توہین رسالت قانون کاغلط استعمال
(Muhammad Siddique Prihar, Layyah)
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ نے
قراردادجمع کرائی ،وفاقی وزیردفاعی پیدوارراناتنویرحسین نے پیش کی۔جس
پرتمام جماعتوں کے راہنماؤں کے دستخط تھے۔قراردادمیں کہاگیا ہے کہ یہ ایوان
مشال خان کے قتل کی مذمت کرتاہے۔اورمطالبہ کرتاہے کہ توہین رسالت کے قانون
میں حفاظتی شقیں ڈالی جائیں اوراس واقعہ میں ملوث افراداوران کے سہولت
کاروں کوکیفرکردارتک پہنچایاجائے اورآئندہ اس قسم کے واقعات اورنفرت
انگیزتقاریرکے سدباب کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔قراردادکے متن میںیہ بھی
کہاگیا ہے کہ کسی کوقانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی اوراس کے
خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔رکن اسمبلی نعیمہ کشورکاکہناتھا کہ مشال خان
کاکیس توسامنے آگیا لیکن اب جوکچھ سوشل میڈیاپرہورہا ہے اس کے خلاف کیا
اقدامات کیے جارہے ہیں ان قراردادوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔عارف علوی نے
کہا کہ ہم نے قانون بنالیے لیکن ہم نے نوجوان نسل کی مذہب کے لحاظ سے درست
تربیت نہیں کی۔ایم کیوایم کے رکن ساجداحمدنے کہا کہ جس طرح مشال خان کوقتل
کیاگیا ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے اس واقعہ سے پاکستان کے تشخص کونقصان
پہنچاہے۔صوبہ پختونخواکے شہرمردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں فیس
بک پرتوہین آمیزپوسٹس کے الزام میں ساتھیوں کے تشددسے یونیورسٹی کے شعبہ
ابلاغیات کے طالب علم مشال خان کی ہلاکت کے بعد توہین رسالت قانون کے غلط
استعمال کی بحث تیزہوگئی ہے۔وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے جاری بیان میں
ولی خان یونیورسٹی مردان میں طالب علم کے قتل پرافسوس کااظہارکرتے ہوئے
کہاگیا ہے کہ یونیورسٹی میں بے حس ہجوم کی طرف سے طالب علم کے قتل پربے حد
دکھ ہوا۔ریاست پاکستان قانون ہاتھ میں لینے والوں کوکبھی برداشت نہیں کرے
گی۔آصف زرداری کہتے ہیں کہ قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کومستردکرتے
رہیں گے۔مریم نوازکاکہناہے کہ مشتعل جلوس کاخود منصف بنناذہنی پستی
اورتنزلی کاعکاس ہے۔ایک نیوزچینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے زاہدخان
نے کہا کہ عدم تشددکاپرچارکرنے والوں کے نام پرقائم یونیورسٹی میں توہین
مذہب(رسالت) کے نام پرتشدد کرکے کسی طالب علم کوہلاک کردینابدقسمتی ہے اسے
صرف دہشت گردی اوربربریت ہی کہا جاسکتاہے۔۔شہریارخان آفریدی نے کہا کہ ہم
اس حدتک تنگ نظرہوگئے ہیں کہ مسلک کے نام پرایک دوسرے کوکافرقراردیتے
ہیں۔روبینہ خالدکاکہناتھا کہ ،پڑھے لکھے طالب علموں کے ہاتھوں توہین کے نام
پرایک طالب علم کاقتل لرزہ خیزہے۔ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے
کہا کہ پاکستان کسی ایک مذہب یامسلک کاملک نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کی
ملکیت ہے۔اس میں جوبھی بستا ہے اس کاتعلق کسی بھی مذہب یافرقہ سے ہویہ اس
کاپاکستان ہے، تحریک پاکستان میں یہ جونعرہ لگایاگیا تھا کہ ’’ پاکستان
