اس ساری کتھا سے پہلے ایک کہانی سن لیجئے ایک ایسا
شخص جو محنت مزدوری کرنے ملک سے باہر گیا تھا اور جس کے مالی حالات خراب سے
خراب تر ہو چکے تھے اس کی بیوی کے گاؤں کے ایک اوباش چودھری سے ناجائز
تعلقات ہو گئے۔کسی نے خط لکھ کر اسے آگاہ کیا کہ گھر واپس آؤ لٹ جاؤ گئے۔وہ
اگلی فلائٹ سے واپس آ گیا۔اس نے دیکھا کہ گھر میں ریل پیل ہے بیگم نت نئے
کپڑے پہن رہی ہے پوچھنے پر پتہ چلا یہ ماموں نے دیا یہ بھائی یہ فلاں نے
غرض وہ اسے مطمئن کرتی رہی کہ سارے جوڑے گفٹ میں ملے ہیں۔ایک دن اس نے
بہانہ کیا کہ وہ شہر جا رہا ہے اور وہاں سے دو ایک روز میں واپس لوٹے گا۔اس
کی آمد کے بعد اوباش لڑکے کی جان پر آ گئی تھی وہ اپنی محبوبہ سے ملنے کے
لئے تڑپ رہا تھا گناہ آلود زندگی گزارنے والی عورت نے اسے بتا دیا کہ گھر
والا شہر جارہا ہے تم آ جانا رات کے کسی پہر نوجوان واپس آیا خاوند ساتھ
والے کمرے میں چھپ کر بیٹھ گیا جیسے ہی اوباش نوجوان اس کی بیوی کے کمرے
میں گیا اس نے بندوق سنبھال لی اور سر پر کھڑا ہو گیا۔غصے سے اس کے نتھنوں
سے جھاگ بہنے لگی۔ دونوں کوعریاں حالت میں دیکھ کر وہ بھنا اٹھا اس نے
بندوق تان لی اسی لمحے اس کی بیگم نے کہا سن لو غیرت تو تمہیں آ رہی ہے
لیکن یہ یاد رکھنا جب تم مہینوں گھر کا خرچ نہیں بھیجتے تھے تو واحد یہ شخص
تھا جس نے ہمیں راشن دیا وہ جو میرے سوٹ تم دیکھ کر مجھ سے سوال کرتے تھے
وہ کسی ماموں یا بھائی نے نہیں دئیے تھے وہ بھی اسی نے مجھے گفٹ کئے تھے
اور تمہیں یاد ہو گا کہ بیٹی کی ٹانگ ٹوٹی تھی اس کا خرچہ بھی اسی نوجوان
نے دیا تھا۔جیسے جیسے احسانات کی فہرست وہ گنوا رہی تھی اس اوباش عورت کے
خاوند کی بندوق نیچی ہوتی گئی۔اور وہ یہ کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا باہر بڑی
سردی ہے ننگا ہے اس کے اوپر رضائی دے دو۔قارئین کرام یہ مثال میں نے عطا
الحق قاسمی کے ایک کالم سے نقل کی ہے جو انہوں نے مشرف دور میں لکھا تھا
اور جس میں حکومت پر شدید تنقید کی تھی حکومت قومی غیرت کو نیلام کر رہی
ہے۔ ان دنوں طالبان کی حمائت مین جناب عرفان صدیقی کے قلمی جوہر روز پڑھا
کرتے تھے ۔بارک نمبر ۳ کے قیدیوں کا اس کے علاوہ کام ہی کیا تھا(یاد رہے ہم
مارچ ۲۰۰۲ میں جدہ میں ترحیل جیل میں بند تھے )آج مدت بعد یہ کالم یاد آیا
اس وقت میرا سوال اس حکومت سے ہے کہ وہ کلبھوشن کے معاملے پر اس کے سینے پر
فائر مارے گی یا پھر رضائی ڈال کر منہ چھپا کر باہر نکل جائے گی اور جاتے
ہوئے یہ بھی کہے گی سردی ہے ٹھنڈ سے مر جائے گا یہ محسن ہے اس کے اوپر
رضائی دو۔
بھارتی جاسوس کو کل پاکستان کی فوجی عدالت کی جانب سے سزائے موت دے دی گئی
