تحریک انصاف کے بڑوں کے اجلاس کے بعد مٹھائیاں بانٹنے کی
باری آئی تو میں نے اعجاز چودھری سے یہ کہا چودھری صاحب یہ مٹھائی شوگر
لیول نارمل کرنے کے لئے کھاؤں یا جشن منانے کی۔کہنے لگے عظیم فیصلہ ہے دل و
جاں سے خوشی ہے ہمیں تو شکرانے کے نفل بھی پڑھنے چاہئیں اور پھر انہوں نے
اﷲ کے حضور سجدہ ریزی کی دوسرا بندہ میں تھا جو نفل پڑھنے کی سعادت پا گیا
ہوئے جو ہم سابقین جمیعت۔یہ کالم دو روز پہلے لکھا تھا ہمت نہیں پڑ رہی تھی
کہ اسے آگے بڑھاؤں ۔دل مضطرب لوٹا ہوا چاہتا ہے۔میرے ایک پیارے دوست ہیں
نام ہے جن کا آصف محمود ان سے مشورہ کیا۔اور اب اسے مکمل کر رہا ہوں۔
سوال سادہ سا ہے وہ کہتے ہیں ناں کہ اگر آپ کو اپنے دشمن کا پتہ چل جائے تو
آدھی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔اگر زرداری اور اعتزاز احسن ہمارے دوست ہیں تو
سمجھ لیجئے ہم اپنا سفر کھوٹا کرنے جا رہے ہیں۔چابت یہ ہوا کہ ہم اپنے پاؤں
پر پیپلز پارٹی کا کلہاڑا مارنے جا رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی اس لڑائی میں نواز شریف کے ساتھ رہی وہ دباؤ بڑھاتی رہی اور
کیس ختم کرواتی رہی اس کا ڈاکٹر عاصم نکل گیا اس نے شرجیل میمن کو چھڑوا
لیا اور تازہ خبر بھی سن لیجئے پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ پنجاب کے سیکریٹری
اطلاعات مصطفی نواز کھوکھر کے چچا سابق ڈپٹی سپیکر نواز کھوکھر کے بھائی(جو
زرداری کے بہترین دوستوں میں سے ہیں) تاجی خان کھوکھر کی ضمانتیں بھی منظور
ہو گئی ہیں۔ بھٹو کی پارٹی اپنے سارے کام نکلوانے کے ساتھ ساتھ اب وہ خون
مل کر شہیدوں میں بھی شامل ہونا چاہتی ہے۔کاش ہماری ٹیم میں آج وہ قانونی
ماہرین بیٹھے ہوتے جو اس سارے معاملے کے تحقیق جائزہ لے کر پی ٹی آئی کو
سمجھاتے کہ یہ مو ء قف آپ کا ہے۔ وہ ماہرین قانون جن کو زمانہ جانتا ہے کاش
وہ بھی ٹھنڈہ ہو کر رہتے تو ہمیں ان ادھار کے ماہرین سے نجات مل جاتی کبھی
بابر اعوان اور کبھی اعتزاز احسن۔موصوف پر سکھوں کی لسٹیں دینے کا الزام تو
تھا ہی انہوں نے پہلے دھرنے کی پیٹھ میں جو چھرا گھونپا تھا وہ بھی زمانے
کو یاد ہے۔
پی ٹی آئی کو کسی صورت عدلیہ اور فوج کی ناراضگی مول نہیں لینی چاہئے۔پیپلز
پارٹی والوں کا کیا ہے یہ تو دشمن کے ٹینکوں پر بھی بیٹھ کر پاکستان آنا
گوارا کرتے ہیں۔زرداری تو اینٹ سے اینٹ بچانے کی بات کرتے نظر آتے ہیں لیکن
یاد رکھئے پی ٹی آئی کا ورکر کبھی فوج کے بارے میں برا نہیں سوچے گا۔میں تو
اس بات پر بھی حیران تھا کہ ہم نے جنرل راحیل شریف کی تعیناتی پر سخت مو ء
قف کیوں اپنایا۔ایران جانے اس کا کام جانے۔اس نے ہمارے ساتھ کون سی نیکیاں
کی ہیں۔سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں نے ہمارے پچاس لاکھ پاکستانیوں کو
نوکریاں دے رکھی ہیں۔سعودی عرب کو فوج تو انڈیا بھی دے سکتا تھا بنگلہ دیش
تو ہے اسلامی ملک اور تھوڑے ہیں۔ویسے ہم ہیں عجیب لوگ قاضی حسین احمد اور
جنرل اسلم بیگ نے خوش بختی کے دروازے کو لات ماری صدام حسین کی تصویروں
والے جلوس نکالے۔اس وقت چند ایسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے عزت سادات بچا لی
