذبات ہی نہیں ہیں۔ نقوی صاحب سارے مسلمانوں کو اپنے جیسا بے حس سمجھتے ہیں ۔ گائے کو دودھ کیلئے لے جا نے والے کسان پہلو خان اور ان کے اہل خانہ کی فکر عباس نقوی کوہونی چاہیے تھی لیکن جس شخص کو دن رات کرسی کی فکر ستاتی ہو بھلا ووٹ بنک کی سیاست سے آگے سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟

اپنے بیان دوسرے نصف میں عباس نقوی نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ واقعہ کا انکار کردیا۔ وہ بولے ’’اس لیے جس پرٹیکیولر سٹیٹ کے بارے میں جو بات کررہے ہیں ، اس طرح کی کوئی گھٹنا ، جس طرح کی گھٹنا پیش کی جارہی ہے، ایسی کوئی گھٹنا زمین پر نہیں ہوئی ہے۔ جس میڈیا رپورٹ کے بارے میں بات کی جارہی ہے ، اس اسٹیٹ کی سرکار نے پہلے ہی کنڈیم کیا ہے‘‘ ۔ یہاں پر دوسوالات پیدا ہوتے ہیں کہ اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا تو ریاستی سرکار نے اس کی مذمت کیوں کی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ صوبائی سرکار کون ہے؟ کیا وہاں کی پولس، سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر اوروزیرداخلہ سرکار کا حصہ نہیں ہیں؟ صوبے سے قبل مختار عباس نقوی یہ بتائیں کہ اگر کچھ ہوا ہی نہیں تو مرکزی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے کیوں کہا کہ حکومت نے اس معاملے پر توجہ دی ہے اور پولیس نے ملزمین کے خلاف ایف آئی آردرج کی ہے ۔ کیا مرکزی وزیر داخلہ فرضی ایف آئی آرپر توجہ دے رہے ہیں؟سنگھ کی صحبت میں عباس نقوی نے قلابازی کھانے کا فن سیکھ لیا ہے اپنی صفائی میں وہ بولے میرا مطلب تھا اس طرح کے واقعات مدھیہ پردیش اور گجرات میں نہیں ہوئے ۔ یہ بھی جھوٹ ہے اس لیے کہ گئورکشکوں کی غنڈہ کردی ایم پی ، گجرات تو کجا ہریانہ، جھارکھنڈ، ہماچل پردیش ، یوپی اور مہاراشٹر میں سامنے آچکی ہے ۔ یہی وجہ ہے گئورکشک دہشت گردوں پر پابندی لگانے کی بات سپریم کورٹ نے ۶ ریاستوں سے کی ہے۔

راجستھا ن کے وزیرداخلہگلاب چند کٹاریہ کا بیان اوپر گذر چکا ہے جس میں انہوں نے دونوں فریقوں کو موردِ الزام ٹھہرا دیا ۔ کسی ایسے واقعہ میں جورونما ہی نہیں ہو دو فریق کیسے عالم وجود میں آگئے؟ وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ قصوروار پر کارروائی کی جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرضی واقعہ کا مقدمہ کیوں درج ہوا اور تحقیق کے چ ہورہی ہے؟ کٹاریا کاگئو رکشا کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے والوں کو وارننگ دینا کہ بہرور میں دودھ اور کھیتی باڑی کیلئے گائے لے جانے والوں کے ساتھ مار پیٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی کیا معنیٰ رکھتا ہے کٹاریہ کو؟ نقوی صوبائی حکومت کا حصہ کیوں نہیں سمجھتے ؟نقوی جیسے لوگ اپنے احمقانہ بیان سے خود بھی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں اور دوسروں کیلئے بھی مشکلات کھڑی کردیتے ہیں لیکن بی جے پی کے اندر جہاں ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے نقوی کی حیثیت اندھوں میں کانا راجہ کی سی ہے۔

