پانامہ پیپرز جسے ’’پانامہ لیکس‘‘ کے نام سے شہرت حاصل
ہوئی اس نے دنیا بھر کے کرپٹ سیاست دانوں کے چہرے پر چڑھے ہوئے شرافت کے
نقاب کو نوچ ڈالا ۔پانامہ لیکس کی زد میں آکر بڑے بڑے نامی گرامی سیاست
دانوں اور حکمرانوں کو سیاست وحکومت سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی ،جن کرپٹ
شخصیات میں تھوڑی بہت شرم و حیا اور غیرت باقی تھی وہ خود ہی مستعفی ہوگئے
جبکہ کچھ ہٹ دھرموں کو عوامی تحریک کے نتیجے میں اپنے عہدوں اور مراعات سے
ہاتھ دھونے پڑے لیکن کچھ چکنے گھڑے ٹائپ کے پرانے اور منجھے ہوئے کرپٹ
سیاست دان اپنے اقتدار کو بچانے کے لیئے بڑی بے شرمی کے ساتھ اپنے حکومتی
عہدوں سے چمٹے رہے جس کی بنا پر ان کے خلاف بعض ایماندار اور محب وطن سیاست
دانوں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں کیس دائر کیئے تاکہ ان
مفاد پرست سیاست دانوں اور حکمرانوں کو ان کی کرپشن اور جھوٹ کی سزا عدالتی
فیصلے کے ذریعے دلوائی جاسکے۔
پانامہ لیکس کے نام سے مشہور ہونے والے پانامہ پیپرز کی زد میں مسلم لیگ
(ن) کے سینئر اور تجربہ کار سیاست دان اور موجودہ وزیراعظم پاکستان میاں
نواز شریف اور ان کا خاندان بھی آیا کہ ان کی فیملی کے افراد کو ’’ پانامہ
پیپرز‘‘ میں کرپٹ ترین افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا جنہوں نے نامعلوم
ذرائع آمدن سے حاصل کردہ اپنی ناجائز دولت کو چھپانے کے لیئے نہ صر ف آف
شور کمپنیوں کا سہارا لیا بلکہ اپنے سرکاری عہدوں کا ناجائز استعمال کرتے
ہوئے اپنی اولاد کے نام پر برسوں پہلے بیرون ملک مہنگی ترین جائدادیں
خریدیں جوکہ’’ منی لانڈرنگ ‘‘کے ضمرے میں آتی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ
یہ تما م جائدادیں جس طریقہ کار کے تحت خریدی گئیں ان کی کوئی رسید اور منی
ٹریل شریف خاندان تاحال ثابت نہیں کرسکا۔
ہماری مذہبی اور سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور کے فرعون کے لیئے اﷲ تعالی
ٰ نے کسی نہ کسی شکل میں ایک موسیٰ پیدا کیا جس سے اس وقت کے فرعون کو شکست
دے کر اس کے غرور کو خاک میں ملایا یا سمندر میں غرق کردیا۔جہاں کرپٹ اور
مفاد پرست سیاست دان اور حکمران پیدا ہوتے ہیں وہیں نیک اور ایماندار اور
محب وطن سیاست دان بھی جنم لیتے ہیں ۔پاکستان کے حوالے سے موجودہ دور سیاست
میں جہاں اس قوم نے 2 فرعون نما کرپٹ سیاست دان آصف علی زرداری اور میاں
نواز شریف کی صورت میں دیکھے وہاں ان جیسے کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف علم
بغاوت بلند کرکے عوامی حقوق کی بازیابی اور کرپٹ حکمرانوں کی بدترین حکومت
کے خاتمے کے لیئے اﷲ تعالیٰ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی وچئیرمین عمران
خان اور پاک سرزمین پارٹی کے چئیرمین سید مصطفی کمال جیسی نڈر،بے باک ،بہادر،قابل،باصلاحیت
محب وطن اور باعمل سیاست دان بھی عطا کیے جن کی وجہ سے آج عوامی امیدیں اور
سیاست دانوں کی ساکھ باقی ہے وگرنہ ہمارے بیشتر سیاست دانوں نے اپنے شرمناک
طرز سیاست اور کرپشن سے بھرپور کردار کی وجہ سے عوام کو اس حد تک مایوس
کررکھا تھا کہ وہ اب اپنے آئینی اور قانونی بنیادی حقوق کے حصول کے لیئے
عدالت اور فوج سے امیدیں لگا کر اﷲ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہتے تھے کہ
