ساڈا حق اتھے رکھ ( فتوحی کو گیس دو )

میں سب سے پہلے اہلیانِ تھنیل فتوحی کا تہہ دِل سے مشکور ہوں جنہوں نے میری جرأت مندانہ آواز پر لبیک کہا اور اپنے حق کے حصول کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ دُنیا کے جس جس کونے میں تھنیل فتوحی کا باسی موجود ہے اُس نے میرے مطالبے ’’ساڈا حق اَتھے رکھ‘‘ کو سراہا اور ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ بالخصوص تھنیل فتوحی کی نوجوان نسل کے جوش و خروش اور عزم نے مجھے بہت متاثر کیا اور حوصلہ دیا۔ جب سے میں صحافت میں آیا ہوں اُس وقت سے میں نے ہمیشہ ارباب اختیار کو تھنیل فتوحی گیس فراہمی کے حوالے سے لکھتا رہا ہوں۔ نجانے کتنی خبریں دیں اور کالمز بھی لکھے۔ 1985ء سے تھنیل فتوحی کا پُر زور مطالبہ رہا ہے کہ یہ گاؤں 10 ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور چکوال شہر سے صرف 4 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کو گیس کی فراہمی بہت پہلے ہو جانی چاہئے تھی۔ اس گاؤں کے باسی گذشتہ 32 سالوں سے مسلسل ووٹ دیتے آرہے ہیں مگر آج تک ہمارا حق ہمیں نہ مل سکا۔ ہر الیکشن میں ہم سے ووٹ لے لئے جاتے ہیں اور پھر اس کے بدلے ہمیں کچھ دیا نہیں جاتا۔ اتنی بڑی آبادی کا اتنا پرانا وعدہ کسی کو یاد نہیں۔ ہر بار الیکشن کے موسم میں موسمی سیاستدان آتے ہیں، گاؤں کے لوگوں سے ووٹ لے جاتے ہیں مگر اپنا کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کرتے۔ ہر بار میرے گاؤں کے لوگ اس اُمید کے ساتھ ان کو ووٹ دیتے ہیں کہ شاید اس بار اُن کو احساس ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب میرے گاؤں کے لوگوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ابھی چند دن قبل ہر چہار ڈھاب میں گیس فراہمی کی ایک تقریب ہوئی جس میں بندۂ ناچیز کو بھی بولنے کا موقع ملا۔ میں نے موجودہ ایم این اے میجر (ر) طاہر اقبال کے سامنے کلمہ حق کہا اور پُر زور انداز میں اہلیان تھنیل فتوحی کے جذبات کی عکاسی کی اور مطالبہ پیش کیا۔ میری زبان سے نکلا ہوا نعرہ ’’ساڈا حق اَتھے رکھ‘‘ اس وقت تھنیل فتوحی کے بچے بچے کی زبان پر موجود ہے۔ طلحہ چوہان اور حارث چوہان جیسے معصوم بچے بھی فیس بک پر یہی ٹیگ لگا کر ارباب اختیار کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت پورے گاؤں کی زبان پر بس ایک ہی بات ہے کہ ہمیں گیس دی جائے۔ 2018ء کے الیکشن سے قبل اگر اس دیرینہ مطالبے کو پورا کر لیا جاتا ہے تو یہ اس گاؤں کے لوگوں کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہو گی اور اگر وعدہ پورا نہیں ہوتا تو پھر پورا گاؤں الیکشن کا بائیکاٹ بھی کر سکتا ہے۔ اہلیان تھنیل فتوحی کے ساتھ انتہا کی ناانصافی ہوئی ہے۔ ہر الیکشن میں ایک نیا وعدہ کر لیا جاتا ہے۔ میں نے انہی دنوں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو بھی ایک ای میل بھیجی ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ اب جب سارا تھنیل فتوحی جاگ چکا ہے تو ضرور اس مسئلے کا حل نکلے گا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری عوام کو اپنا حق لینا بھی نہیں آتا۔ ہمارے قیمتی ووٹ کی وجہ سے یہ لوگ اقتدار میں آتے ہیں۔ جب یہ اقتدار میں آتے ہیں پھر یہ عوام کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ عوام سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور اپنے کئے ہوئے وعدے بھول جاتے ہیں۔ نئے الیکشن میں نئے وعدے کرتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی 32 سال سے تھنیل فتوحی کی عوام کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ مین شہر چکوال سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہمارا گاؤں بنیادی انسانی ضرورت سے محروم ہے۔ صبر کی انتہا ہو گئی اور اب ہمیں بتایا جائے کہ اب اور کتنا صبر کریں۔ اب اس وعدے کی تکمیل کا وقت آن پہنچا ہے۔ اب اس کی ذمہ داری نوجوان نسل نے لے لی ہے۔ تھنیل فتوحی کی نوجوان نسل جاگ چکی ہے۔ نوجوان نسل نے اب یہ عہد کر رکھا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں ہمارا حق دیا جائے پھر ہم سے ووٹ مانگے جائیں۔ تھنیل فتوحی کی نوجوان نسل کو احساس ہو چکا ہے کہ کیا ہم صرف ووٹ دینے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ جب ہم ووٹ دیتے ہیں پھر ہمارا بنیادی حق بھی ہمیں دیا جائے۔ اگر ہمارا حق ہمیں نہیں دے سکتے پھر ہم سے ووٹ مانگنے کیوں آتے ہو؟ چند دن قبل تھنیل فتوحی کے ڈیڑھ سو کے قریب نوجوانوں نے جب میرے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ ہر نوجوان اپنے حق کے حصول کے لئے سنجیدہ نظر آرہا تھا اور ہر نوجوان مجھے مل کر اس عزم کا اظہار کر رہا تھا کہ وہ اہلیان تھنیل فتوحی کے اس مطالبے ’’ساڈا حق اَتھے رکھ‘‘ کے حصول تک اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے اور میری مختصر سی تقریر کے بعد گاؤں کے نوجوانوں نے اسی نعرے کو بلند آواز میں پکارتے ہوئے گاؤں کا چکر لگایا۔ یہ ایک ایسی کوشش تھی جس کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کسی بھی جماعت کی وابستگی سے ہٹ کر صرف اور صرف تھنیل فتوحی کو گیس فراہمی کے مطالبے کو یقینی بنائیں۔ چونکہ اگر یہ مطالبہ پورا کر لیا جاتا ہے تو یقینی طور پر یہ اہلیان تھنیل فتوحی کے لئے بہت بڑی خوشخبری ثابت ہو سکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 56913 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.