گزشتہ ہفتے بھارت میں الٰہ آباد ہائی کورٹ
نے تاریخی بابری مسجد کے تقریباً ساٹھ سالہ پرانے قضیے کا فیصلہ سنا دیا۔
سولہویں صدی میں خاندانِ مغلیہ کے جد امجد ظہیرالدین محمد بابر نے ایودھیا
میں یہ مسجد تعمیر کی تھی۔ اور تین سو سال تک اس مسجد کی یہ یہی حیثیت تھی
لیکن بیسویں صدی کے وسط میں یعنی ١٩٤٩ میں قیام پاکستان کے بعد اس مسجد کو
متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ یہ جگہ دراصل رام کی جنم
بھومی یعنی جائے پیدائش ہےاور مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے یہاں قائم
مندر کو مسمار کر کے بابری مسجد تعمیر کی تھی۔ جس پر مسجد رام جنم بھومی کا
تنازعہ اٹھا۔ اپنے مؤقف کو سچا ثابت کرنے کے لئے ایک رات ہندو انتہا پسندوں
نے مسجد کے صحن میں کھدائی کر کے وہاں مورتیاں رکھ دیں اور پھر دعویٰ کیا
کہ مسجد کے صحن کی کھدائی کی جائے تو وہاں سے مورتیاں برآمد ہونگی۔ چونکہ
وہ لوگ راتوں رات کھدائی کر کے مورتیاں رکھ چکے تھے اس لئے ہندوؤں نے جس جس
جگہ کی نشاندہی کی عین اسی جگہ سے مورتیاں برآمد ہوئیں جس کے بعد یہ تنازعہ
مزید بڑھا اور فسادات کی نوبت آئی۔ اس دوران یہ کیس عدالت میں جاچکا تھا
اور بھارتی عدالتوں نے اس کیس کا درست فیصلہ کرنے کے بجائے معاملے کو طول
دیتے رہے۔
اس مسئلے نے 1992 میں اُس وقت خونریز شکل اختیار کر لی تھی، جب ایل کے
ایڈوانی کی سربراہی میں ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروپ نے بابری مسجد کو
منہدم کر دیا تھا اور اُس کے بعد ایودھیا میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات
نے ہندوستان کی تاریخ میں فرقہ وارانہ خونریزی کا ایک نیا باب رقم کیا تھا۔
پُرتشدد فسادات کے اُن واقعات میں دو ہزار مسلمان مارے گئے تھے۔ اور گجرات
کے شہر سورت میں سابر متی ایکسپریس کے نام نہاد واقعے پر ہونے والے فسادت
بھی انہی فسادات کا تسلسل تھے۔ خیر یہ کیس عدالت میں چلتا رہا اور بالآخر
باسٹھ سال کے طویل عرصے کے بعد اس کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ فیصلے کے
مطابق مسجد کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ جس میں سے ایک حصہ
رام جنم بھومی گروپ، ایک حصہ نرموہی اکھاڑہ اور ایک حصہ مسلمانوں کو دیا
جائے گا، جبکہ یہ بات قابل غور ہے کہ مسجد کا اندرونی حصہ ہندوؤں کو دیا
گیا ہے یعنی اب وہاں مسجد بننے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
مجھے بابری مسجد کی شہادت کا دکھ ہے مجھے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بننے
کا بھی دکھ ہے اور مجھے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس غیر منصافہ فیصلے پر بھی
افسوس ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس پر کوئی احتجاج نہیں کرونگا۔ میں اس کے خلاف
کوئی آواز نہیں اٹھاؤں گا۔ کیونکہ ایک مضبوط پاکستان ہی بھارتی مسلمانوں کے
تحفظ کی ضمانت تھا کیا آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ملک مضبوط ہے؟ نہیں آج
ہم داخلی اور خارجی طور پر جس طرح کے انتشار کا شکار ہیں، جس طرح سے ہم
کمزور ہیں تو اس میں ہم کس طرح بھارت کو اس مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ بابری
مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر نہ کرے اور بابری مسجد کی تاریخی حیثیت بحال
کرے؟
اس کے علاوہ پھر یہ بات بھی ہے کہ میں کس منہ سے بھارت کی مذمت کروں کہ وہ
مسجد کا تقدس پامال نہ کرے جبکہ خود میرے اپنے ملک میں مساجد خطروں کی زد