وقت کے ان فرعونوں کے لیئے اﷲ تعالیٰ ہمار ی قوم میں بھی کوئی موسی ٰ پیدا
کردے جو یہاں کی مجبور و مظلوم عوام کو ان کرپشن میں ملوث جھوٹے اور منافق
سیاست دانوں سے نجات دلا کر ان کے مسائل کو حل کرسکے۔
شاید اﷲ نے پاکستانی عوام کی دعائیں سن لیں اور عمران خان اور مصطفی کمال
کی صور ت میں اس قوم کو وہ گوہر نایاب عطا فرمادیے جو اپنی جان ومال کو
خطرے میں ڈالتے ہوئے اپنے عیش و آرام کو لات مارکر پاکستانی عوام کے لیئے
نجات دہندہ بن کر سامنے آگئے اور اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وقت کو عوامی
فلاح وبہبود کے لیئے وقف کردیا۔
پانامہ لیکس اور پانامہ پیپرز کے حوالے سے پاکستان میں گزشتہ گیارہ ماہ سے
ایک ہنگامہ بپا تھا اور پوری قوم ایک ہیجان میں مبتلا تھی کہ پاکستان میں
عمران خان ،شیخ رشید اور جماعت اسلامی کے سراج الحق کی جانب سے پاکستا ن کے
برسر اقتدار حکمران میاں نواز شریف کی کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر
کیئے گئے کیس کا جج صاحبان کیا فیصلہ سناتے ہیں۔ پانامہ کیس کوئی چھوٹا
موٹا کیس نہیں تھا جو جلد حل کرلیا جاتا یہ ایک ہائی پروفائل کیس تھا جس
میں برسراقتدار وزیراعظم نواز شریف اور ان کی فیملی کے افراد کو کرپشن میں
ملوث ہونے اور باربار جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے عہدے سے نااہل قرار دینے
کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا مقدمے کے فیصلے میں کافی تاخیر ہوئی ،تقریبا ً
2 ماہ قبل عدالت عظمیٰ نے اس کیس کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات
کی وجہ سے اسے قوم کے سامنے لانے کی بجائے محفوظ کرلیا گیا کہ مناسب وقت پر
سنایا جائے گا اور پھر آخر کار 20 ،اپریل 2017 کو وہ مناسب وقت آگیا جب
سپریم کورٹ کے 5 جج صاحبان نے خوب سوچ بچار اور فریقین کے دلائل کو بغور
سننے کے بعد پانامہ کیس پر540 صفحات پر مشتمل اپنا تفصیلی فیصلہ سنایا جس
کا مختصر خلاصہ یہ تھا کہ 2 جج صاحبان نے نواز شریف کو ان کی کرپشن اور
جھوٹ بولنے کی وجہ سے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا کہ:’’ ہم سمجھتے ہیں کہ
پانامہ کیس میں سامنے والے حقائق کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم
نواز شریف اب صادق اور امین نہیں رہے لہذا اب ان کا وزیراعظم کے عہدے پر
فائز رہنے کا کوئی قانونی جواز باقی نہیں رہاا ب ان کو وزیراعظم کے عہدے سے
ہٹادیا جانا چاہیئے‘‘۔ جبکہ عدالت عظمی کے 3 جج صاحبان نے مذکورہ 2 ججوں کی
رائے کو غلط قرار دیے بغیر اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا کہ :’’پانامہ کیس
میں وزیراعظم اور ان کی فیملی کی جانب سے جو قطری خط بطور منی ٹریل پیش کیا
گیا وہ جھوٹ کا پلندہ ہے جسے عدالت مسترد کرتے ہوئے میاں نواز شریف کے خلاف
7 روز میں JIT بنانے کا حکم دیتے ہوئے یہ فیصلہ سناتی ہے کہ 60 روز کے اندر
اس جے آئی ٹی کی مکمل تحقیقاتی رپورٹ عدالت عظمی ٰ کے روبرو پیش کی جائے
تاکہ ہجت تمام کرکے اس بات کا پتہ چلایا جاسکے کے لندن کے فلیٹ کس کے پیسے
سے اور کیسے خریدے گئے اس تمام معاملے کی رسیدیں کیوں موجود نہیں ہیں اور
یہ بھی پتہ لگایا جائے کہ لندن فلیٹس کے حوالے سے منی ٹریل کا کوئی ثبوت