ہے۔جناب ہندوستان کی بحریہ کے حاضر سروس ملاز م تھے ان کا عہدہ کرنل کے
برابر ہے۔جاسوسی کے لئے ہر ملک اپنے ذہین اور شاطر افراد کو استعمال کرتا
ہے اس کے لئے انہیں بعض اوقات مختلف خول چڑھا کر مختلف ممالک میں بھیجا
جاتا ہے ۔
کل بھوشن سے پہلے ہمیں ایک اور کردار کا بھی ذکر کر لینا چاہئے جس کا نام
اجیت دوول ہے یہ شخص داتا دربار کے باہر ایک مدت تک جاسوسی کرتا رہا وہ
اتنا کامیاب تھا کہ اسے مودی سرکار نے قومی سلامتی کا مشیر بنا رکھا ہے
گویا لاہور میں ہونے والی کاروائیوں کے پیچھے یہی حضرت تھے۔جاسوسی کا کام
معلومات کے تبادلے تک ہو تو پھر بھی کوئی بات نہیں یہ لوگ یہاں کے ملک دشمن
عناصر کی سر پرستی کرتے ہیں انہیں بھاری رقوم دے کر اپنے مقاصد حاصل کرتے
ہیں۔بھارت کے ان مذموم کاموں کو صرف ایک بار اقوام عالم کے سامنے رکھا گیا
اور وہ دور یوسف رضا گیلانی کا دور تھا جب انہوں نے بھارتی چیرہ دستیوں اور
اس قسم کی حرکتوں سے اقوام متحدہ جیسے اداروں کو آگاہ کیا شرم الشیخ میں
ایک انتہائی اہم اجلاس میں سابق وزیر اعظم نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا تھا ۔
پاکستان کی فوج نے بڑی جراء ت کا مظاہرہ کیا ہے مزے کی بات ہے کہ کلبھوشن
کو قانونی مدد کے لئے سول سے وکیل کرنے کی سہولت بھی دی گئی۔حالت جنگ میں
گرفتار جاسوسوں کے ساتھ معاملات کسی اور طریقے سے کئے جاتے ہیں مگر اس طرح
کی صورت حال میں سزائے موت سے کم کوئی حل نہیں ہوتا۔پاکستان کی فوج کو سلام
جو گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں ایک جانب وہ افغانستان سیاہ چین اور
ملک کے دیگر حصوں سے لاشے اٹھا رہی ہے مردم شماری میں انہیں قربانیاں دینی
پڑ رہی ہیں لیکن اس کے بلند حوصلوں کو داد دئے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ وہ
ہر محاذ پر دلیری سے لڑ رہی ہے۔آج احساس ہوا کہ ملک دشمن قووتوں کے ساتھ
نپٹنے کے لئے فوجی عدالتوں کا قیام کیوں ضروری ہے ؟پاکستان کی قوم فوج کو
فیصلہ محفوظ نہ کرنے پر بھی سلام پیش کرتی ہے۔کلبھوشن کے لئے اب موم بتی
مافیا حرکت میں آئے گا ان کی دکانیں بھی چمکیں گی ۔اس جاسوس کے اہل خانہ کو
دنیاکے سامنے لایا جائے گا ۔
رات کو ایک نجی چینیل پر جنرل مشرف نے بتایا کہ کہ گزشتہ ایک سال سے
کلبھوشن کے اہل خانہ مسنگ پرسن ہیں اور انہیں بھارتی ایجینسیوں نے اپنی
تحویل میں لے لیا ہے۔دشمن کو علم ہے کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اسی
لئے اس نے چانکیائی حربے استعمال کرنے کے لئے اسکے اہل خانہ کو دنیا بھر
میں ہمدردی کے جذبات ابھارنے کے لئے فلمی ایکٹر بنانے کا فیصلہ کر لیا
ہے۔یہاں ہم نے جناب یوسف رضا گیلانی کی پاکستان دوستی کا تذکرہ کیا ہے لیکن
