بی اے پاس صحافی کی ذہنیت

میں ایک پختون خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور تقریبا ہر پختون کی طرح قوم پرستی میری نفسیات میں شامل ہے. پاکستان کے ان تمام شخصیات سے محبت کرتا ہوں جن کامعاشرے میں کچھ مقام ہو اور خاص طور پر وہ لوگ جو پختون ہوں وہ میرے لئے مثالی شخصیات ہوا کرتی ہیں.میرے اسکول اور کالج کے دنوں کے دوران مجھے عوامی نیشنل پارٹی سے انتہائی محبت تھی, عبدالولی خان مجھے کسی ولی اللہ سے کم نہیں لگتے تھے. محمود خان اچکزئی پر گایا ہوا نغمہ میراپسندیدہ نغمہ ہوا کرتا تھا.عمران خان، جہانگیر خان، ایوب خان، غلام اسحاق خان، قاضی حسین احمد وغیرہ میرے پیشہ ورانہ مہارت سے زیادہ پختون ہونے کی کیوجہ سے پسندیدہ شخصیات ہوا کرتی تھیں.

میرے گاؤں میں الیکٹرونکس میڈیا اس دور میں صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور اس میں بھی مجھے پختون شخصیات کی تلاش ہوا کرتی تھی اور ایک بی اے پاس صحافی کو پی ٹی وی پر پشتو اور پشتونما لہجہ میں دیکھ کر نیا حوصلہ پیدا ہوا بے شک وہ اس وقت کے آمر کی خوشامد ان پروگرامز میں کیا کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ اکثر اوقات ان بی اے پاس صحافی کا تذکرہ کر کہ خوشی حاصل کر تا تھا.

میرا ایمان اس وقت تازہ دم ہوا جب حقیقی زندگی میں پہلی دفعہ کابل کے لئے پی آئی اے کی پرواز میں ان بی اے پاس صحافی سے سلام کرنے کا موقع ملا. جہاز میں ساتھ والے سیٹ پر یہ بی اے پاس صحافی اور ان کا پورا جرگہ افغانستان جانے کے لیے سوار تھا.

میرے ساتھ لاھور کے ایک دوست بھی تھے اور پورے راستے میں اس کو ان بی اے پاس صحافی کے بارے میں بتاتا رہا اور اس کو ان کا پروگرام دیکھنے کے لیے کائل کرتا رھا. کابل پھنچنے سے پھلے میں نے فیصلہ کیا کہ وھاں پھنچ کر فوری طور پر ان صحافی کو فیس بگ پر فرینڈ ریکوسٹ بھیجونگا اور پر کابل میں ان صحافی کو اپنے رھائشی ھوٹل میں آنے کی دعوت دینے کی کوشش کرونگا. حسب فیصلہ میں نے ان بی اے پاس صحافی کو ایک پیغام کے ساتھ فرینڈ ریکوسٹ بیھجی اور روزانہ کی بنیاد پر پیروی کر تا رہا. تقریبا ایک ہفتہ کے مسلسل جدوجھد کے بعد اندازہ ھوا کہ کے موصوف صرف خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر اپنے فیس بک میں شامل کرتے ہیں. لہاظہ میں نے فیصلہ کیا کہ ایک خاتون کے نام پر ایکاونٹ بنا کر موصوف سے رابطہ رکھا جا سکتا ھے اور حسب توقہ مجھے اگلے ہی دن ان صحافی کے فرینڈ لسٹ میں جگہ ملی ایک خاتون کے نام سے جو میرے لیے انتہائی دلبرداشتہ پہلو تھا.

بہر حال میں نے اس سلسلے کو اس خوش فہمی میں ٹال دیا کہ خواتین ایک مہذب شخصیت کے حامل ہوتی ہیں اس لیے موصوف اہمیت دیتے ہیں. اس کے بعد شاید موصوف سے میری محبت کم ہو گئ ہو لیکن ختم نہیں ہوئی اور میں ہمیشہ کی طرح ان کی پیروی کرتا رہا.

اس کے بعد ٢٠١٢ کے اخری مہینوں میں وزیرستان مارچ جو ڈرون حملوں کے خلاف تھا پر موصوف کی غیر ضروری تنقید نے مجھے اس بات پر سوچنے پہ مجبور کیا کہ یہ بی اے پاس صحافی جس کی تمام تر قابلیت صرف یہ ہے کہ طالبان کے کچھ زرائع ان کو معلومات فراہم کر رہی ہیں کو وزیرستان مارچ نقصان پہنچا سکتی ہیں لحاطہ وہ وزیرستان مارچ کو ہضم نیں کر سکتا اور پھر یہ بی اے پاس صحافی ہی میرے عمران خان سے محبت بڑھانے کا زریع بنے۔

آج میں اس بات پر خوش ہوں کہ یہ بی اے پاس جرنلسٹ ہی بڑی آبادی کوپرانا نظام سے بد دل کرتے ہیں اور یہی جرنلسٹ تبدیلی لانے میں ہمارے مددگار ثابت ہوں گے
 

Muhammad Yasir Khan
About the Author: Muhammad Yasir Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.