عدالت میں اب تک کیوں پیش نہیں کیا گیا ،قطری خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں
ہے ہم اسے مسترد کرتے ہیں،عدالت عظمی ٰنواز شریف کے وزیراعظم کے عہدے پر
برقرار رہنے یا مستعفی ہونے کے حوالے سے اپناآخری فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ
پڑھنے کے بعد دے گی ‘‘۔
پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے 5 قابل احترام جج صاحبان کی جانب سے نوازشریف
کے کرپشن میں ملوث ہونے اور جھوٹ بولنے کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا اس کا
خلاصہ پڑھنے سے ہی یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ایک تو سپریم کورٹ کے
کسی جج کی جانب سے اس تفصیلی فیصلے میں نواز شریف کے حق میں ایک بھی جملہ
نہیں لکھا گیا جبکہ تمام ججوں نے متفقہ طور پر قطری خط کو بطور منی ٹریل
ثبوت یکسر مسترد کردیاجس کا مطلب یہ ہی نکلتا ہے کہ نواز شریف کو کلین چٹ
نہیں ملی بلکہ انہیں متفقہ طور پر جھوٹا قرار دے دیا گیا ہے جس کے نتیجے
میں 2 جج صاحبان نے تو نواز شریف کو فوری طور پر وزیراعظم کے عہدے سے برطرف
کرنے کا نوٹ لکھا جبکہ باقی 3 جج صاحبان نے بھی ان دونوں جج صاحبان کے نوٹ
سے اختلاف کیے بغیر نواز شریف کو بس مزید 67 دن کا وقت دیا ہے تاکہ وہ لند
ن فلیٹس کے حوالے سے اپنی منی ٹریل کو ثابت کرسکیں لیکن اگر نواز شریف اور
ان کی فیملی ان مہنگے ترین فلیٹس کی خریداری کی رسیدیں یا رقم لندن منتقل
کرنے کے ذرائع پیش کرنے میں ناکام رہے توان 3 جج صاحبان کا فیصلہ بھی وہی
ہوگا جو باقی 2 ججوں نے دیا ہے اور یوں نواز شریف کو آج نہیں تو 67 دن کے
بعد وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنا ہی پڑے گا لیکن مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ان کے
لیڈر اور کارکن جو بھنگڑے ڈال رہے ہیں اور مٹھائیاں تقسیم کررہے ہیں اسے
سوائے ہٹ دھرمی ،غلط فہمی ،خوش فہمی اور بے وقوفانہ طرز سیاست کے علاوہ اور
کیا کہا جاسکتا ہے۔کہ وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز میاں نواز شریف اور
ان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف جے آئی ٹی بنانے اور ان تینوں
کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا عدالتی حکم یہ بات ثابت کردیتا ہے کہ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچوں جج صاحبان نے درحقیقت متفقہ طور پر نواز
شریف اور ان کے بیٹوں کو کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے اور باربار
جھوٹ بولنے کی وجہ سے غیر قانونی اورمجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث سیاست دانوں
کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کو جے آئی ٹی کمیٹی میں شامل مختلف سول اور
فوجی اداروں کے نامزد کردہ افراد کے سامنے آکر اپنی صفائی پیش کرنے کا حکم
دیا ہے۔کیا سپریم کورٹ کے پانچوں معزز اور قابل احترام جج صاحبان کا پانامہ
کیس پر دیا ہوا فیصلہ ایسا ہے جس پر مسلم لیگی قیادت اور کارکن جشن منائیں
،مٹھائیاں تقسیم کریں اور بھنگڑے ڈالیں؟ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے
۔۔۔ مگر کرپشن میں ملوث مفاد پرست اور جھوٹے سیاست دانوں و حکمرانوں کو کیا
پتہ کہ یہ کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ہٹ دھرمی ،بے شرمی اور ڈھٹائی کی بھی کوئی حد