سیاستدانوں سے ہٹ راجستھان پولیسنے پہلے تو دو سو لوگوں کے خلاف دنگا فساد کا کیس درج کرکے معاملے کو کمزور کرنے کی کوشش کی لیکن جب ویڈیو عام ہوگئی تو راہ راست پر آگئی ۔ ایس پی راہل پرکاش نے انکشاف کیا اس معاملےمیں راجکیہ کالج طلبا یونین کے صدر وپن یادو اور کالورام یادو کو گرفتار کرلیا گیاہے۔ اس گرفتاری سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ انپڑھ جاہلوں کی حرکت نہیں ہے بلکہ سنگھ کے پڑھے لکھے غنڈوں کا کارنامہ ہے۔ جولوگ تعلیم کو ہر مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں ان کیلئے اس میں سامانِ عبرت ہے۔ راہل پرکاش نے بتایا کہ اس معاملہ میں نامزد چھ دیگر ملزمان حکم چند، جگمل ، اوم پرکاش ،سدھیر سینی اور نوین سینی کی تلاش جاری ہے اور ان کی گرفتاری پر۵۔۵ ہزار روپے کے انعام کا اعلان کیا گیاہے۔ ان لوگوں نے پہلو خان کو دھمکی دی تھی کہ جو کوئی بھی گائے کے ساتھ بہرور سے گزرے گا اس کو پیٹا جائیگا۔ عام طور پر جب کسی مسلمان پر دہشت گردی کا لزام دھرا جاتا ہے تو مسلمانوں سے مذمت کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ کیا اس طرح کا مطالبہ اب ہندوسماج سے بھی کیا جائیگا؟ اوراس کیلئے ہندو دھرم کو موردِ الزام ٹھہرایا جائیگا؟

ذرائع ابلا غ نے اول تو مظلومین کوگائے کے اسمگلرس قراردیا اور کہا کہ ان کے پاس کاغذات نہیں تھے لیکن جب جئے پور میونسپلٹی کی مہر کے ساتھ رسید پیش کردی گئی تو یہ گمراہ کن غلط فہمی پھیلائی گئی کہ انہیں راجستھان سے دوسری ریاست میں گائےلے جانے کی اجازت نہیں تھی اس لیےان کے خلاف بہرور میں آربی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔یہ پابندی چونکہ ذبح کرنے کیلئے جانور کو دوسری ریاست میں لے جانے سے روکنے کیلئے ہے اس لیے پہلو خان اور ان کے ساتھیوں پر اس کا اطلاق ہی نہیں ہوتا ۔ مظلومین کے آبائی گاوں جئے سنگھ پور میں جاکر اخبار نویسوں نےجب تفتیش کی تو پتہ چلا کہ پہلو خان کے ہم سفر ذاکر خان اس گاوں کی سب سے بڑی ڈیری فارم کا مالک ہے۔ اس گاوں میں دس لوگ مویشی پالتے ہیں جن میں سے ایک پہلو خان اور اس کے اہل خانہ ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ مہنگے مویشی ذبح کیلئے نہیں بلکہ دودھ کی خاطر لے جائے جارہے تھے۔

یہ عجیب تماشہ ہے کہ آپ نیوزی لینڈ سے جرسی گائے تو میوات لاسکتے ہیں راجستھان سے نہیں ۔ گائے کی نسل کے ذبیحہ کے خلاف قانون عقیدہ و مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ معیشت کے پیش نظر بنایا گیا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے گائے کو بچانے سے ملک میں دودھ کی پیداوار بڑھے گی اور خوشحالی آئیگی۔ حالانکہ یہ منطق کمزور ہے اس لیے کہ گائے سے زیادہ دودھ بھینس دیتی ہے لیکن اس کے ذبیحہ کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ خیر اگر اسے مان بھی لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر گائے کو ہندو پالے تو اس سے خوشحالی آئے اور مسلمان کے پالنے سے بدحالی پھیلے ۔ بیچاری گائے کو کیا پتہ کہ اس کا مالک کس مذہب کا ماننے والا ہے۔ وہ تو بلاتفریق سبھی کوامرت جیسا دودھ دیتی ہے یہ تو گئوبھکشک ہیں جو اس میں نفرت کا زہر ملادیتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان گئو رکشکوں کو تفتیش کا حق کس نے دے دیا؟ وہ گائے کے ساتھ سفر کرنے والوں کے پاس سے نقدی اور موبائل لوٹ کر ان کو مارنے پیٹنے والے کون ہوتے ہیں؟ بلکہ ذاکر خان نے یہ الزام بھی لگایا کہ حملہ آور ان لوگوں کو زندہ جلانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ کیا یہی ہندوتوا ہے ؟ اور اگر ہاں تو انسانیت سے اس کا کوئی واسطہ بھی ہے؟ پہلے زمانے میں رابن ہڈ ٹائپ کے ڈاکو ہوا کرتے تھے آج کل وہ گیروا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔

