قوم کو فضولیات میں الجھا دیا گیا

علامہ اقبال ؒ نے اس امت کی کیا خوب منظر کشی کی ہے:
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
یہ ملک اور قوم کے ساتھ دشمنی ہے ۔ مگر اسے حب الوطنی کا نام دیا جا رہا ہے۔ سب کام ملک کے وسیع تر مفاد میں کئے جاتے ہیں۔ ہر وہ عمل جس کا نتیجہ اچھا نکلے، درست ہوتاہے۔ جس کا انجام اچھا نہ ہو، اسے مثبت کے دائرہ میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ہم ہی ہیں جنھوں نے ملک دوستی اور ملکی مفاد کے نام پر ملک کو توڑ دیا۔ ترقی کے نام پر زوال کو فروغ دیا۔ فضول بحث و مباحثوں میں قوم کا وقت ضایع کیا۔ یہ پاناما کیس، ڈان انکشافات سب کیا ہے۔ کیا اس سے ملک میں تعمیر و ترقی کا دور شروع ہوا۔ ملکی نیک نامی میں کوئی اضافہ ہوا۔ جواب نفی میں ہے۔ قوم کو الجھا دیا گیا ہے۔ یہ سب فضول مشق ہے۔ یہاں صرف اقتدار اور کرسی کی سیاست ہو رہی ہے۔ کوئی کرسی سے چپک جانا چاہتا ہے اور کوئی اس کرسی پر قبضہ چاہتا ہے، کوئی اس کرسی کو صرف اس لئے توڑنے پر طاقت آزمائی کرتا ہے کہ کوئی دوسرا اس پر کیوں بیٹھا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اقتدار کا یہاں ایک طریقہ کار ہے۔ ایک نظام ہے۔ یہاں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ان کے ووٹ ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ انتخابات میں اصلاحات کی ضرورت ہے تو اس کے لئے قانون سازی ہو سکتی ہے۔ ملک کا کوئی قانون نازک یا نامناسب ہے تو اس کو بدلنے کے لئے پارلیمنٹ ہے۔ جو لوگ ملک و قوم کی نمائیندگی کرتے ہیں، ان کی تعلیم ، تجربہ، معاملہ فہمی کے لئے ڈگری یافتہ ہونا ہی کافی نہیں، بلکہ وہ تعلیم یافتہ ہوں۔ عقل مندی ان کا پیشہ ہو۔ تہذیب و تمدن اور اعلیٰ اقدار ان کی نس نس سے ٹپکیں۔ اگر کوئی پھول ہے تو اس کی خوبصورتی اور مہک اس کی گواہی دے گی۔ اسے کسی کی سند کی کیا ضرورت ہے۔ اگر آپ مہذب ہیں تو شائستگی ، لب و لہجہ، طریقہ واردات اس کا ثبوت پیش کرے گا۔ غیر پارلیمانی گفتگو، بازاری قسم کا لب ولہجہ ، خود کو بڑا تیس مار خان سمجھنے کی کوشش سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہ انتہائی کرب اور افسوس کا مقام ہے کہ ہماری تعلیم و تربیت میں شخصیت سازی کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ہم سٹیٹس کے چکروں میں پھنسے ہیں۔ دکھاواعام ہے۔ ہر کوئی خود کو بڑا ثابت کرنا چاہتا ہے۔ بڑائی صرف اﷲ تعالیٰ کی شان ہے۔ انسان جو اکڑ دکھاتا ہے ، دوسروں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتا ہے، یہ انسان بہت ہی کمزور مخلوق ہے۔ اگر تازہ ہوا اور پانی دستیاب نہ ہو تو اس سے حیوان بھی دور بھاگ جائیں۔ ہم راستے پر چلتے ہوئے ان کھوپڑیوں کو ٹھوکر مارتے ہیں جن کے اندر بھی کبھی ایک عیار دماغ تھا۔ جسے کیڑے مکوڑوں نے پل بھر میں چٹ کر دیا۔ یہاں ابلیس، فرعون ، نمرود اور شداد بھی گزرے ہیں۔ جو اس قدرطاقت، دولت، علم، حسن و جوانی کی دولت سے مالامال تھے کہ خدائی کا دعویٰ کر بیٹھے اور اﷲ تعالیٰ سے ٹکر لے لی ۔ مگر ان کے غرور اور تکبر ، گھمنڈ کو زمانے نے ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ انہیں ہمارے لئے عبرت بنا دیا گیا۔

پاکستان میں 2018کے مجوزہ انتخابات سے قبل ہمارے سیاستدان حیران کن کرتب دکھانے لگے ہیں۔ ای دوسرے پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ کیچڑ اچھالے جا رہے ہیں۔ مسلہ ایک کرسی کا ، اقتدار کا ہے۔ کون جانتا ہے کہ یہی کرسی کل ان پر سوار ہو گی۔ ان سے جواب اور احتساب لے گی۔
 
