اسلامی فوجی اتحاد کیخلاف متنازعہ بیان بازی

کلیم اﷲ
سابق پاکستانی آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف ایک ہر دلعزیز فوجی سربراہ کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں کچھ عرصہ قبل تک دہشت گردی، خود کش دھماکے اور قتل و غارت گری عروج پر تھی۔ بھارت سمیت دیگر دشمن قوتوں کی مداخلت بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔ آئے دن ہونیوالے دھماکوں میں بے گناہ پاکستانیوں کی شہادت اور دفاعی اداروں پر حملوں سے مایوسیاں پھیل رہی تھیں۔ عوامی مورال گر رہا تھا کہ ایسے حالات میں جنرل (ر) راحیل شریف نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا۔ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کر دی گئیں۔بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا نیٹ ورک بکھیر کر رہ گیا اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی دہشت گردی کے آگے بند باندھ دیا گیا۔ یہ پوری پاکستانی فوج اور حساس اداروں کی بہت بڑی کامیابی ہے جنہوں نے دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں سے لڑائی لڑی اور انہیں خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔اس دوران جنرل (ر) راحیل شریف چونکہ پاک فوج کے سربراہ اور اس سارے عمل میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے اس لئے ملک دشمن قوتوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح ان کی کردار کشی کی جائے اور ان کی شخصیت کو متنازعہ بنایا جائے۔ اس کیلئے انہوں نے پاکستان میں موجوداپنے بعض تنخواہ داروں کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی مگر جنرل راحیل شریف نے چونکہ آرمی چیف کی حیثیت سے ایسے اقدامات اٹھائے کہ پوری قوم ان کیلئے دیدہ دل فرش راہ کئے ہوئے تھی اس لئے ان کیخلاف کسی قسم کا پروپیگنڈا کامیاب نہ ہو سکا۔ان کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ وہ لوگ جو فوج کو گالی دینا فیشن سمجھتے ہیں وہ بھی دبک کر بیٹھے رہے اور کسی کو جرأت نہ تھی کہ وہ پاک فوج کے سپہ سالار سے متعلق کوئی غلط بات کہہ سکے بلکہ یہ سب لوگ بھی ان کی تعریفیں کرتے دکھائی دیتے نظرآئے تاہم جیسے ہی وہ ریٹائرڈ ہوئے اور یہ خبریں آئیں کہ جنرل راحیل شریف نے اکتالیس ملکی فوجی اتحاد کی قیادت کی پیشکش قبول کر لی ہے تو ایک بار پھر ان کیخلاف منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا ۔ بعض سیاستدان اس سارے معاملے پر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں اور کہاجارہا ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان ملک شام کی طرح بن جائے گا۔سوشل میڈیا پر اپنی ہی فوج کے سپہ سالار کیخلاف انتہائی غلیظ پروپیگنڈا کیاجارہا ہے اور یہ بھی نہیں سوچا جارہا کہ ایسا کر کے وہ کس کے ایجنڈے پورے کر رہے ہیں۔ سعودی عرب مسلمانوں کا دینی مرکز اور پاکستان مسلم امہ کے دفاعی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے ان دونوں ملکوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔صیہونی و یہودی لابی کی طرف سے یمن کے باغیوں کی مددوحمایت کر کے سعودی عرب کو سازش کے تحت اس جنگ میں الجھا یا گیا اور سرزمین حرمین شریفین پر فتنہ تکفیر اور خارجیت پروان چڑھانے کی کوششیں کی گئیں تاکہ اسے عدم استحکام سے دوچار کیا جائے۔ اسی طرح معاشی طور پر بھی سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ ان حالات میں خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خطرناک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں کی مشاورت سے تکفیری گروہوں کی دہشت گردی کچلنے کیلئے اسلامی فوجی اتحادتشکیل دیا تو امریکہ و یورپ سمیت سب کافر قوتوں کو پریشانی لاحق ہو گئی اور اسلامی فوجی اتحاد کو ’’اسلامی نیٹو’’ قرار دیکر گھٹیا اور مذموم پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔ جب تک نیٹو ملک افغانستان اور عراق پر بمباری کر کے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا رہے تھے کسی کو اس دہشت گردی کیخلاف بولنے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن جیسے ہی مسلمان ملکوں کا اتحاد قائم ہواسب بیرونی قوتوں نے اسلامی اتحاد کیخلاف ہرزہ سرائی کا آغاز کر رکھا ہے۔