اس معاملے میں ابتدائی طبی رپورٹ سے بھی یہ گمراہی پھیلائی گئی کہ پہلو خان دمہ کا مریض تھا اور وہ اس کی موت تنفس کا دورہ پڑنے سے ہوئی لیکن بالآخر پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے معاملہ صاف کردیا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ پہلو خان کی موت پٹائی کے بعد سنگین چوٹ لگنے سے ہوئی ۔پیٹ اور سینے پر گھونسے کے زخم پائے گئے۔ مقتول کے سینے اور پیٹ میں اندرونی چوٹ سے جسم کے اندر زیادہ مقدار میں خون بہہ گیا۔ اس لیے اب موت کی وجہ کو لے کر کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ میڈیکل بورڈ کے چیرمین ڈاکٹر پشپندرا کمار نے خودپوسٹ مارٹم کرنےکے بعد متوفی کے پیٹ اور سینے پر زخموں کی تصدیق کی ۔ اس کے بعد ہی نامعلوم افراد کے خلاف قتل کا معاملہ درج کیا گیا۔ ان حالات میں متاثرہ خاندان کی جانب حملہ آوروں کو پھانسی دینے کا مطالبہ صد فیصد حق بجانب ہے۔ وہ تمام ملزمن کو جلد ازجلدگرفتار کر کےانہیں پھانسی کی سزا دینے کی گہار لگا رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ حقوق انسانی کی تنظیم نے مقتول کے پسماندگان کو ایک کروڈ اور زخمیوں کیلئے دس لاکھ نقصان بھرپائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن آئندہ اس طرح کے واقعات کا اعادہ روکنے کیلئے مجرمین کو سخت سزا لازمی ہے۔

اس صورتحال میں سارے انصاف پسندوں کی اور خاص طور پر اہل ایمان کو میوات کے مظلومین کی خاطر آگے آنا چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے ’’تو کیوں نہ ایسا ہوا کہ تم سے پہلے جو قومیں تھیں، ان میں ایسے عقل مند ہوتے جو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ بہت کم تھے اور یہ وہ تھے جنھیں ہم نے ان میں سے (عذاب سے) محفوظ رکھا، جبکہ ظالم اس سامان عیش وعشرت کے پیچھے لگے رہے جو انھیں دیا گیا تھا اور وہ مجرم تھے۔‘‘۔ امت مسلمہ کی اپنی منصبی ذمہ داری ہے اس آیت کی روشنی میں ادا کرنی چاہیے کہ ’’موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا "اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انہی کے لیے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں"۔ اگر امت فساد فی الارض کو ختم کرنے کیلئے کمر بستہ ہوجائے تو ہم رب کائنات کی مدد و نصرت کے مستحق بنیں گے کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے ’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں‘‘۔ جب تک اس دنیا کی زمامِ کار اس کے باغی اور طاغی بندوں کے ہاتھوں سے نکل کر صالح لوگوں کے ہاتھ میں نہیں آجاتی ظلم و جبر کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ہماری یہ ذمہ داری ظلم و جبر کی چکی میں پسنے والےعالم انسانیت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1207600 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.