پورس کے ہاتھی :ـلبرل سیاست دان اور فوج

کہا جاتا ہے کہ526 قبل از مسیح میں شہزادہ پورس ، سکندر اعظم کے خلاف دریائے جہلم کے مقام پر مدِمقابل ہوا ۔ اس کی فوج میں بہترین گھڑ سواروں کے ساتھ ہاتھیوں کی بھی ایک فوج تھی ۔ سکندرِ اعظم کے لیے یہ فوج ایک دہشت تھی لیکن جنگ کے چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ آسمانی بجلی اور برستی بارش نے ہاتھیوں کو بوکھلا دیا ۔ وہ ہاتھی جن کے بل بوتے پر پورس سکندرِاعظم سے جنگ میں فتح کی امید رکھتا تھاانھی ہاتھیوں نے بدمست ہو کر اپنی ہی افواج کو پاؤں تلے روند ڈالا ۔یہاں تک کہ شہزادہ پورس زخمی ہوکر جنگی قیدی بنا دیا گیا اور اسے سکندر اعظم کی جانب سے ایک بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔

تاریخ میں اسی طرح کا ایک او ر واقعہ بھی پیش آیا جب ابراہہ نے ہاتھیوں کے ایک لشکر کے ساتھ مکہ المکرمہ کو تباہ کرنے کی ٹھانی اور خود تباہ و بربادہو گیا ۔(اس واقعہ کی تفصیل سورت فیل میں موجود ہے )۔الغرض تاریخ گواہ ہے جنھوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا تباہی ان کا مقدر ٹھہری ۔

پاکستان کی تاریخ بھی کچھ ایسی ہے ۔ ستر سالہ زندگی میں ارض ِ وطن کئی بحرانوں کا شکار ہو ا۔ایک بحران کے بعد دوسرا ، یہ قوم اس کا مقابلہ کرتی آئی ہے ۔ ہم نے وہ درد و الم سے بھرپور واقعہ بھی دیکھا کہ اپنے ہی ملک کو دو لخت ہوگیا۔ملک کا ایک بازو کاٹ کر الگ ملک کی حیثیت دے دی گئی ۔ مشرقی پاکستان میں احساس ِ کمتری اتنا پروان چڑھا کہ مکتی باہنی کا قیام عمل میں آگیا اور مسلح بغاوت کا آغاز بلآخر وفاق سے جدائی کا سبب بنا ۔ اگرچہ پاک فوج نے اس بغاوت کو دبانے اور اس بغاوت کا جڑ سے خاتمہ کرنے کی بے حد کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ اس وقت مشرقی پاکستان کی عوام فوج کے ساتھ نہ تھی بلکہ ان سے بدظن تھے ، اس لیے کامیابی ممکن نہ تھی ۔یہاں تک کہ مشرقی پاکستان سے کمشن لینے والے فوجی بھی وفاق پاکستان سے بدظن تھے ۔فوج مکتی باہنی اور بھارت سے اکیلی نبرد آزما تھی ، نہ تو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے سیاست دان فوج کے ساتھ تھے بلکہ عوام بھی فوج کے ساتھ نہ تھے ۔ نتیجہ یہ ہو ا کہ پاک فوج کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بھارت نے پاک فوج کے افسران کو ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔جب عوام اور سیاست دان فوج کے ساتھ نہ ہو تو فوج کا مورال از خود پست ہو جایا کرتا ہے ۔ فتح و نصر ت صرف اور صرف اس وقت یقینی ہو تی ہے فوج ، سیاست دان اور عوام ایک ہی سطح پر ہوں ۔ ملکی سطح پر کوئی میر جعفر یا میر صادق نہ ہو ۔

پاکستان آج پھر سے تاریخ کے ایک نہایت ہی نازک موڑ سے گزر رہا ہے ۔ارض ِ وطن کا جائزہ لیں ، پورا ملک ایک ان دیکھی جنگ سے نبرد آزما ہے ۔ کراچی ہے تو بھتہ خوری ، ڈاکہ زنی ، اورمختلف وارداتوں کی آفت میں مبتلا۔شمالی علاقہ جات ہیں تو دہشت گردوں کی گرفت میں جن سے پاک فوج ہر لمحہ نبرد آزما ہے ۔ بلوچستان ہے تو اس علاقہ میں پس ماندگی کی وجہ سے احساس ِ محرومی کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس سلسلہ میں ایک نام نہاد تحریک آزادی کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے جس میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے قوی امکانات ہیں ۔اس تحریک کے بانیوں نے میڈیا میں بھی دشمن ملک کا شکریہ ادا کیا کہ اس ملک نے ان کی مالی اور عسکری مدد کی ہے ۔