پیپلز پارٹی کے جناب بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیان در اصل فوجی عدالت کے
فیصلے پر تنقید ہے کہ ہم سزائے موت پر یقین نہیں رکھتے۔حضور آپ کے نانا کی
سزائے موت کا فیصلہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اس پر اس وقت بحث کرنا مناسب
نہیں یہاں سوال نانے کا نہیں قوم کی سلامتی کا ہے۔ آپ کی اس بات کو لے کر
انڈین چینلز نے کل سے دھوم مچا رکھی ہے کہ پاکستان کی ایک تیسرے درجے کی
پارٹی کے سربراہ نے کلبھوشن کی سزائے موت پر بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ
سزائے موت کا قانون ہی بدل جائے۔ہم آپ کی نیت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے آپ
کو یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ کیا آپ کسی کو فضا میں دھماکے سے اڑانے کی
حمائت کرتے ہیں؟اور دوسرا سوال یہ ہے کہ جس سے اختلاف ہو اسے آپ سڑکوں پر
مارنا اعزاز سمجھتے ہیں؟ کبھی ٹھنڈے دل سے اپنی ماں اور ماموں کے قتل کے
سانحے کا مطالعہ کر لیجئے گا قاتل ڈھونڈنے کوئی دور نہیں جانا ہو گا۔ہاں
قوم آپ کی اس بات کو درست مان لیتی کہ آپ اسمبلی میں کوئی تحریک سزائے موت
کے خلاف لائے ہوتے۔آپ نے ملی بھگت سے اپوزیشن لیڈر کا رول اپنے نام کروایا
تو کیا پی ایم ایل این جن سے آپ کی دوستیاں بغض عمران میں ہوئی ہیں ان سے
فائدہ اٹھاتے اور اس سزا کو ختم کروا دیتے ۔
یہ اس معاملے سے جڑی بحث ہے کہ اگر سزائے موت کا خوف ختم ہوا تو اس بگڑے
ہوئے معاشرے میں کیا انھی مچے گی۔ اس کا آپ تصور نہیں کر سکتے آج ہی کا
اخبار اٹھا کر دیکھئے سعودی پلٹ نوجوان جو اڈیالہ جہل میں سزائے موت پانے
والے بھائی سے ملنے جا رہا تھا اسے راستے میں قتل کر دیا گیا۔اس لئے کہ
مقتول کے بھائی نے کسی کی جان لی تھی اگر اسے سزائے موت مل جاتی تو یہ قتل
تو نہ ہوتا اس کے بعد جو لائن لگنی ہے اس کی تو بات ہی نہ کریں۔آج اگر
اسلام کے قوانین کی بات کی جائے تو آپ کی والدہ کی وہ بات یاد آتی ہے کہ اس
جدید معاشرے میں اسلامی سزائیں وحشیانہ سزائیں ہیں۔دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے
کہ آپ کے اپنی ماں کے قاتلوں کو عمر قید سزا دینا چاہیں گے یا سزائے
موت۔سعودی عرب کو بدنام کرنے والے دیکھ لیں کہ وہاں بادشاہوں کے بیٹوں کے
سر قلم کر دئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ انتہائی خطر ناک معاشرہ ایک پر امن
سوسائٹی میں بدل چکا ہے۔پاکستان کی فوج نے کلبھوشن کو پھانسی دینے کا علان
تو کر دیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ وہ حکومت جس نے آج تک بلوچستان میں ملک
