کرپشن کا رونا کوئی نیا نہیں ہے یہ ہر دور میں رہا ہے
تاریخ رقم کرنے والوں کے قرطاس پر سنہرے حروف میں حکمرانوں کے استحصال کی
کہانیاں رقم ہیں مسلمانوں نے آٹھ سو سا ل تک پوری دنیا پر حکومت کی اور ان
کی بربادی کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان حکمرانوں نے استحصال کرنا شروع کر دیا
تھا جسکی بدولت عوام میں اس قدر نفرت پھیلی کے خدا کی رحمت بھی ان کے سروں
سے اٹھ گئی اور پھر آج تک پوری دنیا میں تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہونے
کے باوجود ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں لیکن پروردگار کی ذات بھی بڑی بے نیاز ہے
گناہ گاروں کی اس طرح سے رسیاں ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے اور انہیں بھگاتا ہے کہ
آخری حد تک انہیں آزماتا ہے جسے انسان بظاہر تو اپنی فتح تسلیم کرنے لگتا
ہے لیکن وہ فتح بھی فانی دنیا کے جیسے فانی ہی رہتی ہے اور جس رعایا پر اسے
فاتح کیا جاتا ہے اس میں خود ایسی برائیاں موجود ہوتیں ہیں کہ ان پر ایسے
ہی حکمران مسلط کئے جائیں کیونکہ ذات اقدس کے علاوہ کوئی نہیں جو عدل و
انصاف کے پیمانے مکمل طور پر رائج کر سکے ۔نو ماہ قبل اسلامی جمہوریہ
پاکستان میں ایک سیاسی بھونچال آیا جس کے بعد ایک عجب سا سناٹا چھا گیا
جیسے ایک بہت بڑا جن کسی عمارت میں گھسا ہو جو سب کو آہستہ آہستہ کھائے جا
رہاہو اور پھر اسے بھی نگلنے کیلئے ایک دیو گھس آیا ہو گویا یہ کچھ اسطرح
ہو کہ وہ دیو اس لئے عمارت میں نہیں آیا ہو کہ جن کو نگل کر اس خونی کھیل
کر ختم کر دے بلکہ اس لئے ہو کہ پہلے وہ جن سب کو نگل جائے اور پھر آخر میں
وہ دیو اس جن کو نگل جائے یہ سناٹا اس قدر شدید تھا کہ پوری دنیا کی
اسٹیبلشمنٹ کے کان اور آنکھیں اس سناٹے کو ٹوٹتے سننا اور دیکھنا چاہتی
تھیں ۔بیس اپریل کا دن بظاہر تو اس سناٹے کے ختم ہونے کا دن تھا اور لوگ
دیکھنا چاہتے تھے کہ یہ کونسا احتساب کا دیو ہے جو ہمارے سمیت اس کرپشن کے
جن کو بھی نگل جائے گا ویسے یقین مانئے فیصلے کے دن بھی مارکیٹوں اور گلی
محلوں میں ویسے ہی مجمع جمع تھا اور چوکوں پر نان بائی ،حجام اور دودھ والے
کی دوکان پر لوگ اسی طرح اکٹھے تھے جیسے پاک بھارت ورلڈ کپ فائنل ہونے جا
رہا ہے اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ایک ورلڈ کپ فائنل ہی تھا کیوں کہ جیسے
پاک بھارت کرکٹ میچ ایک دوسرے کے روایتی حریف ہیں اسی طرح پاکستان کے سیاسی
اور دفاعی معاملات میں بین الاقوامی اور قومی اسٹیبلشمنٹ بھی روایتی حریف
ہیں جس طرح پاکستانی کرکٹ ٹیم بانوے کے ورلڈ کپ کے بعد آج تک کوئی ورلڈ کپ
میچ نہیں جیت پائی اسی طرح پینسٹھ کے بعد آج تک قومی اسٹیبلشمٹ بھی بین
الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مقابلہ نہیں جیت پائی سوائے اس کے کہ قومی
ادارے ان کی انگلیوں پر ناچیں ۔ ایک سال قبل ایک صحافتی تنظیم آئی سی آئی
جے کی جانب سے کئے گئے پوری دنیا میں کرپشن سکینڈلز پر کام کی ضروری
انفارمیشن پاناما شہر سے ڈیٹا بیس میں خرابی کی وجہ سے لیک ہو گئی جو کہ
پاناما پیپر ز کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوئے اور اس کی وجہ سے دو
ممالک کے وزراء اعظم مستعفی بھی ہو ئے جب کہ پاکستانی سیاست میں بھونچال
بھی آیا اور میاں صاحب جو پہلے ہی جلا وطنی کاٹ کر آئے تھے جنہیں بڑی مشکل
