لوڈشیڈنگ کا بحران و سستی بجلی فراہم کرنے کے وعدے

موجودہ حکمرانوں کے دور میں گرمیوں کو تو چھوڑیں سردیوں میں بھی لوڈشیڈنگ کے عذاب مسلسل کو جھیلنے کے بعد اب یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ 2018ء تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ خاص کر 23بڑے شہروں کو اس سے پاک کرنے کا خواب پور اہونا نظر نیں آتا جبکہ 23شہروں کے علاوہ دیگر شہروں میں دورانیہ کو 6گھنٹوں سے کم کرکے 3 اور دیہاتوں میں آٹھ سے چار گھنٹے کرنا تھا۔ پی ایم ایل (ن) کے بڑے جسطرح سابقہ دور حکومت میں مداریوں کی طرح اچھل اچھل کر 6ماہ ، سال تک انرجی بحران کو ختم کرنے کے دعوے کرتے رہے جو ان کے اقتدار میں آتے ہی لمبے ہوتے ہوتے 2018ء تک پہنچ گئے کیونکہ انہوں نے بیماری کی اصل جڑ جو کہ کرپشن اور لائن لاسز ہیں کنٹرول کرنے کی بجائے صرف ایک ہی فارمولہ اپنائے رکھا کہ جتنا بل اتنی بجلی کے باعث واپڈا کے سفید ہاتھی پر سوار کرپٹ افسرانوں ، عملے کے بوجھ نے کرپشن کے ایسے طریقے نکال لئے جس کے باعث لاسز بڑھتے رہے اور ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ بھی بڑھتی رہی۔ مثال کے طورپر جرمانے عائد کرنے سے پہلے واپڈا کا قانون ہے کہ صارف کے لوڈ کو چیک کرنے کے علاوہ سپرنٹنڈنٹ صارف کو موقع پر میٹر میں کی گئی کسی خرابی ، کنڈے وغیرہ کے بارہ میں آگاہ کرتاہے لیکن جرمانوں کا تمام تر سلسلہ اکثر دفاتر میں بیٹھ کر مکمل کیاجاتاہے ۔ ناجائز جرمانے عام صارفین پر ڈال کر انہیں دفاترکے طواف پر مجبورکیاجاتاہے۔ ظاہرہے غلط جرمانے صارف نے ادا کرنے نہیں ہوتے ابھی وہ ایک جرمانے کو پیٹ رہاہوتاہے کہ اس پر دوسرا جرمانہ آجاتاہے پھر عدم ادائیگی کے باعث چند ماہ بعد اسکا میٹر اکھاڑ کر پی ڈی میٹر پر دھڑادھڑ جرمانو ں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع رہتاہے۔ جرمانو کی یہ رقم لاکھوں میں پہنچادی جاتی ہے۔ اسطرح پی ڈی میٹروں کے ضمن میں ملک بھر میں اربوں کی رقم صارفین پر بقایا ڈال کر اپنے بھتہ خوری کو برابر کیاجاتاہے جو بجلی ملی بھگت سے چوری ہوتی ہے وہ پی ڈی میٹروں پر ڈال کر برابر کی جاتی ہے۔ اس طرح نہ تو یہ جرمانے ادا ہوں گے اور نہ ہی لوڈشیڈنگ میں کمی آئے گی۔ کرپشن کا یہ طریقہ لاسز میں دن بدن اضافے کا باعث بن رہاہے۔ دوسرے خاص کر کے پی کے میں فاٹا کے ٹرانسفارمر شہری علاقوں میں غیر قانونی طورپر بھاری رشوت لیکر نصب کئے گئے ہیں ۔ زراعت، صنعتوں، آٹے کی ملوں وغیرہ میں یہ غیر قانونی کام جاری ہے۔ ماہانہ کروڑوں کا نقصان بھی صارف کے ذمے ناجائز جرمانے ڈال کر پورا کیاجاتاہے۔ سارے شہروں اور دیہاتوں میں تاروں کا بوسیدہ نظام بھی لاسز میں اضافے کا بڑاموجب ہے۔ ان کی تبدیلی کی تو چھوڑیں واپڈا کے دفتر سے ایک گز تار تک کا ملنا محال ہے۔ کے پی کے میں جے یو آئی (ف) کے رحم و کرم پر پیسکو کا تمام نظام ایک دہائی سے ہے۔ JUI F نے ہمیشہ دوران اقتدار اور حکومتی حصہ ہوتے ہوئے جیسا کہ وہ اب بھی مرکزمیں ہیں، کرپٹ افسران اور کرپشن کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے فروغ دیاہے پیسکو کی تباہی و بربادی کے ذمہ داروں میں JUI F اورپی ایم ایل (ن) کا بڑا کردار رہاہے۔ JUI F کا پیسکو میں عمل دخل زرداری کے دور سے جاری ہے۔ موجودہ دور میں چیف پیسکو طارق خان سدوزئی کی تعیناتی سے شروع ہونے والا سلسلہ حال ہی میں ایک جونیئر چیف پیسکو کی تعیناتی تک جاری و ساری ہے۔ سیاسی طورپر اپنوں کو نوازنے کیلئے ٹرانسفارمر ، میٹرز، سرکل دئیے جاتے ہیں لیکن جہاں لاسز اور کرپشن ختم کرنے کیلئے ان کی ضرورت ہے وہاں گندی سیاست آڑے آجاتی ہے۔ مولانا برادران کے اپنے آبائی شہر حلقہ انتخاب ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ یہی حال کیا گیا ہے جہاں پر صارفین کی تعداد شمالی اور جنوبی وزریستان کے 5لاکھ مہاجرین کی آمد کے باعث 3لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے لیکن یہاں سرکل صرف اور صرف اکرم خان درانی سابق وزیراعلی کی مخالفت کے باعث منظور نہیں کیاجارہا جبکہ امیر مقام نے مانسہرہ میں صرف ڈیڑھ لاکھ صارفین کیلئے نیا واپڈا سرکل منظور کروالیا ہے۔ واپڈا میں کرپشن کی روک تھام اور انہیں نتھ ڈالنے کی ذمہ داری ایف آئی اے پر ہے لیکن وہ لمبی تان کر سویا ہواہے۔ سیاسی عمل دخل کے باعث تمام تر کرپٹ افسران ریٹائر ہونے پر ہی جان چھوڑتے ہیں۔ ایسے حالات میں رمضان المقدس، عید، بقر عید کے دنوں میں بھی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتنے ہیں۔ حکومت کا یہ دعوی کہ 2018ء لوڈشیڈنگ کا آخری سال ہوگا شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہاہے۔ مارچ کے ماہ ہی سے پورا ملک بشمول کراچی، لاہور، ملتان، پشاور کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کو برداشت کررہاہے۔ وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو لوڈشیڈنگ کے بارے میں سوالا ت کا موثر جواب نہ دے پائے۔ حکومت کی ناکامی آئندہ آنے والے الیکشن میں اژدھے کی مانند پی ایم ایل (ن) کو پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں نگلنے کو تیار ہے۔ آج سے دس سال پہلے بجلی کا جو شارڈ فال تھا وہ آج بھی 6000میگا واٹ کی صورت میں برقرار ہے۔ حکومت نے جو منصوبے بجلی کی پیداوار کیلئے شروع کئے وہ یا تو کرپشن کی نظر ہوگئے یا 2020تک مکمل ہوں گے ایسے حالات میں جہاں کرپشن اور سیاسی مداخلت غلط منصوبہ بندی، اقرباء پروری عروج پر ہو اگر تمام تر منصوبے بروقت مکمل بھی کرلئے جائیں تو لائن لاسز کو ختم کئے بغیر واپڈا کے بحران کا خاتمہ ناممکن ہے۔ اس کیلئے حکومت کو اخلاص کے ساتھ بروقت اقدامات کرنے ہوں گے۔ بصورت دیگر انرجی بحران جوں کا توں اور حکومتی دعوے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہورہے ہیں اور آئندہ ہوں گے۔ کم از کم کے پی کے میں JUIF کے چنگل سے واپڈا کو آزادی دلواکر یہاں کی عوام پر حکومت رحم کرے۔حکومت نے سستی بجلی دینے کا جو وعدہ پور اکیا وہ بھی پایہ تکمیل کو حکومت اور ایوانوں میں براجمان آئی پی پیز کے شراکت داروں کے باعث ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ایٹمی سائنسدان داکٹر ثمر مبارک کے مطابق تھر کے کوئلے سے 2010ء میں 125ملین تقریبا 9بلین روپے سے بجلی بنانے کے منصوبے کا آغاز کیا گیا ؤ ہم نے 28مئی 2015ء کو 6 روپے یونٹ کے حساب سے کوئلے سے بغیر کسی ماحولیاتی آلودگی کے سستی بجلی بنانی شروع کی ۔ ہم نے جب اس کی خوشخبری پلاننگ کمیشن کے احسن اقبال کو دی تو انہوں نے بجائے اسے خوش آمدید کہنے کے ہماری فنڈنگ بند کردی۔ ہمیں9بلین روپوں میں سے صرف 3بلین رپے ادا کئے ہیں۔ بقول ڈاکٹر ثمر مبارک کے ہم کوشش کررہے ہیں وزیراعظم کے نوٹس میں بات لائے ہیں لیکن دو سال سے فنڈنگ بند ہے۔ یہ منصوبہ ایسی صورتحال میں بند ہوجائے گا ۔ بدقسمتی سے آئی پی پیز او رفرنس تیل فراہم کرنے والوں میں سیاسی جماعتوں کے لوگ حصہ دار ہیں جو عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے میں رکاوٹ ہیں۔ ایسی صورتحال میں انرجی بحران کے خاتمہ کے حکومتی دعوے سراب نظر آتے ہیں۔

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.