پاناما کیس کا پہلا فیز ایک سال سولہ دن بعد اب دوسرا
پاناما فیز شروع ہو چکا! دلچسپ حقائق و قرائن کی روشنی ، جے آئی ٹی تشکیل
اور پھر 549 صفحات پر مشتمل ضخیم،مبہم اور غیر واضح تفصیلی فیصلے کی کتاب
کے تناظر میں شاید میاں نواز شریف کو 2023 تک کا سلطان بنانے میں ہی عافیت
جانی گئی ہے۔ چشم کشا حقیقت ہے کہ پانچوں ججزصاحبا ن نے وزیراعظم نواز شریف
کواصحاب الیمین کی صف سے نکال کر اصحاب الشمال کا سرٹیفیکٹ تھما دیا گیا ہے
۔تین جمع دو کے گھن چکر نے عوام کو لٹو کی طرح گھما دیا ہے۔افضل اور غیر
افضل کی تمیز نے بھی کافی دوھم مچائی ہے ۔ دو ججز صاحبان کی طرف سے اختلافی
نوٹ نے توکسی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں آوازا بلند کیا ہے۔ گارڈ فادر ( ہر بڑی
دولت کے پیچھے جرم کا ہاتھ ہوتاہے) کا ذکر کر کے جسٹس آصف کھوسہ نے خوب داد
سمیٹی اور جسٹس گلزار کے ساتھ مل کر نواز شریف کو ڈس کوالیفائی کر دیا اور
وزیر اعظم کو آؤٹ کر نے کے لیے قطری خط بھی مسترد کیا اور انہیں آرٹیکل62
،63 پر پورا نہ اترنے کی بناء پر صادق و امین کے درجے سے الگ کر دیا اور
کہا کہ وزیر اعظم کو اب ان کے مختلف بیانات اور متضاد تقاریر کی وجہ سے
وزارت عظمی اور اسمبلی کی بنیادی رکنیت سے ہٹاکر نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
جسٹس گلزار نے مختلف مثالوں ، حقائق اور قانونی پیچیدگیوں کا ذکر کرنے ہوئے
کہا کہ’’ آئی لینڈ ، یوکرین کے وزرائے اعظم اور اسپین کے وزیر صنعت نے
پاناما لیکس میں نام پر استعفادیا۔پاکستانی عوام کا حق ہے کہ اپنے حکمران
کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کریں۔ نواز شریف نے پراپرٹی کے حوالے سے کوئی
تفصیلات نہیں دیں۔ نواز شریف نے لند ن فلیٹس کی ملکیت کا قومی اسمبلی کی
تقریروں میں اعتراف کیا‘‘۔ جبکہ دوسری طرف جسٹس عظمت سعید ، جسٹس اعجاز
افضل، جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیر اعظم کو نااہل تونہیں قرار دیا لیکن اپنے
شدید تحفظات سامنے رکھتے ہوئے باپ بیٹوں کو دلائل و شواہدات کی عدم فراہمی
اور متضاد بیانا ت پر باز پرس کے عمل سے گزارنے کے لیے مشترکہ تحقیقاتی
کمیٹی کے روبرو پیش ہو کر خود کو دوماہ میں کلیئر کرانے کا الٹی میٹم دیا
ہے ، جب کہ نظاہر وزیر اعظم صاحب کو کلین چٹ دے دی گئی۔
پاناما کے فیصلے کے بعد سوائے جماعت اسلامی کے کسی دوسری پارٹی کا نظریاتی
موقف سامنے نہیں آیا، سراج الحق نے کہا کہ ہماری لڑائی ملک سے کرپشن جیسے
بڑے مسائل کے حل کرنے تک ہے کسی فرد یا ادارے سے ہمارا کوئی ٹکراؤ نہیں اور
ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے ۔میری ذاتی رائے میں عمران خان نے مٹھائیاں
تقسیم کر کے کوئی کمال نہیں کیا بلکہ بڑ ی سیاسی غلطی کی ہے ۔آصف علی
زرداری نے اسے ڈھونگ قرار دیا اور کہا کہ ایسے فیصلے کی امید نہیں تھی اور
اس فیصلے سے قوم کو مایوس کیا گیا ، حالانکہ کرپشن کے بادشاہ جناب زرداری
جیسے آدمی کے منہ سے کرپشن کے خلاف لب کشائی کرنا کرپشن کی توہین کے مترادف
ہے۔اگرچہ اپوزیشن جماعتوں نے نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔لیکن
مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنا دفاع کرنا بخوبی جانتے ہیں اس لیے انہیں نہ پہلے
دھرنے اور شور شرابے سے کوئی فرق پڑا اور نہ اب اس معمولی سرسراہٹ سے کچھ