اور سعودی عرب کی حمائت کا اعلان کیا۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ امریکہ اور
سعودی عرب کی خواہش کے خلاف پاکستان میں بر سر اقتتدار آ سکتا ہے تو مجھے
کہنے دیجئے اس کی عقل گھاس چرنے گئی ہے۔زردار نواز شریف دو کھلنڈرے ہیں
جنہوں نے سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور امیرکہ دونوں سے بنا رکھی ہے ہم
ان سب کے ساتھ نالاں جھگڑالو بچے کی طرح پیش آتے ہیں۔آج فیصلے کو تین دن ہو
گئے ہیں ہم اب میدان میں اس کے خلاف اتر گئے ہیں ۔میرا خدا جانتا ہے کہ پی
ٹی آئی نے اس فیصلے سے سیاسی اخلاقی دونوں فتوحات حاصل کر لی تھیں پتہ نہیں
کون سا آسیب کا سایہ آیا اور اس نے ہمیں عدالت کے سامنے لا کھڑا کیا اب بات
کی جا رہی ہے کہ جے آئی ٹی نا منظور ہے اگر نامنظور تھی تو پہلے دن اسی وقت
کیوں نہیں تھی۔وہ مٹھائیاں وہ نوافل یہ سب کیا تھا؟مومن کبھی ایک سوراخ سے
دو بار نہیں ڈسا جاتا ہم پیپلز پارٹی کی موری میں بار بار کیوں انگلی دیتے
اور لیتے ہیں؟رہی جماعت اسلامی کی وقت ثابت کرے گا کہ سراج الحق سید مودودی
جیسے ہمالہ شخص کے مقابلے میں زیرو ہے جسے اعتزاز احسن کی صورت میں محسن
نظر آئیں وہ کیا بندہ ہے؟
کوئی دو ماہ پہلے ایک سٹیٹس لکھا تھا کہ فیصلہ ایسا ہو گا کہ بنی گالہ میں
مٹھائیاں بٹیں گی اور دھمال جاتی امراء میں۔فیصلہ آ گیا اس روزبرادر آصف
محمود کے ٹاک شو میں تھا معلوم ہوا کہ میاں صاحب نہیں گئے بڑے مزے کی بات
تھی کہ اس محفوظ فیصلے کا لوگوں کو پہلے سے ہی علم تھا سردار خان نیازی نے
تو کہہ دیا کہ نواز شریف نہیں جائے گا ۔میرے ساتھ نوید ملک بھی تھے اسلام
آباد بار کے انتہائی اہم رکن انہوں نے بڑی خوبصورت بات کی کہ اگر فیصلہ یہی
دینا تھا تو ۵۷ دن کس لئے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا۔سچ پوچھیں
یہ اس عدالتی کمیشن کا چربہ فیصلہ تھا جس میں ۲۰۱۳ کے انتحابات میں ہزار
خرابیاں لکھی گئیں لیکن آخر میں کہا گیا ہمیں کہیں بھی منظم دھاندلی نہیں
دکھائی دی۔میں بھی بنی گالہ میں تھا میں نے بھی مٹھائی کھائی چودھری اعجاز
سے میں نے پوچھا یہ مٹھائی شوگر لیول کو نارمل کرنے کے لئے ہے یا خوشی کی
انہوں نے جائے نماز ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور کہنے لگے اﷲ کا کرم ہے دو
ججوں نے موصوف کو یہ سند تفاخر بخش دی ہے کہ آپ نہ تو صادق ہو اور نہ ہی
امین باقی تین نے بھی انہیں کلین چٹ نہیں دی اور کہا ہے کہ جناب وزیر اعظم
جائیے جا کے گریڈ انیس بیس کے افسران سے چٹ لے کر آئیں کہ آپ مسٹر کلین
ہیں۔آج شنید ہے کہ لندن اور جدہ میں بھی اولاد صالح نے مٹھائیاں بانٹی اور
کھائی ہیں۔وہ کہتے ہیں دو بھائی ایک چوک میں حلوائی کی دکان پر مٹھائیاں
بانٹ رہے تھے لوگوں نے پوچھا کہ کس خوشی میں کہنے لگے ساتھ والی گلی میں
چند لوگ ابا جی کو مار رہے تھے بڑی مشکل سے عزت بچا کر بھاگے ہیں مٹھائی
اسی سلامتی کی خوشی میں کھلا رہے ہیں۔نون لیگیوں کی مٹھائیاں اسی کھاتے میں
گن لیں۔میں مٹھائی بھی کھائی اور برادر اعجاز چودھری کی دعوت پر شکرانے کے
دو نفل بھی پڑھے۔ تحریک انصاف کی اعلی قیادت نے اس فیصلے کو دل و جاں سے