سے دوبارہ پاکستان کی حکومت کا شرف ملا پر ہر بار کی طرح ایک کڑا وقت آن
پڑا ہر دور حکومت کی طرح اس بار بھی میاں صاحب کی حکومت کو پہلے تین سال تو
مارشل لاء کے لالے پڑے رہے جسکی وجہ سے اچانک میاں صاحب کو چار بائی پاس
بھی کروانے پڑے حکومتی جماعت کے رویوں سے یوں لگتا تھا کہ جیسے انہیں ملکی
سلامتی کے معاملات پر یا تو کسی سانپ نے سونگھ لیا ہے یا پھر انہوں نے اس
دیو کو دیکھ لیا ہے جو ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے ان کے چہرے اس قدر خائف
تھے اور زبان ایسے حلق میں اٹکی ہوئی تھی کہ ملکی سلامتی تو جیسے بھول ہی
گئے تھی جیسے انسان ڈر کی وجہ ایسے محسوس کر تا ہے کہ کسی ماورائی طاقت نے
اسے جنبش میں بھر لیا ہو پاکستان کی سرحدوں میں راء ایجنٹ پکڑا گیا کوئی
ردعمل نہیں کوئی پالیسی بھی نہیں ،پٹھان کوٹ حملہ ہوتا ہے اور الزام
پاکستان پر پھر بھی چپ !پاکستانی سیاست میں سب عجیب لگ رہاتھا وہ یہ کہ
جیسے انہوں نے وہ احتساب کا دیو جنرل راحیل شریف کو سمجھ رکھا تھا جب تک وہ
رہے تب تک نہ تو حکومتی جماعت کی حلق سے پانی کا گھونٹ ہی اترا اور نہ ہی
اپوزیشن چین سے بیٹھ سکی نہ تو تھوکا ہی گیا اور نہ ہی نگلا گیا شیشے کا
ٹکڑا حلق میں اٹک گیا ہو جیسے آصف علی زرداری اور شرجیل میمن جیسے لو گ
اچانک غائب ہو گئے اور خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے پر مجبور ہو گئے لیکن
راحیل شریف کے ریٹائر ہوتے ہی یہ لوگ واپس آئے اور بڑی دھوم سے الیکشن
کیمپین پر زور دیا بہت سی اہم ملاقاتیں بھی ہوتیں رہیں ہر ممکن کوشش کی گئی
کہ میاں صاحب کو اس دیو سے بھی بچایا جائے اور آئندہ کوئی دیو نہ آ جائے اس
کا بھی خیال رکھا جائے تو ساڈے بندے والی سکیم چلائی گئی ادھر سے آرمی چیف
جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کو تعینات کیا گیا اور دوسری اہم تعیناتی چیف
جسٹس کی سیٹ پر کی گئی جو کہ واضح طور پر میاں صاحب کے ساتھ منسوب تھی اس
کے فوری بعد ہی ملکی حالات و سیاست ایک نئے دہانے کی اوڑ چل پڑے ایک طرف
جہاں پیپلز پارٹی کی گردن دبوچ لی گئی تھی ڈاکٹر عاصم ،عزیر بلوچ اور ایان
علی کی صورت میں وہاں ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کی جان بخشی کروائی گئی جبکہ
عزیر بلوچ تو ایک چھوٹا سا مہرہ تھا اس جیسے اب بھی ہزاروں اور پیدا کیئے
جا چکے ہوں گے اسی لئے اس کی تو کوئی بھی ضرورت نہیں تھی اس کی فکر نہیں کی
گئی دوسری طرف ن لیگ کے ڈان لیکس کے معمے پر مٹی پاؤ پالیسی اور پاناما کیس
کے فیصلے میں میاں صاحب کی انکوائری کیلئے ایک جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی
گئی جس پر حکومتی جماعت نے تو اسے جیت کا نشان قرار دے دیا ہے ۔اس فیصلے کے
پیش نظر عوامی و سماجی حلقوں میں خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ جہاں سپریم کورٹ
اس معاملے پر فیصلہ نہیں دے سکی وہاں میاں صاحب سے ایک انیسویں سکیل کا
آفیسر کیا تحقیقات کر پائے گا یا انکی انکوائری کیسے کر پائے گا ؟خیال یہ
بھی کیا جا رہا ہے کہ جب ایان علی ،ڈاکٹر عاصم ،شرجیل میمن ،ڈان لیکس ،شیخو
پورہ کا ایم پی اے جو بچوں کی برہنہ فوٹیج بناتا تھا کے سکینڈل ،سانحہ ماڈل
ٹاؤن جیسے بڑے بڑے سکینڈلز کا کچھ نہیں بنا تو اس بار یہ جے آئی ٹی کمیشن