کامطلب کیالاالہ الا اللہ‘‘ یہ نعرہ اس وقت برصغیرمیں بسنے والے تمام مذاہب
کے لوگوں نے لگایاتھا یاصرف مسلمانوں نے،پاکستان صرف اورمسلمانوں نے حاصل
کیاتھا اب یہ پیاراملک پاکستان صرف اورصرف مسلمانوں کاہی ہے۔دیگرمذاہب کے
لوگوں کواس ملک میں رہنے کی اجازت ہے۔انہوں نے کہا کہ مفکرپاکستان اوربانی
ء پاکستان بڑے روشن خیال لوگ تھے،ان کاپیغام ،فلسفہ اورشاعری میں نفرت کی
گنجائش بھی نہیں ہے ، قائداعظم محمدعلی جناح اورعلامہ محمداقبال روشن خیال
نہیں سچے اورپکے مسلمان تھے۔ان کے پیغام اورشاعری میں اسلام کے آفاقی
نظریات واصولوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔قائداعظم اورعلامہ اقبال نے کبھی یہ
نہیں کہا کہ توہین رسالت کے معاملات میں برداشت سے کام لیناچاہیے،انہوں نے
یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ لوگ ایک دوسرے پرتوہین رسالت کاغلط استعمال کرتے
ہیں۔گستاخ رسول کوجہنم واصل کرنے پرعلامہ اقبال نے جذبہ عشق سے یہ کہا تھا
کہ ترکھاناں دامنڈابازی لے گیا۔ایسی باتیں کوئی روشن خیال نہیں کرسکتا۔ان
کاکہناتھا کہ دین کے نام پر نفرت پھیلانا سب سے بڑاجرم ہے،اس کے سدباب کے
لیے ریاست چاہے وفاقی ہویاصوبائی قانون کی پوری طاقت کے ساتھ
بندباندھناچاہیے ،نفرتوں کا مقابلہ نفرت وتشددسے نہیں کیاجاسکتا،بلکہ اس
کامقابلہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ازلی ابدی پیغام محبت اورتعلیم کی
روشنی سے ہی کرسکتے ہیں۔ہمیں نئی نسل کووہ ورثہ منتقل کرناہے جورحمت،
انصاف،برداشت ،پیارکاہے اگریہ ہوجاتاہے توہم سمجھ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنی
زندگیاں ضائع نہیں کیں، خواجہ آصف نے درست کہا ایساہی ہوناچاہیے، انہیں یہ
بھی یادرکھناچاہیے کہ یہ سب تعلیمات ہمارے آپس کے معاملات، تعلقات کے لیے
ہیں، لیکن جہاں تک توہین رسالت کے جرم اور اس کاارتکاب کرنے والے مجرم
کاتعلق ہے تویہاں زاویہ بدل جاتا ہے، خود سرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ والہ
وسلم نے گستاخان رسول کوقتل کرنے پرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے
خلاف کوئی کارروائی نہیں کی،رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کافیصلہ
تسلیم نہ کرنے والے کوحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے قتل کردیا تھا ، حضرت
عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کی تائیدمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی
آیات نازل کیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق مشال بے گناہ تھا بعض
پروفیسروں نے اشتعال دلایا،عمران خان کاکہناتھا کہ ابتدائی طورپرثابت ہوچکا
ہے کہ مشال خان پرتوہین رسالت کاالزام لگاکر اسے قتل کرنے کی سازش کی
گئی،خیبرپختونخواپولیس کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں
کہا گیا ہے کہ توہین کاثبوت نہیں ملایونیورسٹی انتظامیہ کومشال سے پرانی
پرخاش تھی،یونیورسٹی انتظامیہ نے واقعے کی اطلاع نہیں دی ،صرف جامعہ آنے
کاکہا ڈی ایس پی حیدرخان پہنچے توعبداللہ پرتشدد جاری تھا،اسفندیارولی کہتے
ہیں کہ مشال خان کے قاتلوں کوسرعام پھانسی پرلٹکایاجائے،بختاوربھٹوکاکہنا