اگرچہ اس اتحاد کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ اتحاد کسی ملک کیخلاف نہیں ہے اور یہ صرف دہشت گردی کو کچلنے کیلئے بنایا گیا ہے مگر دشمنان اسلام کو چونکہ مسلمانوں کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا اور ملکوں کی سلامتی و خودمختاری کیلئے پالیسیاں ترتیب دینا کسی طور برداشت نہیں ہے اس لئے منظم منصوبہ بندی کے تحت اس اتحاد کو متنازعہ بنا کر اس کی حیثیت کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ ایران اورعراق اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں اس لئے اس کا کوئی فائدہ نہیں اور جنرل (ر) راحیل شریف کو اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بالکل فضول اعتراض ہے۔ عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بارود برسا کر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر رکھی ہے وہ اس کی مرضی کے بغیر کس طرح کسی اسلامی اتحاد میں شامل ہو سکتاہے؟ اور ایران اگر اس اتحاد میں شامل ہونا چاہتا ہے تواس کیلئے بھی دروازے کھلے ہیں۔اسلام پسند قوتیں تو بار بار یہ کہتی رہی ہیں کہ ایران کو اس اتحاد میں شامل ہونا چاہیے تاکہ اس کے دوسرے مسلمان ملکوں سے الگ تھلگ رہنے کا تاثر ختم ہو سکے۔حقیقت یہ ہے کہ اکتالیس ملکی فوجی اتحاد کی مخالفت کیلئے سرے سے کوئی بنیاد نہیں ہے محض ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پروپیگنڈا مہم چلائی جارہی ہے جسے کسی صورت درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چند سال قبل تک بعض لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ مسلمان جب تک متحد نہیں ہوں گے وہ بڑی قوتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے یعنی دوسرے لفظوں میں یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ انہیں غیر ملکی قوتوں کی بالادستی تسلیم کر لینی چاہیے مگر اب جبکہ اسلامی فوجی اتحاد تشکیل دے دیا گیا ہے توا س کیخلاف بھی یہی لوگ بڑھ چڑھ کر اس پروپیگنڈے کو پروان چڑھا رہے ہیں جواغیار کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ اس سارے پروپیگنڈا کے پیچھے پاکستان اور سعودی عرب کے مثالی تعلقات کو نقصان پہنچانا اور ان دونوں ملکوں میں باہم دراڑیں پیدا کرنا مقصود ہے۔ امریکہ، یورپ اور دیگر قوتیں کسی طور نہیں چاہتیں کہ مسلمان ملک ان کے کلچ سے نکلیں اور مشترکہ دفاع اور اپنی معاشی منڈیاں تشکیل دیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلم ملک ہمیشہ ان کے باجگزار بن کر رہیں یہی وجہ ہے کہ یہ اتحاد ان کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا اور بیرونی میڈیا مسلسل اس کیخلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں بھی بے پر کی اڑا کر یہی ماحول پیدا کرنے اور عوامی رائے عامہ کو تقسیم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔بعض سیاستدانوں کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جس طرح یمن کے مسئلہ پر پارلیمنٹ میں بحث کی گئی تھی اسی طرح اس معاملہ کو بھی پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے یعنی مقصد صرف یہ ہے کہ بحث شروع ہو اور پھر برادر اسلامی ملک کیخلاف بھانت بھانت کی بولیاں بولی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یمن تنازعہ کے وقت بھی موجودہ حکومت اس مسئلہ کو پارلیمنٹ میں لے گئی جہاں بعض لوگوں کی طرف سے برادر اسلامی ملک کیخلاف انتہائی گھٹیا زبان استعمال کی گئی اور بلاجواز الزامات لگاتے ہوئے باقاعدہ سعودی عرب کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا رہا جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات شدید خراب ہوئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بعض سیاستدانوں کی جانب سے جنرل (ر) راحیل شریف اوربرادر اسلامی ملک کیخلا ف نامناسب باتیں کی گئی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔اپوزیشن پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے کسی سیاستدان کی طرف سے کوئی ایسی بیان بازی نہیں ہونی چاہیے جس سے پاک سعودی تعلقات میں خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 119747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.