المیہ یہ ہے کہ جب پاک فوج ، دیگر اداروں جن میں پاک بحریہ ، پاک فضائیہ ، زینجرز ، اور دیگر سیکیورٹی ادارے شامل ہیں کے تعاؤن سے دشمنوں کے خاتمہ کے لیے عملامیدان میں آتی ہے اور آپریشن رد الفساد کا آغاز کرتی ہے ۔ ملک کو دہشت گردی اور بے انصافی کے چنگل سے نکالنے کے لییعملی اقدامات کرتی ہے تو ہمارے ہی ملک کے نام نہاد سیاست دان ، میڈیا میں پاک فوج کو للکارنے اور اس آپریشن کو ختم نہ کرنے کی صورت میں سنگیں نتائج کی دھمکیاں لگتے ہیں ۔ پاک فوج کے خلاف دشمن کی مدد کے لیے آہ و بکا کرنے لگتے ہیں ۔ ملک میں ایسے لبرل بھی موجود ہیں جو بلوچستان میں دشمن ملک کی مالی مدد سے جاری تحریک آزادی کو وہاں کے عوام کے حقوق کی تحریک گردانتے ہیں ۔ جب کسی بڑے مجرم کو سزا سنائی جاتی ہے تو یہ ملک دشمن نواز مفکرین لبرل ازم کا رونا رونے لگتے ہیں ۔ان سیاست دانوں اور نام نہاد لبرلز کو اپنے ہی ملک میں گرتی لاشیں ، اپنے ہی ملک کی سسکتی مائیں ، کٹے پھٹے جسم ، سہیون شریف میں اپنی مرادوں کو لے کر آنے والے وہ افراد جن کے پیاروں نے ان کے لاشے اٹھائے نظر نہیں آتے ۔ انھیں وہ ننھے بچے بھی نظر نہیں آتے جو مستقبل کے سنہرے خواب آنکھوں میں لیے جب سکول جاتے ہیں تو لہو میں نہائے واپس آتے ہیں ۔ یہ وہ لبرل ہیں جو بند کمروں میں منرل واٹر پینے والے اور لبرل ازم کا تعرہ لگانے والے ان ماؤں کے دکھوں کا ادراک نہیں کر سکتے جن سے ان کے بیٹے چھن گئے اور نہ ہی انھیں وہ بہنیں ، بیٹیاں دکھائی دیتی ہیں جن کے جسم دھماکوں میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ۔ یہ کیسے بے حس لو گ ہیں جو کہ اپنے ہی محافظوں کے خلاف دشمن کو آواز دے رہے ہیں ؟

یہ نام نہاد لبرل اور حقوق کا نعرہ لگانے والے سیاست دان پورس کے وہ ہاتھی ہیں جو اپنی ہی فوج کو اپنے قدموں تلے روندنے کو تیار ہیں ۔ یہ اپنی فوج ، اپنے وطن کو اپنے زبان اور قلم سے مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ اگر یہ سیاست دان اتنے ہی اچھے اور عوام کا درد دل میں رکھنے والے ہیں تو یہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ، اپنے اپنے علاقوں میں ترقیاتی اور فلاحی کام کرتے ، امن و اما ن کو یقینی بناتے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔

یاد رہے اپنے محافظوں کے خلاف دشمن کو پکارنے والے ہمارے نہیں بلکہ دشمن کے خیر خواہ ہیں ۔ یہ خود بھی جان لیں کہ دشمن ہم سب کا دشمن ہے ، ان کا بھی جو اسے مدد کے لیے پکار رہے ہیں ۔دشمن اگر مدد کرتا بھی ہے تو اس سے نیک نیتی کی امید رکھنا عبث ہے ْ۔ تاریخ گواہ ہے کہ دشمن نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیشن بنانے کے بعد اس کو بھی گزند پہنچانے سے گریز نہیں کیا ۔میر جعفر اور میر صادق کا انجام بھی یاد رکھئے ۔ تاریخ سے سبق سیکھیے ۔

میں تمام لکھاریوں ، کالم نگاروں ، سیاست دانوں سے گذارش ہے کہ اپنی ذمہ داری پہچانیے ۔ خدارا اپنے وطن کی اہمیت کو اجاگر کیجیے ۔ اپنے محافظوں کا ساتھ دیجیئے ، انھی کی بدولت آج ہم اپنے گھروں میں سکون کی نیند سو رہے ہیں ۔اور یہی پاک فوج ہے جو ہر آفت ، ہر مشکل میں تمام اداروں سے پہلے جائے وقوعہ پر پہنچتے ہیں ۔ ہمارے یہ بیٹے اور بھائی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔ اگر ہم ان کا ساتھ نہیں دیں گے تو ہمارا ملک تباہی کا نشان بن جائے گا۔
 

Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 149179 views i write what i feel .. View More