ہے کہ مردان واقعہ افسوس ناک ہے کسی کوکسی کی جان لینے کاحق نہیں،ملالہ
یوسف زئی نے کہا ہے کہ مشال قتل ،وحشت اوردہشت کاپیغام ہے،طاہرالقادری نے
کہا کہ تعلیمی اداروں سے انتہاپسندانہ اورمتشددسوچ کاخاتمہ نہ
ہواتوپائیدارامن کے قیام اوراعتدال پسندمعاشرہ کے قیام کی جدوجہدپایہ تکمیل
کونہیں پہنچ سکے گی۔وزیراعلیٰ کے پی کے کہتے ہیں کہ اب تک کی تحقیق میں
کوئی ایسے شواہدنہیں ملے مشعال نے دین کے خلاف بات کی ہو۔مشال خان کے قتل
پراقوام متحدہ نے بھی افسوس کااظہارکیا ہے۔ سپیکرکے پی کے اسمبلی
اسدقیصرکاکہنا تھا کہ مشال خان کی ہلاکت انسانیت سوزواقعہ رونماہواہے اس
پرتمام مسلمانوں کودلی صدمہ پہنچاہے،علماء کرام کوبھی چاہیے وہ اپنا
بھرپورکرداراداکریں۔ ایک نیوزچینل کے پروگرام میں میزبان نے تجزیہ پیش کرتے
ہوئے کہا ہے کہ سینٹرفارریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیزکی رپورٹ کے مطابق توہین
مذہب(رسالت) کے اسی فیصدالزامات بے بنیاد ہوتے ہیں،سال اٹھارہ سواکاون سے
انیس سو 74تک توہین کے صرف سات واقعات سامنے آئے پھرجنرل ضیاء کے دورمیں
توہین کے اسی واقعات رپورٹ ہوئے،سال انیس سوچوراسی سے دوہزارچارتک توہین
مذہب (رسالت) کے پانچ ہزارکیسزدرج کیے گئے اوران میں سے صرف نوسوچھیالیس
پرالزام ثابت ہوا۔پروگرام کے میزبان نے ایک انگریزی اخبارکے حوالے سے بتایا
کہ توہین مذہب (رسالت ) کاقانون منظورہونے باوجودبھی ماورائے عدالت قتل
بڑھتے رہے۔رپورٹ کے مطابق انیس سوسنتالیس سے انیس سوستاسی تک توہین رسالت
کے الزام میں دوافرادکوماورائے عدالت قتل کیاگیا ،انیس سوستاسی سے دوہزار
چودہ تک توہین مذہب اورتوہین رسالت کے الزام میں ستاون لوگوں کوماورائے
عدالت قتل کردیاگیا۔
مندرجہ بالا تمام رپورٹوں اوربیانات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ثابت
کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ توہین رسالت قانون کاغلط استعمال ہورہا ہے،
منظم منصوبہ بندی کے تحت ایسے حالات پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس
کوجوازبناکر توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرکے اسے غیرموثرکردیا جائے ۔جب
بھی توہین رسالت کاکوئی واقعہ سامنے آتا ہے توملزم کوبے گناہ اورتوہین
رسالت کے قانون کا غلط استعمال ثابت کرنے کی کوششیں اوربھی تیز ہوجاتی
ہیں۔اس بات سے توتمام علماء کرام اورعوام متفق ہیں کہ کسی کوبغیرثبوت کوئی
بھی الزام لگاکرقتل نہیں کرناچاہیے۔کسی کوبھی قانون ہاتھ میں نہیں
لیناچاہیے۔یہ بھی سب کہتے ہیں کہ اشتعال میں نہیںآناچاہیے۔کوئی یہ تونہیں
کہتا کہ لوگوں کوایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے مسلمانوں کے جذبات کوٹھیس
پہنچے۔کسی کوایسی بات کبھی نہیں کرنی چاہیے کہ جس سے لوگ اسے قتل کرنے
پرآمادہ ہوجائیں۔توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کاشورمچانے
والوں،قانون میں ہاتھ میں لینے کاچرچاکرنے والوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش
بھی کی ہے کہ لوگ قانون کوکیوں میں ہاتھ میں لے لیتے ہیں اس کاذمہ دارکون