خوش آمدید کہا اور اس کا اظہار بڑے اچھے انداز سے کیا دوسری جانب خواجہ آصف
خواجہ سعد رفیق احسن اقبال کے سانس پھولے ہوئے تھے۔سچ پوچھیں جب تکئے پر سر
رکھ کر سوئیں گے تو انہیں بھی یہ خیال تو ضرور آئے گا کہ ان کا قائد عزیر
بلوچ،بلدیہ ٹاؤن کی انکوائری جیسے مراحل سے گزرے گا۔ہو سکتا ہے کہ پہلے کی
طرح جے آئی ٹی کی طرح حکمران اس دریا سے بھی پار ہو جائیں لیکن تاریخ میں
جتنی بدنامی میاں نواز شریف کے نصیبوں میں آئی ہے پاکستان کے کسی حکمران کو
اس کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔عمران خان آج ایک بار پھر لیڈر بن کر سامنے آئے
انہوں نے پریس کانفرنس میں بھی بڑے تحمل اور بردباری سے فیصلے کی تفصیلات
پر روشنی ڈالی۔لیڈر یہ ہوتا ہے اگر وہ چاہتا تو آج پاکستان کی سڑکوں پر
ہنگامے ہو چکے ہوتے ۔آج بنی گالہ میں دیگر دوستوں سے بھی ملاقات
ہوئی ہر ایک اس بات پر خوش تھا کہ جے آئی ٹی میں وقت کے وزیر اعظم کو مزید
دوماہ گھسیٹا جائے گا ہر دو ہفتے بعد سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی جائے
گی۔یہی عمران خان کی فتح ہے کہ اس نے کرپشن کے خلاف پوری قوم کی لڑائی لڑی
اور ایک بد مست ہاتھی کو عدالت کے سامنے لا کھڑا کیا۔اس بات میں بھی وزن ہے
کہ اگر فاضل عدالتیں انصاف بلیک اینڈ وائٹ صورت میں دے دیتیں تو یہ فیصلہ
صدیوں زندہ رہ جاتا۔ایک بڑی دل چسپ بات سردار خان نیازی نے آصف محمود کو
کہہ دی کہ اس قسم کے فیصلے اور روایات و اخلاقیات کی پاسداری پاکستان میں
ناپید ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدالت کے فاضل ججوں نے اپنے سرسے بلا آگے
کر دی ہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ وہ کیسا فیصلہ تھا جس کے بارے میں کہا گیا
کہ اسے برسوں یاد رکھا جائے گا۔یہ بات بھی کہی گئی کہ شائد نظریہ ضرورت ایک
بار پھر زندہ ہو گیا جسٹس منیر کو بھی لوگوں نے آج ہی یاد کیا مگر سچ تو یہ
ہے کہ وہ فیصلہ ہے جسے قبول کرنے کا وعدہ ہے اور اسے قبول بھی کیا گیا ہے
شائد آنے والے دن پاکستان کی قسمت بدل دیں اگر اس کمیشن کے ہاں سے کوئی
مثبت بات سامنے نہ آئی تو قوم کو سخت مایوسی ہو گی۔پھر دنیا اس کورٹ کو
برسوں نہیں صدیوں یاد رکھے گی کہ ایک شخص نے بھرپور جد و جہد کے بعد
اشرافیہ کو عدالت میں لا کھڑا کیا لیکن منصفوں نے یہ سنہری موقع ضائع کر
دیا۔فیصلے آ جاتے ہیں ان کے اثرات تھوڑا وقت لیتے ہیں چلیں دیکھتے ہیں کہ
پانامہ کی ہلچل کی دھند چھٹنے کے بعد فیصلہ کس رنگ میں سامنے آتا ہے ہنوز
سوال زندہ ہے کہ قوم کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے یا نظام ابھی بھی ایسی طاقت رکھتا
ہے جسے عمران خان اور ان کے ساتھی توڑ نہیں سکے۔وقت اس کا فیصلہ جلد کر دے
گا۔شائد کسی کی اس بات میں کوئی وزن تھا یا نہیں لیکن بات تو سوچنے کی ہے
کہ کیا ۵۷ دنوں تک محفوظ فیصلہ بو چھوڑ گیا تھا؟یہ ایک سوال تھا لیکن دو
ججوں نے کہا نواز شریف مجرم ہے تین نے کہا جانچ پڑتال کی ضرورت ہے اب اگر
اس کے باوجود منڈہ پاس ہے تو اﷲ ہی سمجھے۔ آج نون لیگی حلقوں میں ایک اور
شور ہے کہ عمران خان نے اعتزاز احسن کے کہنے پر عدلیہ سے لڑائی مول لی ہے
۔مٹھائی ونڈو
|