اشرف المخلوقات ، زمین پر اﷲ کا خلیفہ ہونے کا اعزاز اس انسان کو حاصل ہے۔ جو اﷲ کی دی ہوئی طاقت، دولت، اقتدارکو امانت سمجھنے سے قاصر ہو رہا ہے۔ یہ انسان اس میں خیانت کرتا ہے، دھاندلی، کرپشن، گھوٹالے سے دوسروں کا نوالہ بھی چھین لیتا ہے۔ اقتدار میں آکر عوام کے دکھ درد، ضروریات، گزارشات، مطالبات ٹھکرا دیتا ہے۔ اسے صرف اپنی اور اپنے عزیز واقارب کی فکر کھائے جاتی ہے۔ دوسروں کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیتا ہے۔ پاکستان میں جیسے سرکس لگی ہے۔ یہ ڈرامہ بازیاں ہیں۔ با اختیار لوگ اپنی تنخواہ، مراعات، مفادات لاکھوں میں بھی کم خیال کرتے ہیں اور اپنے ماتحت کی چند ہزار روپے پر بھی احتراز ہوتا ہے۔ اپنے رشتہ داروں، دوستوں کے لئے نئی نئی آسامیاں تخلیق کرتے ہیں اور دیگر کو نوکری سے نکالنے کے حربے تلاش کئے جاتے ہیں۔ اپنے دفاتر ، گاڑیاں ، رہائش بڑی ، آرام دہ، دیدہ زیب بناتے ہیں اور ماتحتوں کے کیبن پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ یہی آج کے فرعون اور نمرود ہیں۔ جو امانتوں میں خیانت کرتے ہیں۔ مساوات اورعدل و انصاف سے دور بھاگتے ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر بھی پیچھے نہیں۔ وزیراعظم، وزراء کی تنخواہوں، مراعات میں ایک بار پھر لاکھوں روپے کا اضافہ کیا گیا۔وزیراعظم کی تنخواہ سوا چھ لاکھ روپے ہو گی۔ مگر انہیں قریب کیمپوں میں موجود 1989کے مہاجرین نظر نہیں آتے جنھیں 50روپے یومیہ فی کس میں 10سال سے ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔چیف سیکریٹری اور آئی جی کو تبادلے پربھی لاکھوں روپے کی مراعات، گاڑی، ڈرائیور، خانساماں، مالی وغیرہ کی لالچ دی گئی۔ آئی جی پی جناب بشیر میمن کو سلام پیش ہے کہ جنھوں نے ان مراعات کو مسترد کر دیا۔ آزاد خطے میں جسے تحریک آزادی کشمیر کبھی بیس کیمپ بھی کہا جاتا تھا، میں اس طرح کی حکمرانی شروع ہے جس سے عوام کو توقعات وابستہ تھیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت آزاد ریاست میں بھی ہے اور وفاق میں بھی۔ مقبوضہ کشمیر میں روزانہ کشمیری شہید ہو رہے ہیں۔ ان شہداء ، یتیموں، بیواؤں کے لئے فنڈ قائم کرنے کے بجائے ہمارے حکمرانوں کو اپنی فکر ستائے جا رہی ہے۔ شکوہ اس لئے بجا سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ کبھی گڈ گورننس کے دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے۔ جو دعویٰ کرے ، اس کی زرا سی لغزش بھی نظر آتی ہے، اس پر سوال بھی کیا جا سکتا ہے۔ جو دعویٰ ہی نہ کرے ، کوئی وعدہ بھی نہ ہو، اس سے کیسا گلہ شکوہ۔ سمجھ نہیں آتا یہ لوگ محتاجوں اور مظلوموں کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں۔ جو انہیں کندھا دے کر کرسی پر بٹھاتے ہیں۔

اصل معاملہ اپنا جاہ وجلال دکھانا، طاقت اور اقتدار کا رعب و دبدبہ بٹھانا ہے۔ یہ نئی قسم کی سرکس ہے۔ جس میں قوم کے سامنے ایسے کرتب دکھائے جا رہے ہیں جو تعمیر وترقی، تہذیب و تمدن کا کوئی پتہ نہیں دیتے۔ یہ قوم کو فضولیات میں الجھا کر تعمیری سوچ سے دور کرنے کی کوشش ہے۔ یہ سازش ہے کہ قوم ذہنی پسماندگی کی دلدل میں پھنس جائے۔ ہمارے بعض حکمرانوں کی فرعونیت اور سیاستدانوں کی طرز تکلم سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔یہ لوگ نئی نسل کی خطرناک انداز مین تربیت کر رہے ہیں۔ ایسی تربیت تا کہ ہر کوئی فضولیات میں الجھ کر کسی دلیل، منطق کو خاطر میں نہ لائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم تعلیم یافتہ نہیں بلکہ ڈگری یافتہ نسل تیار کر رہے ہیں۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484733 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More