میں ہیں۔ خود میرے اپنے ملک میں مساجد میں بم دھماکے، اور فائرنگ ہورہی ہے۔
بزرگان دین کے مزارات بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ پہلے داتا صاحب کا مزار
اور اب حضرت عبداللہ شاہ غازی کا مزار نشانہ بنایا گیا ہے تو میں کیسے کسی
غیر مسلم اور غیر پاکستانی کو کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنی حرکات سے باز رہے؟
مساجد کا احترام کرے۔
پہلے مجھے اپنے ملک میں مساجد و مزارات کو تحفظ دینا ہے ان کو محفوظ و
مامون بنانا ہے تاکہ کسی مسلمان بھائی کو مسجد جاتے ہوئے کسی بات کا خوف نہ
ہو اور نہ ہی کسی عقیدت مند کو کسی بزرگ کی آخری آرام گاہ پر حاضری دینے
میں کوئی جھجھک محسوس ہو۔ اور یہ کام حکومت وقت کا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی
جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے اور ان کی حفاظت کا انتظام کرے اور یہ کام
اسی وقت ہوگا جب حکومت کسی بھی قسم کی سیاسی وابستگی اور اتحادیوں کے
ہاتھوں بلیک میل ہونے کے بجائے سنجیدگی سے اقدامات کرے اور مجرموں کو تحفظ
نہ دے بلکہ ان کو کیفر کردار تک پہنچائے اور نہ ہی ہر واردات کو بلا سوچے
سمجھے خود کش کہہ کر اپنی جان چھڑائے کی کوشش کرے۔ متعدد بار یہ بات ثابت
ہوئی کہ جس واردات کو انتظامیہ اور حکومت نے خود کش قرار دیا وہ بعد میں
ریموٹ کنٹرول یا ٹائم بم دھماکہ ثابت ہوا۔ سانحہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کے
معاملے میں بھی یہی ہوا کہ اس کو خود کش قرار دیا گیا اور بعد میں معلوم
ہوا کہ جس نصیب گل کو خود کش حملہ کے طور پر شناخت کیا گیا وہ نصیب گل کچھ
دن بعد اپنے گھر پہنچ گیا،گویا کہ پولیس نے روایتی طور پر کیس کو داخل دفتر
کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب تک اصل مجرموں کا تعین نہیں کیا جائے، سنجیدگی کے
ساتھ انسانیت کے ان قاتلوں کو گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت
تک بم دھماکے ہوتے رہیں گے اور ملک میں لاقانونیت کا راج رہے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم بات کہ داتا دربار اور عبداللہ شاہ غازی کے
مزارات پر حملوں کے بعد اہل سنت ولاجماعت کے رہنماؤں نے مزارات کی حفاظت کے
لئے وارڈنز بھرتی کرنے کا مشورہ دیا ہے اور اس کے لئے ایک مخصوص مسلکی
تنظیم کے سربراہ نے اپنے کارکنوں کو پیش کیا ہے کہ وہ اس کام کے لئے تیار
ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ چیز مزید انتشار کا سبب بنے گی اور کسی ایک گروہ
کے مقابلے میں ایک دوسرے گروہ کی سرپرستی کرنا درست نہیں ہے کیونکہ بعد میں
یہی گروپ جن کی آج حکومت سرپرستی کرے گی کل یہی گروپس معاشرے کے لئے مشکلات
پیدا کریں گے۔ ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس بات کی شدید
مخالفت کرتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ عوام کو عوام سے لڑانے کے بجائے
حکومت، انتطامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا اپنا کام درست طریقے
سے انجام دیں تو یہ سانحات رونما نہیں ہونگے۔ بصورت دیگر آئے روز بم دھماکے
اور فائرنگ ہوتی رہے گی۔
جب ہم اپنے ملک میں ان مساجد و مدارس و مزارات کو تحفظ دیں گے اور یہاں امن
وامان ہوگا، ہمارے اپنے ملک میں انتشار کا خاتمہ ہوگا اور ہم داخلی و خارجی
طور پر مضبوط ہونگے تو پھر ہم بھارت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور پورے
اعتماد کے ساتھ بابری مسجد کی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں اس سے
پہلے نہیں۔ اس لئے میں بابری مسجد پر کچھ نہیں لکھوں گا۔
|