ہوتی ہے لیکن نہایت افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم لیگ نون والوں میں
شاید اب اخلاقی اقدار بھی ختم ہوچکی ہیں ورنہ پانامہ کیس کا خاصہ واضح
فیصلہ آنے کے بعد اصولی اور اخلاقی طور پر وزیراعظم نواز شریف کو از خود
اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر ایک اچھی اور مثبت مثال قائم کرنی چاہیے تھی کہ
اس طرح ان کی کھوئی ہوئی عزت کسی حد تک واپس آسکتی تھی کہ اس سے قبل بھی
پانامہ لیکس میں ملوث دیگر ممالک کے چند حکمرانوں نے اپنے عہدوں سے خود
مستعفی ہو کر عوام کی نظروں میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بہت حد تک بحال
کرنے میں کامیابی حاصل کی لیکن بات یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے کرتوتوں کی وجہ
سے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہدایت سے بھی محروم کردیے جاتے ہیں اور ان
میں صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے
کہ بقول شاعر: بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے ۔۔۔
عمران خان نے گزشتہ ایک سال کے دوران ’’پانامہ پیپرز‘‘ میں نواز شریف کے
کرپشن میں ملوث ہونے کے انکشافات کی بنیاد پر جس ثابت قدمی اور مستقل مزاجی
سے اس اہم ترین مسئلے کو ہر فورم پر اٹھایا اور اس کے خلاف آواز بلند کرتے
ہوئے عملی جدوجہد کی اور عدالت عظمیٰ میں نواز شریف کی کرپشن کے خلاف کیس
دائر کیا اور خود بہ نفس نفیس اس کیس کی کاروائی میں حصہ لیا ،عوام میں
کرپشن کے خلاف شعور پیدا کیا اور تمام کرپٹ سیاست دانوں کے متحد ہوجانے کے
باوجود بڑی قابلیت ،صلاحیت اور بہادری کے ساتھ پانامہ کیس کا مقدمہ لڑا، اس
نے عمران خان کو قوم کا ہیرو بنادیا اور پانامہ کیس پر سپریم کورٹ آف
پاکستان کے 5 جج صاحبان نے 20 ،اپریل کو جو تاریخی فیصلہ دیا اس کا کریڈٹ
بجاطور پر عمران خان کو ہی جاتا ہے کہ ان کی بے لوث اور انتھک محنت اور
عملی جدوجہد کی وجہ سے ’’ پانامہ کیس‘‘ ایک سال تک عوام ،میڈیا اور عدالت
میں زندہ رہا ،درحقیقت پانامہ کیس کو زندہ رکھنا ہی عمران خان کی بہت بڑی
کامیابی ہے کہ تمام کرپٹ سیاست دانوں نے متحد ہوکر عمران خان کی حب الوطنی
پر مشتمل دلیرانہ سیاست کا ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی لیکن افسوس اﷲ
تعالیٰ نے سچے کا بول بالا کرتے ہوئے جھوٹے کا منہ کالا کرکے دکھا دیا لیکن
اپنے کردار پر کرپٹ اور جھوٹا ہونے کا داغ لگنے کے باوجود بعض بے شرم انسان
کس بے غیرتی کے ساتھ مسکراتے ہوئے ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارکباد دیتے
ہیں اس کا عملی مظاہرہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے پانامہ کیس کا فیصلہ منظر
عام پر آنے کے فوری بعد میڈیا کے ذریعے پاکستان کے ہر گھر کے ساتھ پوری
دنیا میں بڑی حیرت کے ساتھ دیکھا گیا ۔ مسلم لیگ (ن ) کے لیڈروں اور
کارکنوں کے علاوہ پاکستان کی ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہوں نے
عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ چونکہ
عدالتی فیصلے کے مطابق اب وہ صادق و امین نہیں رہے لہذا فوری طور پر
وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہوجائیں۔پاکستانی سیاست میں کئی عشروں سے مصروف