ہے۔جب توہین رسالت کے مجرموں کے خلاف قانون کے تحت مکمل کارروائی نہیں ہوگی
تولوگ قانون کوہاتھ میں نہیں لیں گے توکیاگھروں میںآرام سے بیٹھ جائیں گے۔
اس تحریر میں شامل اس رپورٹ کودرست مان لیاجائے کہ توہین رسالت کے اسی فیصد
الزامات جھوٹے ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بیس فیصد الزامات درست ہوتے ہیں تو
کیا ان بیس فیصدکے خلاف قانون کے مطابق مکمل کارروائی کی گئی ہے۔رپورٹ میں
یہ بھی کہاگیا ہے کہ نوسوچھیالیس ملزمان پرالزامات درست ثابت ہوئے ۔ قانون
کے مطابق توہین رسالت کے جرم کی سزاسزائے موت ہے۔ایک قومی اخبارمیں شائع
ہونے والی اس رپورٹ میں یہ کہیں نہیں لکھاہواکہ ان میں سے کتنے مجرموں
کوسزائے موت دی گئی۔ہماری معلومات کے مطابق پاکستان میں اب تک توہین رسالت
کے جرم میں سزایافتہ کسی بھی مجرم کوتختہ دارپرنہیں لٹکایاگیا ۔ جوالزمات
اورمقدمات جھوٹے اوربے بنیاد ہوتے ہیں ہم ان کی بات نہیں کرتے ،ہم توان
مجرموں کی بات کررہے ہیں جن پرالزام ثابت ہوچکے ہیں کتنے ایسے مجرم ہیں جن
کی سزاؤں پرعمل کیاگیا ہے۔توہین رسالت کے ایسے مجرم جن پرجرم ثابت ہوچکا ہے
اورانہیں سزائے موت بھی سنائی جاچکی ہے ان کوتختہ دارپر لٹکا دیا جاتا ،
توہین رسالت کے کسی بھی واقعہ کے رونماہوتے ہی قانون حرکت میں آجاتا تونہ
لوگ قانون ہاتھ میں لیتے اورنہ ہی سلمان تاثیراورمشال خان سمیت اس الزام
میں کسی کاماورائے عدالت قتل ہوتا۔معاملہ قانون کے غلط استعمال کانہیں
قانون کے نامکمل استعمال کا ہے۔ایک کالم نویس لکھتا ہے کہ مسئلہ دہشت گردی
کا نہیں انتہاپسندی کا ہے۔ توہین رسالت کے کسی بھی ملزم کوقتل
کردیناانتہاپسندی نہیں عشق ہے۔ہماری اس بات سے کوئی یہ بھی نہ سمجھ لے کہ
ہم توہین رسالت کا الزام لگاکر کسی کوبھی ماورائے عدالت قتل کرنے کے حق میں
ہیں۔توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی بجائے اس قانون کے خلاف کسی بھی
فورم پر بات کرنے پرپابندی لگادی جائے توقانون ہاتھ میں لینے کے واقعات میں
نمایاں کمی آجائے گی۔تمام قوانین کے غلط استعمال کوروکنے کے لیے ضروری ہے
کہ الزامات ثابت نہ کرنے والے کوبھی وہی سزادی جائے جوالزام ثابت ہونے کی
صورت میں الزام علیہ کودی جاتی۔اس کے ساتھ ساتھ جھوٹی گواہی دینے، موقع
پرہونے کے باوجودگواہی نہ دینے، کسی بھی ملزم کے خلاف حقائق چھپانے، ثبوت
مٹانے، گواہی سے منحرف ہونے پراوراس سب کی ترغیب دینے پرسخت سے سخت سزائیں
بھی مقررکی جائیں۔قومی اسمبلی میں توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال
کوروکنے کی قراردادکی بجائے یہ قراردادلائی جاتی کہ ا س جرم میں جتنے
مجرموں کو عدالتوں کی طرف سے سزائے موت سنائی جاچکی ہے انہیں جلد سے جلد
تختہ دارپرلٹکایا جائے تو بہترہوتا۔توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرنے کی
بجائے توہین رسالت کاجرم ثابت ہونے کے بعد مجرموں کے خلاف قانون کے مطابق
مکمل کارروائی کرتے ہوئے تختہ دارپرلٹکانے کے اقدامات کیے جائیں تواس الزام
میں کسی کابھی ماورائے عدالت قتل نہیں ہوگا اورنہ ہی کوئی قانون ہاتھ میں
لے گا۔جمشیددستی درست ہی کہتے ہیں کہ گستاخوں کوپھانسیاں نہیں ہوں گی تولوگ
خودفیصلے کریں گے۔ |
|