معاشرے میں پھیلی بے حسی اور مادیت سے انتہاء کا لگاؤ اِس
بات کا مظہر ہے کہ حضرت انسان موجودہ د ور میں کیسے حالات سے گزر رہا
ہے۔زندگی گزارنے کے لیے جہاں روحانی سکون درکا ہوتا ہے اُس کی بجائے اب ہوس
نے جگہ لے لی ہے۔حضرت انسان کو اپنے وجود کوآسائشیں بہم پہنچانے کی اتنی
فکر ہے کہ وہ خود کو انسانیت کے مقام سے گرا چکاہے۔ زندگی کا واحد مقصد
پیسہ کماؤ ۔ اب پیسہ اگر حلال طریقے سے نہیں مل رہا تو یہ انداز کہ جیسے
مرضی کماو۔ جب مقصد جیسے مرضی کا ہو تو پھر اچھ اور بُرئے کی تمیز کا جنازہ
نکل جاتا ہے۔ انسانی عقل و شعور درندگی کے اندھیرئے میں پناہ لے لیتا ہے۔
طاقت اور مادی وسائل پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کے لیے تمام قانون قائدئے
اخلاقی پہلو ؤں کا دھرن تختہ کردیا جاتا ہے۔ ایک طرف سرمایہ داروں وڈیروں
کے اندر یہ گھمنڈ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ بااثر ہیں اور محفوط ہیں۔دوسری طرف
اِسی معاشرئے کی پیداوار جن کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے اور معاشرے میں
اُن کے لیے وہ قد کاٹھ نہیں بن پاتا تو وہ مذہبی طبقے میں گھس کر اِنھی
سرمایہ داروں کی کاسہ لیسی کرکے اور اُن کی نوازشات کو اپنا حق سمجھ کر
وصول کرتے ہیں اور معاشرئے میں خود کو باعزت بنانے کی تگ و دو میں لگے رہتے
ہیں اور مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی طبقے کی ایک اور شکل
ہمارئے معاشرئے میں پیر ہیں جو کہ خود تو اربوں روپے کی پراپرٹی بنا کر
یورپ امریکہ میں مزئے کر رہے ہیں اور اپنے مریدین کو روحانی سکون عطا کرنے
کی بجائے اُنھی بھی ہوس پرستی کے راستے پر لگائے ہوئے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ
جو اوپر ہوگا وہی نیچے ہوگا۔مذہب کی صورت جس طرح بگاڑ کے رکھ دی گئی ہے اور
خانقاہی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔ دین حق اسلام مظلوم بن کر رہ گیا
ہے۔اچھے علماء اور پیر اب بھی معاشرئے میں موجود ہیں لیکن اُن کی تعداد نہ
ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے ہر طرف اُدھم مچا ہوا ہوا ہے۔ ملک میں معاشی
دہشت گردی، مذہبی دہشت گردی نے سماج کا سکون برباد کر ڈالا ہے۔ یہود ہنود
نے ایسا کلچر ہمارئے معاشرئے پر لاد دیا ہے کہ لباس طور اطوار دیکھ کر لگتا
ہی نہیں کہ یہ ایک غریب اور مقروض قوم کا ملک ہے۔پیر بننے سے آمدنی کے جو
ذرائع مل جاتے ہیں اُس کا شاخسانہ ہے ہے کہ کوئی پیر بننے کے لائق ہے یا
نہیں پیر بن بیٹھا ہے اور معاشرئے کا استحصال کر رہا ہے۔ حتی کے غیر مسلم
بھی تعویذ کا کاروبار کرنے اور جادو ٹونے کے کاروبار میں میں عاملوں کا روپ
دھار کر ہوس کی ماری عوام کو خوب لوٹ رہے ہیں۔ یوں ہوس مزید ہوس کا جنم دے
رہا ہے۔ اِسی طرح سیاستدان بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔نام نہاد
جمہوری نظام کو چند ہاتھوں نے مرتکز کیا ہوا ہے اور یوں جمہوریت کے نام پر
انتہائی چھوٹی سے اقلیت ملک پر حکمران بنی بیٹھی ہے۔اور یہ ہی اقلیت جو کہ
حکمران اشرافیہ ہے شور مچا رہی ہے کہ جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچنا
چاہیے۔جب سماج میں جنگل کا قانون ہو تو پھر دہشت گردی نے ہی جنم لینا ہے۔تب
مولانا فضل الرحمان جیسے لوگ یورپ امریکہ کو باور کرواہے ہیں کہ اُنھین بھی
آزمائیں وہ بھی حکمران بن کر اُن کے ایجنڈئے کو اِسی طرح جاری رکھ سکتے ہیں
جیسے حکمران اشرافیہ رکھے ہوئے ہے۔پاکستانی سوسائٹی کے اندر اِس وقت جو
عجیب طرح کی بے حسی جو پنپ رہی ہے اُس کے محرکات میں ایک اہم عنصر قانون پر
عمل پیرا نہ ہونا ہے۔ قانون توڑنے والا خود کو یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اگر وہ
قانون کی پیروی کر لیتا تو گویا اُس کی ہتک ہوجاتی۔ اِس سوچ اور رویے کے جب
ہم عمرانی، نفسیاتی اور سماجی پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں تو حیرت انگیز طور
پر ہماری سو سائٹی میں قانون توڑ کرتفاخر پایا جاتا ہے ۔ انگریز کی حکومت
میں اور ہندوں کی عملداری کی وجہ سے اٹھارہ سو ستاون سے لے اُنیسو سینتالیس
تک کا نوئے سالا دور برغیر پاک وہند کے مسلمانون کو ایک مختلف سی ذہنی
کشمکش میں مبتلا کر گیا۔ جس سوسائٹی میں انصاف کا خون ہوگا وہاں جبر اور
لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوگا، جس معاشرے میں قانون کی بالا دستی نہیں ہوگی
وہاں ظلمت کا راج پنپے گا۔ دین فطرت اسلام کی تما م تر تعلیمات جو کہ نبی
پاک ﷺ کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کو نصیب ہوئیں اُن کا تو اول و آخر نچوڑ ہی
محبت اخلاص ا،نصاف، رواداری ہے ۔ جو معاشرہ پاکستان میں جنم لے چکا ہے یہاں
تو اُس کی بدولت نہ تو کسی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کسی کو انصاف تک رسائی
ہے انصاف صرف اُس کو ملتا ہے جس کے پاس پیسے ہیں یا ڈنڈا ، گویا وہ اصول
یہاں بھی فروغ پاچکا ہے کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ۔زمین اور آسمان کبھی
نہیں مل سکتے ۔ نفی اور جمع میں ہمیشہ سے تضاد رہا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے
ہاتھوں مجبور ہوکر بعض اوقات اس طرح کے قدم اُ ٹھانے لگ جاتا ہے۔ جس سے اْس
کی شخصیت کے سارے دم خم سامنے آجاتے ہیں ۔ علم دوستی کا رواج تو بہت ہے
لیکن جدید تعلیم کے تقاضوں کو اْس طرح اہمیت نہیں دی جا سکی جس طرح اْس کی
اہمیت تھی ۔ انسانی ترقی میں وسائل کی ترقی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ایسے
معاشرے میں جہاں دنیا کی تمام نعمتیں یعنی چار موسم ہیں ۔ پہاڑ ہیں،
معدنیات ہیں، دنیا کا بہترین نہری نظام ہے۔ان کے ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا
میں کشکول لے کر گھومنے کا مطلب یہ ہے کہ خودی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔
گورنر جنرل غلام محمد، سکندر مرزا ، ایوب خان ، ذولفقار علی بھٹو ، یحییٰ
خان ، مشرف ، ذرداری ، کس کس کا رونا روئیں۔ کسی نے نام نہاد جمہوریت کے
نام پر ا ور کسی نے مذہب کے نام پر عوام کے خون کو چوسا ہے ۔ اب ہم یہ بات
ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتے ہیں کہ بد قسمی سے ہمارے ہاں قیادت کی شدید کمی ہے۔
جو لوگ قوم کی قیادت کے اہل ہیں اْن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ
مروجہ سیاسی نظام میں اسمبلی کے ممبر بن سکیں ۔ موجود تعفن شدہ معاشرے میں
انسانی حقوق اور سماجی انقلاب کی دعویدار مذہبی وسیاسی قیادتیں خود ہی سماج
کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ اْن قوتوں نے ہمارے معاشرے کو
یرغمال بنا رکھا ہے۔ زندگی اتنی اجیرن کہ ریاست اپنے شہریوں سے اِس طرح
نبرد آزما ہے۔ جیسے بھیڑ بکریوں کو ہانکا جاتا ہے۔ کوئی بھی مذہبی جماعت
اْس طرح ڈلیور نہیں کرسکی جس طرح کے اسلامی نظام کا دعویٰ کرتی ہیں ۔ سیاسی
قیادتیں مصلحتوں کا شکار ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک غنڈہ قاتل ، قبضہ گروپ کا
سرغنہ اسمبلی میں بیٹھا ہے۔ سیاست میں قدم رکھنے کے لیے جس کی لاٹھی اْسکی
بھینس کا قانون ہے۔ کم وسائل رکھنے والا معاشرے میں ُشودر کی طرح دیکھا
جاتا ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی خاطر جان قربان کرنے کا دعویٰٗ کرنے والے
اْن کی سیرت پاک کو اپنانے کے معاملے میں صفر ثابت ہورہے ہیں ۔ جو جتنا
مرضی تبلیغ دین میں مشغول ہو جائے ہیں ۔ عمرہ و حج کر لے معاشرے میں اْن کی
طرف سے کوئی بھی پسندیدہ عمل نظر نہ آئے ، تو پھر یہ کیسا ایمان ہے کہ جو
جھوٹ چوری ہیرا پھیری ، ظلم ڈاکے کم ناپ تول سے نہیں روکتا مطلب صاف واضع
ہے کہ معاشرے میں نفوذ پزیری کے حامل افراد اپنا کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔
اگر ہمیں اِس طرح کے مسائل کی جانب دھکیل دیا ہے تو پھر یہ بھی ہماری
ناکامی و بے بسی ہے کہ ہم اْن کی ساری سازشوں کا مقابلہ نہیں کر پا سکے
اْلٹا اغیار کی ساشوں کا مہرہ ثابت ہو رہے ہیں ۔ دین مبین ، اسلام کی بنیاد
کو چھوڑ کر دنیاوی مادہ پرستی کے حرص و لالچ میں ڈوب کر ہم عشق رسول ﷺ کا
دعویٰ تو کر رہے ہیں لیکن عاشق رسول ﷺ ہونے کا عملی نمونہ کیوں نہیں بن پا
رہے۔ اب اگر کوئی بھی مسیحا آئے گا تو وہ نرم سے نرم انداز میں خونی انقلاب
کی سوچ کو پروان چڑہائے گا ۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ قافلے میں ایک بھی
ْ حسین ؓ کی طرح نہیں جو رسم شبیری ادا کرے اور قوم کو سماجی ، ثقافتی ،
معاشی ، عمرانی ، نفسیاتی ، غلامی سے نکال کر روحانی مزاج میں ڈھالے اور
مسلم امہ کے قلعہ پاکستان کو صحیح پاکستان بنائے- |