عمل تجربہ کار سیاست دانوں آصف علی زرداری، سراج الحق اور شیخ رشید نے کل
عدالتی فیصلہ سامنے آنے کے فورا بعد میڈیا ٹاک کرتے ہوئے نواز شریف سے
مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا جبکہ دیگر جماعتوں کا موقف بھی یہ ہی رہا کہ
عدالت عظمیٰ کی جانب سے نوازشریف کو کلین چٹ نہیں ملی بلکہ تمام ججوں نے ان
کے حق میں ایک لفظ نہیں لکھا ،2 ججوں نے نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے
ہٹانے کا فیصلہ دیا جبکہ باقی 3 ججوں نے بھی نواز شریف اور ان کی فیملی کو
ملزم قرار دیتے ہوئے JIT کے سامنے پیش ہوکر اپنی صفائی پیش کرنے کے لیئے
صرف 67 دن کی مہلت دی ہے جسے نون لیگ والے اپنی کامیابی سمجھ کر خوش ہورہے
ہیں۔پانامہ کیس کا طویل عدالتی فیصلہ آنے کے بعد اس کے صرف خاص خاص نکات
پڑھ کر ہی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کیس کون جیتا اور کون ہارا
؟اب کوئی آنکھوں یا عقل کا اندھا ہٹ دھرمی اور بے شرمی پر اتر آئے تو کوئی
بھلا کیا کرسکتا ہے کہ سوج بوجھ اور عقل بھی اﷲ تعالیٰ کی جانب سے اپنے
فرماں بردار اور نیک نیت لوگوں کو عطا کی جاتی ہے نافرمان ،جھوٹے اورکرپٹ
لوگوں کو نہیں۔۔۔
معاشرے کے تقریباً ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے عام اور خاص افراد نے
پانامہ کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے قانون کی فتح اور
کرپشن کی ہار سے تعبیر کیا ہے جن میں سیاست دان،وکلا ،ٹی وی اینکرز،سابق جج
صاحبان ،مصنف ،شاعر،صحافی اور ملک کے عام باشندے شامل ہیں ہاں البتہ بعض
جانب سے سپریم کورٹ پر یہ اعتراض ضرور کیا گیا کہ جس وقت اس انتہائی اہم
ہائی پروفائل کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا اس وقت اسے محفوظ کرنے کی بجائے
منظر عام پر لایا جاتا تو اب تک جے آئی ٹی بھی مکمل ہوچکی ہوتی اور پانامہ
کیس میں ملوث کردار اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے جبکہ پاکستانی عوام پانامہ
کیس کے ہنگامے سے جس ہیجان میں گزشتہ ایک سال سے مبتلا تھی اس سے بھی کافی
پہلے نجات مل گئی ہوتی ۔کچھ ناقدین پانامہ کیس کے عدالتی فیصلے کو پانامہ
پارٹ ون قرار دے کر 67 دنوں بعد سپریم کورٹ کی جانب سے ایک بار پھر پانامہ
کیس کا فیصلہ سنانے کے اعلان کی وجہ سے آئندہ دو ماہ اور چند دن تک چلنے
والے پانامہ ہنگامے کوپانامہ پارٹ 2 قرار دے کر ایک بار پھر مایوسی کی
کیفیت کا شکار نظر آرہے ہیں لیکن وقت اور حالات اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی کے
ساتھ جو فیصلہ کرتے ہیں وہ اٹل ہوتا ہے جولوگوں کے دلوں اور تاریخ کے صفحات
میں برسوں زندہ رہتا ہے چنانچہ سپریم کورٹ کے پانامہ کیس پر حالیہ فیصلے کو
خوش آئند جانتے ہوئے ہر قسم کی بدگمانی اور مایوسی سے بچنا چاہیئے کہ
مایوسی کفر ہے ۔آخر میں راقم کی دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کرپٹ سیاست دانوں و
حکمرانوں کو دنیا اور آخرت میں ذلیل و خوار کرے اور سچے اور اچھے سیاست
دانوں کو عوامی مقبولیت کی معراج عطا فرما کرکامیابی سے نوازے تاکہ پاکستان
کے عوام سکھ چین کا سانس لے کر امن وامان کے ماحول میں اپنے اہل خانہ کے
ہمراہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرسکیں۔(آمین) |