دشمنوں پر ہاتھ رکھنے والے اس قاتل کے بارے میں زبان سی رکھی ہے وہ کیا
کرتی ہے؟بلوچستان میں شیعہ افراد پر پے در پے حملوں میں بھارت کا یہ مقصد
کار فرما تھا کہ پاکستان اور ایران میں دوریاں پیدا ہوں۔پاکستان کو در اصل
ہر طرف سے گھیرنے کی کوشش ہو رہی ہے بھارت جانتا ہے کہ عسکری میدان میں وہ
پاکستان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا تو اس نے ہر وہ حربہ اپنانے کا فیصلہ
کر لیا ہے جس سے پاکستان معاشی طور اپنی موت مر جائے۔پاکستان کے گردشی قرضے
باہر کے ملکوں سے لئے قرضوں کی ادائیگی کے لئے اور قرضے پانی کے راستے بند
کرنے کی ناپاک جسارت یہ سب کچھ جس میں جگہ جگہ خودکش دھماکے شامل ہیں
پاکستان کو مشکلات میں ڈالنے کی ناپاک سازش ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت
کے ساتھ دوستیاں سالگرہ پر تحائف دینے والی حکومت شادی بیاہ پر بغیر ویزے
دے کر صنعتی ٹائیکونوں کی میزبانی کرنے والے حکمران کیا کردار ادا کرتے
ہیں۔چاہئے تو یہ تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم سرکاری ٹی وی پر آ کر قوم کو
نوید سناتے کہ دشمنوں کو یہ پیغام دے رہا ہوں کہ وہ ہماری جانب میلی آنکھ
سے نہ دیکھے اور ہم ہم اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔لیکن لگتا ہے رات سے
ایوانوں میں مرگ کی کیفیت طاری ہے۔ابھی اس لمحے تک کوئی سرکاری بندہ بیان
دینے سامنے نہیں آیا۔مجھے تو ایسا لگا کہ یہ سارے سرکاری ترجمان صرف عمران
خان پر تنقیدی نشتر چلانے کئے رکھے ہوئے ہیں۔ویسے بعض لوگوں کو یہ خوش فہمی
ہے کہ فوج اپنی تضحیک کو بھول گئی ہے جو ڈان لیکس میں ہوئی ہے جنرل باجوہ
دھیمے سروں میں جو غزل سناتے ہیں وہ انہی کا حصہ ہے یاد رکھئے گا پانامہ
اپنی جگہ ایک بم ہے لیکن ڈان لیکس کو سپر بم کہا جا سکتا ہے ایک شخص جو
افغانستان کی سر زمین کے اندر جا کر اپنے دشمنوں کی سرکوبی کر سکتا ہے وہ
اس معاملے کو ٹھنڈے پیٹوں کیسے برداشت کرے گا۔ اس بات کو بھی یاد رکھئے گا
کہ اس سے پہلے گرفتار کشمیر سنگھ جنہیں انصار برنی ہاروں سے لاد کر واہگہ
بارڈر سے پار کر آئے تھے اس نے انڈیا میں داخل ہوتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ
جاسوسی کرتا رہا اور کئی بم دھماکے کرانے میں اس کا کردار تھا۔آنے والے دن
سول ملٹری تعلقات کے درجہ ء حرارت واضح کر دیں گے۔کلبھوشن کے گلے میں پھندہ
ڈالنے کے راستے میں ایک سپریم کورٹ ہے اور دوسرے صدر مملکت۔دیکھتے ہیں
عدالت کیا کرتی ہے اور ایوان صدر میں بیٹھے جناب ممنون حسین۔قارئین کرام
قوم سوکھی کھا لے گی مر جائے گی مگر کسی ملک دشمن کو اس بار لٹکے بغیر نہیں
دیکھنا چاہتی۔کسی نے رضائی ڈالنے کی کوشش کی تو وہ خود نہیں بچے گا- |