کیا رنگ لے آئے گی ؟اگر ان سب حالات کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ
ہوتا ہے کہ یہاں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ قومی اسٹیبلشمنٹ سے سبقت لے گئی
ہے کیونکہ وہ ہمیشہ سے ایک ہی بات چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں کوئی حکومت
ہو تو وہ صرف پیپلز پارٹی یا ن لیگ میں سے ہی کسی ایک کی ہو اس کے علاوہ
اگر مارشل لاء حکومت نافذ ہو یا کسی اور پارٹی کی تو انہیں بالکل بھی فائدہ
نہیں دیتی اور ان کی مداخلت بھی پاکستان میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے جس کی
وجہ پاکستان استحکام اور امن کی راہوں پر گامزن ہو جاتا ہے ۔لیکن میرے خیال
میں عوام کو پاکستانی اداروں پر مکمل اعتماد رکھنا چاہئے فیصلے میں میاں
صاحب کو کسی قسم کی کلین چٹ نہیں د ی گئی کیونکہ اگر ہم اس بات کو مدنظر
رکھتے ہوئے سوچیں کہ ڈاکٹر عاصم کو چھوڑ دیا گیا ہے تو یہ غلط ہے کیونکہ
انہیں صحت کی وجہ سے ڈھیل دی گئی ہے انکی گردن ابھی بھی پکڑی ہوئی ہے اور
دوسری طرف سے اگر دیکھیں تو دو ججز نے اپنے فیصلے میں سیدھا ہی لکھ دیا ہے
کہ میاں صاحب صادق و امین نہیں رہے لہٰذا انہیں گھر بھیج دیا جائے جبکہ
باقی تین ججز نے کہا ہے کہ مزید ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جبکہ قطری خط بھی
مسترد کر دیا گیا ہے بظاہر تو ان باتوں سے اپوزیشن رہنماؤں کو بھی راضی کر
لیا گیا ہے لیکن کیایہ کمیشن اس بار کچھ نیا ہی کرنے والا ہے اور کیا اسکا
نتیجہ کچھ باقی کمیشنوں سے الگ نکلنے والا ہے؟ لیکن اس سے ایک امید کی کرن
ضرور روشن ہو گئی ہے کیونکہ حسن نواز اور حسین نواز کو بھی میاں صاحب کے
ساتھ کمیشن کے سامنے پیش ہو کر خود پر لگائے ہوئے الزامات کے خلاف ثبوت پیش
کرنے ہونگے اس سے یوں لگتا ہے کہ جیسے ثابت ہونے کی صورت میں ایک بار پھر
سے ملکی خزانے کو کچھ نہ کچھ فائدہ بھی ہو جائے گا ۔لیکن اب اگر بات کریں
ہم جے آئی ٹی کی تو یہ سب رپھاڑ میں ڈالنے والی بات لگتی ہے کیونکہ سپریم
کورٹ کا بنچ جو ان تحقیقات کیلئے بنایا گیا تھا اس نے کل پانچ سو چالیس
صفحات پر مشتمل اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جس کو اگر تفصیلاََ پڑھا جائے تو ہم
یہ دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب کو کہیں بھی کلین چٹ نہیں دی گئی بلکہ اس سے یہ
ثابت ہوتا ہے کہ میاں صاحب نا اہل ہو چکے ہیں وہ صادق اور امین نہیں رہے اب
یہ بھی بات زیر غور ہے کہ سپریم کورٹ کوئی ٹرائل کورٹ نہیں کہ وہاں جے آئی
ٹی رپورٹ پیش کر کے فیصلہ سنایا جائے گا اور نہ ہی وہ سنانے والی ہے آئندہ
دو ماہ میں بلکہ ہو گا کچھ یوں کہ اس کیس کو عدالت عالیہ اپنی ماتحت کورٹ
کو شنوائی کیلئے بھیج دے گی اور پھر یوں ہی دو چار سال یہ کیس چلتا رہے گا
اور آخر میں اچانک یہ فیصلہ آ جائے گا کہ تمام الزامات مسترد کر دئیے گئے
ہیں اور میاں صاحب اور ان کے بیٹے بے گناہ ہیں اگر سوچا جائے تو یہ کہنا
بھی غلط نہیں ہو گا کہ یہ سب سودے بازی ہو رہی ہے میثاق جمہوریت کے تحت
اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہونی ہے اسی لئے کسی نہ جانب سے مسلم لیگ ن کو
قربانی دینی پڑے گی اور پاناما کی وجہ سے میاں صاحب فرینڈلی اپوزیشن کا
کردار ادا کریں گے جیسے کہ ماضی میں چلتا رہا ہے ۔ |