خوف محسوس ہونے والا ہے۔ عدلیہ نے اس بار بھی پاناما جیسے حساس ترین کیس کا
بوجھ اپنے ناتواں کندھو ں سے ہٹا کر جے آئی ٹی پر ڈال دیا ہے اور ایف آئی
اے ، نیب، ایس آئی سی پی، آئی ایس آئی، ایم آئی، اسٹیٹ بینک کے نمائندوں پر
مشتمل جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے اور کہا کہ سات دن میں ادارے ارکان کے
نام فائنل کر کے بھجوائیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ 549 صفحات پر
مشتمل موٹی تازی جے آئی ٹی یقینا پیچیدگیوں اور مشکلات کا ایک اور پلندہ ہے
جس کو لانے کا اصل مدعا قوم کے مزید تین سے چار ماہ صفحات کو سمجھنے، باقی
کے تین چار ماہ جے آئی ٹی فیکٹ فائنڈینگ کمیٹی کے قیام ،عمل داری بینچ،
کمیشن کے قیام، اور آخر میں الیکشن کمیشن اور پھر حکومت کی میعاد پوری کرنا
ہے۔ یوں میاں صاحب اگلی مدت کے بھی کنفرم وزیراعظم کے طور پر ترکی کے نقش
پا پر چلتے ہوئے ایک اور باری حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہو ں گے۔
سوال اٹھتا ہے کہ جے آئی ٹی کے ممبران کو کون منتخب کرے گا ؟ کون سے موضوع
افسروں کا انتخاب کیا جائے گا؟جب چھوٹی چھوٹی جے آئی ٹیز کا فیصلہ سرکاری
دباؤ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پاتا تو ملک کے سب سے طاقتور انسان سے کون
سوال جواب کرے گا؟ اگر بارپرس کرنا اتناہی آسان ہوتا تو 45 سے 47 پاناما
سماعتوں میں نواز شریف اور انکی صاحبزاروں کو طلب کرنے کی جسارت کیوں نہ کی
گئی ؟اگر واقعی معنوں میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے آفیسرز سوالات جوابات کے
کڑے نظام سے وزیر اعظم کو گزاریں گے تو یہ نشستیں رائیونڈ میں واقع نواز
شریف ہاؤس کی دہشت و وحشت میں ہو ں گی یا ان آفیسرز کے سڑے ہوئے کمروں
میں؟گریڈ 19 یا 20 کے معمولی آفیسرز فائلوں کا بوجھ اٹھا اٹھا کر نواز شریف
کے کہنے پر ان کے بتائے ہوئے مقام خاص پر پرجانے کا موقع پا نے کی سعادت با
مراد حاصل کریں گے یا اپنی اپنی نوکریوں سے استعفوں کی شکل میں گھر کے کسی
کونے میں باقی کی اجنبی زندگی گزارنے کے متمنی ہوں گے؟ مسئلہ یہ ہے کہ شیر
کے منہ میں ہاتھ کون ڈالے گا؟ اہم سوال یہ ہے کہ جے آئی ٹی 60 دنوں کی ہی
ہو گی یا 120 ، 240 یا اس سے بھی زیادہ دنوں پر محیط ہو گی؟جے آئی ٹی کے
بیچ میں کتنے ٹریلر ، معاملات، مسائل یا ہنگامے جنم لیں گے کہ لوگ پاناما
اور جے آئی ٹی کو بھول بھال جائیں گے؟اہم ترین اشارہ یہ ہے ہمارا قانون
اتنا بے بس ہے کہ ایک عام سے مجرم تاجی کھوکھر( جس پر قتل کا الزام ہے) کو
سزا دینے کامجاز نہیں ہے تو عالی جاہ کو کون کچھ کہہ سکتا ہے؟۔یہ بھی عین
ممکن ہے کہ وزیر اعظم اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ میڈیا ہائپ کے ذریعے ایک آدھ
بار کمیٹی کے سامنے حاضر ہو کے عوام کے سامنے حقیقی لیڈر بننے کی کامیاب
کوشش بھی کریں۔ خیر جوبھی ہو خدا کرے ملک وقوم کے روشن مستقبل کے لیے
ہو۔کالم نگار کی ذاتی دانست کے مطابق پانچوں ججوں نے فیصلہ دیانت داری پر
مبنی دیا ہے بس فرق اتنا ہے کہ تین دو کی اجزائے ترکیبی میں تین ججوں نے
حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے غیر افضل پر عمل کیا ہے اور کم ثواب کمایا ہے
جب کہ باقی دو ججوں جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار نے افضل پر عمل کرتے ہوئے
پوراپورا ثواب کمایا ہے۔ |